ڈھول سپاہی اور انصافی بیگم

ڈھول سپاہی اور انصافی بیگم کا معاشقہ 2011 سے شروع ہوا۔ 2014 میں اپنے عروج پہ پہنچا اور پورے خاندان کی مخالفت کے باوجود 2018 میں ان کی لو میرج ہو گئی۔ شادی کے بعد ہر پریمی جوڑے کو زندگی کی تلخ معاشی اور معاشرتی حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے-

ہمارے ڈھول سپاہی کو بھی شادی کے بعد معلوم ہوا کہ اس کی سابقہ محبوبہ اور حالیہ زوجہ کو گول روٹی پکانا تو دور کی بات، آٹا گوندھنے کا فن ہی نہیں آتا۔ اس نے سسرالیوں کے ستر سال کا گند صاف کر کے گھر کو گل و گلزار بنانے کی جو قسمیں کھائی تھیں وہ سب جھوٹ تھیں، صرف ایک سال میں وہ خود اتنا گند پھیلا چکی کہ اب شاید ستر سال اسے صاف کرنے میں لگ جائیں۔ تبدیلی کے نام پر اپنے نالائق، ناکارہ، نشئی بہن بھائیوں اور کزنوں کی پوری ٹیم بھی ڈھول سپاہی کے سر پہ لاد چکی ہے۔ جبکہ ڈھول سپاہی کے چھوٹے بہن بھائیوں کو یہ کھانے کیلئے لنگر بھجوا دیتی ہے اور خود "دیور جی” کی بائیک پر سیر سپاٹے کرتی رہتی ہے۔ حقوق زوجیت کی ادائیگی میں البتہ کمال حوصلہ رکھتی ہے، نظریں چار ہوتے ہی ٹانگیں اٹھا لیتی ہے- مگر ڈھول سپاہی اسے لے کر محلے میں شادی کی دعوتوں پر نکلا تو معلوم ہوا کہ یہ والہانہ خودسپردگی صرف اس کیلئے نہیں، جو بھی آنکھیں چار کر لے وہ ٹانگیں اٹھوانے میں کامیاب رہتا ہے۔

ڈھول سپاہی اب پچھتا رہا ہے اور اسے اپنی دونوں پرانی منکوحائیں بھی یاد آنے لگی ہیں، مگر وہ اب حلالہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ گلی کی باقی سب دوشیزائیں ڈھول سپاہی کی بیوفائی کے قصے دیکھ اور سن کر اس سے برگشتہ و بدگمان ہیں، ایسے میں وہ ایک بار پھر اپنا گھر برباد کر کے جائے تو جائے کہاں۔ صرف اسی ایک وجہ نے انصافی بیگم کا گھر اب تک ٹوٹنے سے بچا رکھا تھا- ۔

محلے کے مولوی صاحب مگر یہ تجویز لائے ہیں کہ میاں تم سائیڈ پہ ہو رہو، ہم تمہارے چھوٹے بہن بھائیوں سے مل کر جلوس نکالتے ہیں اور انصافی بیگم پہ بدکاری کا الزام لگا کر اسے منہ کالا کر کے تمہارے گھر سے نکال دیتے ہیں۔ تمہاری سابقہ منکوحاوں میں سے ایک تو مجھ سے حلالہ کرنے کو دل و جاں سے راضی ہے، دوسری ابھی کچھ نخرے دکھا رہی ہے مگر مولوی سے بچ کر کہاں جائے گی، بس اس کی شرط یہ ہے کہ پہلے اس کپتی انصافی بیگم کو طلاق دی جائے۔

ڈھول سپاہی اب مخمصے کا شکار ہے- مولوی کی تجویز کچھ کچھ دل کو لگتی بھی ہے مگر یہ دھڑکا بھی رہتا ہے کہ مولوی نے حلالے کے بہانے سابقہ بیویاں مستقل اپنے گھر میں ڈال لیں تو وہ کیا کرے گا۔ دوسری جانب اس سے اپنے یتیم چھوٹے بہن بھائیوں کی چیخ و پکار بھی نہیں دیکھی جا رہی۔ ادھر علاقے کے تھانے میں اس پر پرچہ ہوا پڑا کہ محلے کے اوباش نوجوانوں کو اس کے گھر پناہ ملتی ہے- اسے امید تھی کہ انصافی بیگم اپنی اداؤں کے جوہر دکھا کر پرچہ منسوخ کروا لے گی مگر انصافی بیگم کئی راتیں گھر سے باہر گزار کر بھی فروری تک کا ٹائم ہی لے پائی ہے اور اسے اپنا کارنامہ قرار دے کر گھر میں ڈانس پارٹی بھی منعقد کروا چکی ہے-

ڈھول سپاہی نے اب یہ سوچا ہے کہ مولوی جانے اور انصافی بیگم جانے۔ دوسری جانب انصافی بیگم کہہ رہی ہے کہ گھر تیرا ہے یا میرا؟ مولوی جلوس لے کر آتا ہے تو بدنامی تیری ہے یا میری؟ مولوی یار کس کا تھا, تیرا یا میرا؟

میرا کیا ہے میں تو کہیں بھی رات گزار لوں، لیکن گھر پہ مولوی میری سوتنوں سمیت قابض ہو گیا تو پھر تیرا کیا بنے گا کالیا؟

تو کالیا، سوری ڈھول سپاہی ان دنوں سخت الجھن کا شکار ہے-

کیا وہ مولوی کو اپنے گھر پہ جلوس لانے کی اجازت دے گا؟

کیا مولوی انصافی بیگم کو گھر سے نکال پائے گا؟

کیا ڈھول سپاہی انصافی بیگم کو طلاق دے پائے گا؟

کیا نون غنہ خانم اور مائی پیپلو اس سے دوبارہ نکاح پڑھوانے پر رضامند ہوں گی؟

کیا مولوی اپنا حلالہ والا وعدہ نبھائے گا؟

یہ، اور بہت کچھ اور جاننے کیلئے اپنی اپنی سکرینوں سے چپکے بیٹھے رہئے۔ اس ملک میں آپ کے مقدر میں صرف انٹرٹینمنٹ لکھی ہے، سو انجوائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے