کامیاب لوگوں کی مشترک عادات

زندگی میں ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے مگر کامیابی اور ناکامی کے معیار ہر شخص کے اپنے اپنے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی قیمت لگوا کر کامیابی کا حصول چاہتے ہیں اور کچھ بے نیازلوگ زندگی میں اس اصول کو حرزِ جاں بنائے رکھتے ہیں کہ زندگی اتنی غنیمت بھی نہیں جس کے لیے ع
عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لوں
اور پھر اسی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔

کامیابی ہر شخص کے لیے الگ الگ معنی رکھتی ہے۔ جو کردار زندگی نے اُسے سونپا ہے اُسے بخوبی ادا کر جانا ہی کامیابی ہے۔ طالب علم کی کامیابی یہ ہے کہ وہ تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھائے، ماں کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔ میرے نزدیک کامیابی کا معیار یہ ہے کہ انسان نامساعد حالات کے باوجود کوشش کرتا رہے۔ زندگی کے مشکل دور میں بھی اپنی مثبت توانائی کو ضائع نہ ہونے دے بلکہ اس سے اپنے لیے حوصلہ کشید کرے۔ مغرب سے ہمارے ہاں پہنچنے والی دانش ہمیں بتاتی ہے کہ دولت، معاشرتی اعتبار سے اعلیٰ سٹیٹس اور آسودہ زندگی ہی انسان کی کامیابی کا معیار ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ ”اگر آپ غریب پیدا ہوتے ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں لیکن اگر آپ غریب ہی مر گئے تو پھر اس کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔‘‘(بل گیٹس)۔ آپ میں سے شاید کچھ لوگ اس مقولے کو مادیت پرستی کا نام دیں لیکن میرے نزدیک اس میں انسان کو اپنے حالات بہتر بنانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن پاک میں بھی ایک آیت کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت آپ بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کوشش کرتے رہنا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے۔ اور اس راستے میں اپنی صلاحیتوں پر یقین اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ، انسان کا اصل زادِ راہ ہے۔ ایک اللہ والے نے کمال کی بات کی کہ اگر مجھے اپنی کوشش کی ناکامی کا اشارا رب کی جانب سے بھی مل جائے تو بھی میں اپنی کوشش ترک نہیں کروں گا کیوں کہ کوشش کرنا رب نے انسان پر فرض کر دیا ہے۔ اور ”انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے‘‘(قرآن)

لفظ کوشش محض ایک لفظ نہیں بلکہ میرے نزدیک نظریہ حیات ہے۔ انسان کی عادات، رویوں، عمل اور رد عمل پر مبنی زندگی گزارنے کا ایک پورا طریقہ ہے۔ کوشش کے ساتھ اُمید اور یقین وابستہ ہے۔ اور اسی اُمید کی سرزمین پر خواب پنپتے ہیں‘ زندگی کی تمام دوڑ دھوپ انہی خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے ہے۔ کامیاب لوگوں کی زندگی میں چند ایسی خصوصیات ہیں جو سب میں مشترک ہیں۔چند روز پہلے انٹرنیٹ پر سیر کرتے ہوئے بڑی دلچسپ تحریر نظر سے گزری۔”دنیا کے کامیاب لوگوں کی پچاس مشترک عادات‘‘ غور کیا تو اندازہ ہوا کہ اگر ان میں سے چند مثبت رویے ہی اپنا لیے جائیں تو زندگی میں نمایاں تبدیلی ممکن ہے۔ ان میں سے چند زندگی بدل دینے والی عادات کچھ یوں ہیں:

تمام کامیاب افراد سحر خیز(علی الصبح اُٹھنے والے) ہوتے ہیں۔ وہ دن کا آغاز خالی ذہن سے نہیں کرتے بلکہ دِن بھر کے کرنے کے تمام کاموں کی فہرست تیار کرتے ہیں‘ پھر ان کاموں کو ترجیحات کے لحاظ سے ترتیب دیتے ہیں۔ کامیاب افراد اپنے وقت کے ہر لمحے کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ وقت کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ دنیا کے ارب پتی افراد جانتے ہیں کہ ان کی اصل دولت ان کا پیسہ نہیں بلکہ ان کا وقت ہے۔ (اور ہم ہمیشہ وقت ضائع کرنے کے در پے رہتے ہیں)

کامیاب لوگ منظم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے پروگرام کو ترتیب دیتے ہیںاور پھر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے وقت کا صحیح استعمال کرتے ہیں۔ شہرہ آفاق شاعر اور فلسفی ٹیگور نے اپنی اسی سالہ زندگی کے دس برس شدید بیماری میں گزارے لیکن اس کے باوجود ان کی زندگی اتنی متنوع رہی، اور وہ اتنا زیادہ کام کر گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کی اس کامیابی کا رازصرف یہی ہے کہ وہ انتہائی منظم انسان تھے۔ وہ صبح دم اپنے دِن کا آغاز کرتے اور دِن بھر اپنے کاموں کو ترتیب وار پایۂ تکمیل تک پہنچاتے۔ کامیاب لوگ اپنے اندر صرف مثبت خیالات کو جگہ دیتے ہیں۔ زندگی کے نامساعد حالات، رکاوٹیں، ناکامیاں اُن کی سوچوں کو منفی خیالات کی طرف ضرور دھکیلتی ہیں مگر اُن کے اندر اصلاح کا خود کار نظام‘ منفی خیالات کوفوراً مثبت سوچ میں بدل دیتا ہے۔ اُن کا دھیان گلاس کے آدھے خالی پن پہ نہیں ہوتا بلکہ وہ آدھے بھرے ہوئے گلاس کے لیے شکر گزار رہتے ہیں۔

تمام کامیاب لوگ شکر گزار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامیوں پر شکایت اور شکوے نہیں کرتے بلکہ ہر ناکامی سے کوئی انوکھاسبق حاصل کرتے ہیں اور اپنے کام اور رویوں کو بہتر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کامیاب لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھنے میں لگے رہتے ہیں۔ کامیاب لوگ اور مطالعہ لازم و ملزوم ہیں۔ بل گیٹس صرف دنیا کے امیر ترین بزنس مین ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں انسانوں کی بہبود اور فلاح پر اربوں ڈالر خرچ کرنے والے سخی بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر روز ایک نئی کتاب کا مطالعہ اُن کی سوچ کو جلا بخشتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ مائیکرو سافٹ کا بانی انٹرنیٹ سرفنگ کو مطالعہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کے مقابلے میں کتاب کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بعد اب کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ایپل اُن کا بانی سٹیوجابز بھی روزانہ ایک نئی کتاب کا مطالعہ کرنے کا عادی تھا۔ کامیاب لوگ مستقل مزاج ہوتے ہیں۔ ہوا کتنی ہی مخالف کیوں نہ ہو وہ اپنے کام کو مستقل مزاجی سے کرتے رہنے کو ہی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ کامیاب لوگ اپنی صحت کا دھیان کرنے والے ہوتے ہیں۔ ایکسر سائز، چہل قدمی اور کسی نہ کسی طرح کی جسمانی ورزش ان کی زندگی کا لازمی جزو ہوتی ہے۔

کامیاب لوگ دوسروں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے‘ لیکن کامیابی میں وہ سب کے حصے کو تسلیم کرنے والے ہوتے ہیں۔ ایک ڈائری پر اپنے مقاصد اور پروگراموں کو تحریر کرنا بھی ان کی روزانہ کی عادات میں شامل ہوتا ہے۔ در اصل یہ عادات ہی ہوتی ہیں جو زندگی کو سنوارتی یا بگاڑتی ہیں۔ عما نوئیل جیمز‘ کلرک سے ترقی کرتے ہوئے بزنس آئیکون بنا‘ اُس کی ایک پہچان موٹیویشنل سپیکر اور مصنف کی بھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ Success is nothing more than a few disciplines practiced every day. سو کامیاب زندگی گزارنی ہے تو زندگی کو منظم کریں۔ فیس بُک، وائس ایپ اور سوشل میڈیا پر اپنا وقت استعمال کرتے ہوئے سوچ لیں کہ آپ اپنا قیمتی سرمایہ ضائع کر رہے ہیں۔!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے