بے چاری بیانیہ اور El chapo

بیان کا بیانیہ سے وہی رشتہ ہے جو El chapo کا گُزمان سے۔ بیان مذّکر ہے اور بیانیہ کے آخر میں بر وزنِ نشاۃِ ثانیہ مونث کا تاثر اُبھرتا ہے۔ اُردو کے لُغتیہ مسائل بھی بیانیہ جیسے ہیں۔ لُغت کے ان مسائل کو بیان کرنے والے اب خال خال رہ گئے۔ کچھ جنت کو سُدھار گئے اور جو باقی بچے وہ سرکار کو اُدھار گئے۔

پروفیسر نذیر صدیقی اور ڈاکٹر صدیق شبلی جیسے اُستاد کالج کے زمانے میں میسر رہے۔ ایسے نابغہ روزگار استاد، اب کہاں؟ مثال کے طور پہ اُردو لُغت کا مسئلہ یوں ہے کہ آزادی مونث ہے جبکہ فسادی مذکر ہے۔ خود سوچیے، اگر مارچ کے ساتھ آزادی لگا دی جائے تو یہ آزادی مارچ ہو ”گا‘‘ یا آزادی مارچ ہو ”گی‘‘۔ اسی طرح اگر فسادی مارچ برپا ہو جائے تو یہ فسادی مارچ ہو گا یا نہیں۔ یہ قضیہ ویسے ہی ہے جیسے وزیر اور کابینہ کا۔ وزیر جب اکیلا ہو تو مذکر کہلاتا ہے۔ وہ جہاں بھی بیٹھے مذکر ہی ہو گا۔ لیکن اگر سارے وزیر اکٹھے ہو کر کیبنٹ روم میں بیٹھ جائیں تو اِن کا اجتماع کہلائے گا کابینہ، جو مونث ہے۔ اسی تسلسل میں مقرر ”ہوتا‘‘ ہے جبکہ تقریر ”ہوتی‘‘ ہے۔ ایسے ہی کچھ مسائل حافظ ولایت اللہ صاحب کو درپیش ہوئے جو ایک سابق چیف جسٹس ہدایت اللہ صاحب کے بھی ابا تھے۔ حافظ صاحب نے اپنی لُغتیہ مشکل یوں بیان کر رکھی ہے:
غضب ہے خوف و خطرہ ہے مذکر
مونث ہے ‘شجاعت‘ اور ‘ہمت‘
‘فراق ‘ و ‘وصل‘ ہیں دونوں مذکر
مونث ہے مگر واعظ کی ‘صحبت‘

یہ بیانیہ فروشی کا بزنس بھی مزے کا ہے۔ نجومیوں کے بزنس کی طرح۔ ویسے تو ہر شعبے یا بزنس میں نجومی موجود ہیں لیکن یہاں پیشہ ور نجومیوں کی بات ہو رہی ہے۔ اب اس سوال کا جواب میں کیا دے سکتا ہوں کہ نجومی جہاں پہ بھی ہو وہ پیشہ ور ہی ہوتا ہے۔ اس لئے نجومی کا سلیبس المعروف طریقہ واردات کا بیانیہ ہر جگہ 3 نکات پہ مشتمل ہے۔ ان میں سے پہلا نکتہ، خوشی کی خبریں۔ دوسرا، یادگارِ جوانی، اور تیسرا بچپن کی بیماری۔

خوشی کی خبر حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی گھوڑے کو ڈھائی کلو سبز چارہ 175 دن کھلائیں۔ کالی دال ڈیڑھ پائو روزانہ کالے پرندوں کے آگے ڈالیں۔ آدھا کلو چھیچھڑوں سے پاک گوشت لے کر چھت پہ چڑھ جائیں اور یہ گوشت صرف چِیلوں کو کھلائیں۔ اگر کوئی بوٹی کوا لے اُڑا۔ تو بَوٹی کے وزن کے حساب سے اُتنی خوش خبری ضائع ہو جائے گی۔ خوشی کی خبر یہ ہے کہ ایک روشن ستارہ آپ کی زندگی میں آنے والا ہے۔ لفظوں کے ایسے سراب میں چونکہ خواب چھپا ہوتا ہے‘ اس لئے یار لوگ یہ جا، وہ جا، فوراً خوش بختی کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس نجومی بیانیے کا دوسرا حصہ ہے، آغازِ جوانی میں آپ کا دل ٹوٹا تھا۔ دل ٹوٹنے جیسی ”فتوحات‘‘ پر ہر اہلِ دل کا دل اُچھل پڑتا ہے بلکہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔ اس لئے دل کے دیرینہ مریض کہہ اُٹھتے ہیں ”واہ، نجومی واہ، کیا بات ہے۔ میرا یہ پرسنل سیکرٹ کیسے پتہ چلا‘‘۔ تیسرے نمبر پہ ہے بچپن کی بیماری۔ کیونکہ ہر بچہ، بچپن میں بیمار تو ہوتا ہی ہے۔ اس لئے اُسے ایک آدھ بیماری ضرور یاد رہ جاتی ہے۔

سیاسی کاروبارِ نجوم اس سے بھی بڑھیا درجے کا ہے‘ جس کا 5 نکاتی بیانیہ یہ ہے۔ نکتہ نمبر1: جنابِ لیڈر کی مفروری والی واردات کو ہجرت قرار دینا۔ نکتہ نمبر2: معافی نامے کو تحریری اعلانِ بغاوت کہنا۔ نکتہ نمبر3: موصوف کی ناکامیوں کو یہودیوں کی عالمی سازشیں ثابت کرنا۔ نکتہ نمبر4: مسلسل منی لانڈرنگ پر ”ہٰذا من فضلِ ربی‘‘ کا سائن بورڈ لگانا۔ نکتہ نمبر5: تسلسل کے ساتھ بوٹ پالش اور مالش کرنے کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بے جگری سے لڑی جانے والی Trojan war ٹھہرا دینا جس کی ”ہیلن آف ٹرائے‘‘ پنڈی اسلام آباد کی رہنے والی ہے۔ لیکن ان دنوں سیاست کے مولانا نے مزاحمت کے سارے بیانیے لپیٹ چھوڑے ہیں۔

میٹھے چاولوں کی اس دیگ کے چند چاول آپ کے چکھنے کے لئے حاضر ہیں۔
میٹھا چاول نمبر1: تقریباً 280 سال بعد حضرت لال شہباز قلندر کے دربار شریف پہ مودبانہ حاضری۔
دوسرا میٹھا چاول: اگرچہ سوشلزم ہماری سیاست ہے لیکن مولوی ہماری قیادت ہے۔
میٹھا چاول نمبر3: سب سے مضبوط بیانیہ آلِ شریف کا جس کی قیادت مولانا کی۔
چاول نمر4: احتجاج کا ایجنڈا 100 فیصد خفیہ ہے بلکہ پروگرام بھی۔ دھرنا ہو گا، مارچ ہو گا، جلسہ ہو گا یا لپھڑا۔ ”کتنے آدمی تھے‘‘۔ دیکھ کر بتائیں گے۔

کتنے آدمی تھے والے ڈائیلاگ سے دو چیزیں یاد آتی ہیں۔ ایک گبھّر اور دوسرا سارا ٹبّر۔ چلئے جاتی امرا سے گنتی شروع کر لیں۔ نواز شریف پاکستان سے گرفتار ہوئے۔ ضمانت پر باہر نکلے۔ پھر لندن سے واپسی پر سزا کاٹنے جیل گئے۔ اب پھر سے ریمانڈ پر ہیں۔ ان سارے مرحلوں پر کل مِلا کر، بلکہ بُلوا، اور منگوا کر بھی، سارے آدمی چند درجن یا چند گُرسوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ خادمِ اعلیٰ کی خدمت کے مجنوں دودھ پینے والے ثابت ہوئے۔ بے چارے پوچھتے رہ گئے ”کتنے آدمی تھے‘‘۔ شریف برادران کے مقابلے میں حمزہ شہباز کس فائونڈری کا سریا ہیں یعنی کس باغ کی مُولی۔

مریم صاحبہ کو ہر دورے میں ہر طرف کروڑوں سر نظر آئے۔ اب مریم ہیں اور اُن کے نصف بہتر کپتان صفدر اعوان۔ سرفروش غائب۔ کبھی پولیس کو دھکے کبھی کارکنوں کو دھپّے۔ ہر تاریخ پر مگر ایک سوال ضرور اُٹھتا ہے۔ آج کتنے آدمی تھے؟ اب خود سوچ لیجیے، جس قیادت کے لئے گنتی کے چند لوگوں سے زیادہ کبھی باہر نہیں نکلے۔ وہ اپنے نئے امام کے لئے لاکھوں کا بپھرا سمندر کہاں سے جمع کریں گے۔

اب نواب شاہ چلئے‘ جہاں شاہی اور نوابی آن بان والے لیڈروں پہ ہاتھ پڑا۔ میں بوجوہ، تبصرہ نہیں کرتا۔ اب دل پہ ہاتھ رکھ کر، اپنے آپ کو، آپ ہی سچ بتا دیں، کتنے آدمی تھے؟

اب مولوی صاحب کی سیاسی طاقت بھی دیکھ لیں۔ 1988 کی اسمبلی میں 7 سیٹیں تھیں۔ حاصل کردہ ووٹ تقریباً 2 فیصد۔ 1990 میں 2.9 فیصد ووٹ ملے۔ 1993 میں صرف 4 سیٹیں۔ 1997 میں موصوف کا صفایا ہو گیا۔ صرف 1.7 فیصد ووٹ ملے۔ مشرف دور میں لاٹری نکلی اور 2002 میں 30 سیٹیں حاصل کیں۔ 2008 میں مجلس نے صرف 2.2 فیصد ووٹ لئے۔ 2013 میں 15 قومی اسمبلی کی سیٹیں۔ 2018 میں پھر متحدہ مجلس عمل بنی لیکن سیٹیں وہی 15۔ جے یو آئی (ف) کو کبھی 3.2 فی صد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ سارے الیکشنز میں اُن کے نتائج تقریباً یکساں رہے۔

El Chapo کے سر پر ناجائز کمائی کا تاج سجا ہے۔ اس کا بیٹا گزمان بھگوڑا ہے۔ اسی ہفتے میکسیکو کی حکومت نے اُسے گرفتار کیا۔ ”معززینِ شہر‘‘ مسلح ہو کر گزمان کے آگے کھڑے ہو ئے۔ لاشیں، لہو، آگ اور بارود نے گزمان کو سکیورٹی فورسز کے نرغے سے بچا لیا۔ El Chapo بیرونِ ملک بیٹھ کر بھی میکسیکو میں اپنے مافیا کے فسادی مارچ کی قیادت کرتا ہے۔ خود باہر نہیں آ سکتا نہ اُس کا بیٹا باہر نکلا۔

ذرا اس کی مماثلت اپنے ہاں تو دیکھیں۔ جہاں بیانیہ بے چاری ہے اور پاکستانی El Chapo کو چارہ گر مل گیا۔ جیسے گیسولین کو پٹرول پمپ۔ ان دنوں پٹرول پمپ کا بزنس پھر گرم ہے۔
رات مے خوار، ہم فقیروں سے
دَم کرانے شراب لے آئے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے