دھرنے اور اسٹیبلشمنٹ

سویلین بالادستی کا نعرہ مولانا فضل الرحمن لگائیں ، زرداری یا نواز شریف اصولی طور پہ یہ بات ٹھیک ہے لیکن اس ٹھیک بات کی حمایت کا قطعی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ کسی کی کرپشن یا بری طرز حکمرانی کے بھی حامی ہیں ۔

یہ بات بھی درست ہے کہ اگر قیام پاکستان کے بعد جمہوری اداروں کو چلنے دیا جاتا تو چار چھے انتخابات کے بعد یہاں عوامی بالادستی بہرحال قائم ہوجاتی ۔۔۔ تحریک انصاف کے دوست یاد رکھیں کہ 2011 تک یا اس سے کچھ پہلے کے عرصے میں عمران خان بھی یہی بات کرتے تھے بلکہ ہندی تفریحی چینل کو انکا وہ مشہور زمانہ انٹرویو تو یاد ہی ہوگا کہ جس میں وہ کہتے پائے گئے کہ کیسے مشرف نے مقبول نواز لیگ کی جگہ ق لیگ کو کامیاب کرایا اسوقت تک اپنی ناکامی کا سبب بھی خان صاحب نے اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات کا نا ہونا بتایا ۔۔۔۔ اب اس گرم حمام میں صرف عمران خان تنہا نہیں نواز شریف ، زرداری اور بے نظیر بھی ہیں جنہوں نے اسی اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتے کئِے تو جیسا تیسا اقتدار پایا ۔

دودھ کے دھلے جماعت اسلامی یا جمعیت علمائے اسلام والے بھی نہیں کہ مجلس عمل کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے اقتدار بھی ملا ، مشرف کی مخالفت بھی جاری رکھی ۔

اس بات پہ تنقید نہایت آسان ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں طاقتور اداروں سے سمجھوتے کے بغیر معاملات آسان نہیں رھتے ، یہ تلخ حقیقت ہے ۔۔۔ باقی سیاست دانوں کی کچھ اپنی خامیاں ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے ڈال کر بری نہیں ہوا جاسکتا جیسا کہ بری طرز حکمرانی ، موروثی سیاست ، کرپشن وغیرہ ۔

قصبے کا موضوع گفتگو سردست مولانا کا دھرنا ہے کہ اسکے نتیجے میں حکومت جائے گی یا نہیں ، مجھے لگتا ہے کہ مولانا موت دکھا کر بخار پہ راضی کرلیں گے پھر ان دھرنوں کا مقصد حکومت گرانا تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کے نتیجے میں خفیہ ہاتھ حرکت میں آتے ہیں اور وہ جمہور کے سامنے بےنقاب ہوتے ہیں پسپائی اور جارحیت کا یہ کھیل یونہی چلتا رھتا ہے ۔

میں ذاتی رائے میں ، عمران خان کے دھرنے کا حامی تھا نا مولانا کے مارچ کا ہوں ، لیکن جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا دائرے کا سفر تو مقدر ہی رہے گا ۔

دھرنے سے مجھے مرحوم قاضی حیسن احمد کا 1996 کا پہلا دھرنا یاد آگیا جو بے نظیر حکومت کے خلاف کرپشن کو بنیاد بنا کر دیا گیا اسوقت میں گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا اور انتہائی سختی کے باوجود پنڈی کے مریڑھ چوک تک پہنچے میں کامیاب رہا ۔۔۔ اس دھرنے کا اختتام خونریز ہوا جماعت اسلامی کے چار یا چھے کارکن اپنی جانوں سے گئے اور غالبا ایک یا دو پولیس والے بھی ۔

تب تک یہی زعم تھا کہ جماعت اسلامی حکومتیں گراتی اٹھاتی ہے ، اور حکومت جانے کی صورت میں اگلا الیکشن ہمارے سوا کون جیت سکتا ہے ؟

پھر سمجھ لگ گئی کہ کہانی کے پیچھے ایک ہدایت کار ہوتا ہے جو کسی بھی جماعت کے معصوم کارکنوں کے جذبات احساسات کا استحصال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرلیتا ہے اور ہمارے جیسے کسی اسلامی انقلاب ، کوئی عوامی انقلاب اور کوئی کسی اور نظام کے لانے کے خواب دیکھ کر جاگ جاتا ہے ۔

اس دوران عمران خان ، طاہر قادری اور علامہ رضوی کے دھرنے بھی اسی ہدایت کار کی جانب اشارے کرتے ہیں۔

بات وہی ہے جو ابتداء میں کی کہ سویلین بالادستی کا نعرہ مولانا فضل الرحمن لگائیں ، زرداری یا نواز شریف اصولی طور پہ یہ بات ٹھیک ہے لیکن اس ٹھیک بات کی حمایت کا قطعی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ کسی کی کرپشن یا بری طرز حکمرانی کے بھی حامی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے