اگر نصرت پاکستان میں ہوتی تو عدالتیں کیا کرتیں ؟

نصرت جہاں قتل کیس: استاد پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی نصرت جہاں رفیع کے قتل کے جرم میں 16 افراد کو سزائے موت

بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے نصرت جہاں رفیع نامی لڑکی کو تیل چھڑک کر زندہ جلا دینے کے الزام میں 16 افراد کو موت کی سزا سنائی ہے۔

19 سالہ نصرت کا تعلق ڈھاکہ سے 160 کلومیٹر دور جنوب میں واقع ایک چھوٹے قصبے فینی سے تھا۔

نصرت جہاں ایک مدرسے میں پڑھتی تھیں اور انھوں نے اپنے استاد پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ انھوں نے الزام لگایا تھا کہ 27 مارچ (2019) کو مدرسے کے ہیڈ ماسٹر نے انھیں اپنے دفتر میں بلایا اور ’متعدد بار غیر مناسب طریقے سے چھونے کی کوشش کی‘۔

ان کے مطابق اس سے پہلے کہ ’بات آگے بڑھتی‘ وہ ان کے دفتر سے بھاگ آئی تھیں۔

جنسی ہراس کی شکایت کرنے کے پانچ دن بعد ہی نصرت جہاں کو زندہ جلائے جانے کے واقعے اور اس کے رد عمل نے بنگلہ دیش کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔اس مقدمے کی سماعت بہت تیزی سے مکمل ہوئی ہے۔ پراسیکیوٹر حفیظ احمد نے صحافیوں کو بتایا کہ اس سے یہ ثابت ہوئی کہ ’بنگلہ دیش میں کوئی بھی قتل کر کے نہیں بچ پائے گا‘۔تاہم بظاہر جلدی آنے والا یہ فیصلہ ان کی والدہ کا دکھ کم نہیں کر سکا ہے۔

نصرت جہاں کی والدہ شیریں اختر جمعرات کو فیصلہ سن کر رو پڑیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں اسے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھلا سکی ہوں۔ جس درد سے وہ گزری میں اسے محسوس کرتی ہوں‘۔دوسری جانب دفاع کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔

نصرت جہاں کی موت کی تحقیقات سے انھیں خاموش کرنے کی سازش کا انکشاف ہوا جس میں ان کی اپنی کلاس اور برادری کے متعدد طاقتور افراد شامل تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہراس کرنے کے الزام میں گرفتاری کے بعد ہیڈ ماسٹر سراج الدولہ نے جیل ہی سے قتل کا حکم دیا تھا۔ ان سمیت تین اساتذہ کو جمعرات کو عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔ دیگر دو ملزمان روح الامین اور مقصود عالم بھی بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ پارٹی کے مقامی رہنما ہیں۔ اس کیس میں متعدد مقامی پولیس افسران نے سزا پانے والے مجرمان کے ساتھ تعاون کر کے غلط معلومات پھیلائی تھیں کہ نصرت جہاں نے خود کشی کی ہے۔ ان پولیس افسران کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا۔ بنگلہ دیش کے مقامی میڈیا کے مطابق نصرت جہاں کے اہل خانہ کو پولیس تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ان کے اہلِ خانہ نے مارچ میں ان کے پولیس کے پاس جانے کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔

[pullquote]نصرت جہاں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟[/pullquote]

27 مارچ 2019 کو نصرت کے پولیس کے پاس جانے کے بعد ہیڈ ماسٹر کو گرفتار کر لیا گیا تھا جس کے بعد نصرت کے لیے حالات خراب ہوئے تھے۔چند افراد کے ایک گروہ نے سڑکوں پر ہیڈ ماسٹر کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس احتجاج کا انتظام مدرسے کے دو مرد طلبا نے کیا تھا اور اس میں مبینہ طور پر مقامی سیاستدان بھی شامل ہوئے تھے۔اس کے باوجود چھ اپریل کو اس مبینہ جنسی حملے کے 11 روز بعد نصرت اپنے سالانہ امتحان میں بیٹھنے کے لیے اپنے مدرسے گئی تھیں۔

نصرت جہاں کے بیان کے مطابق ان کی ایک سہیلی انھیں مدرسے کی چھت پر یہ کہہ کر لے گئی تھیں کہ وہاں ان کی ایک دوست کو پیٹا جا رہا ہے۔نصرت جب وہاں پہنچیں تو وہاں چار سے پانچ برقعہ پوش افراد موجود تھے جنھوں نے انھیں گھیر لیا اور ان پر مبینہ طور پر ہیڈماسٹر کے خلاف مقدمہ واپس لینے پر زور ڈالا۔ جب انھوں نے انکار کیا تو انھیں آگ لگا دی گئی۔ پولیس کے مطابق قاتل اس واقعے کو خود کشی ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ ان کا منصوبہ تب ناکام ہوا جب نصرت کو ان کے جائے وقوعہ سے بھاگ جانے کے بعد بچا لیا گیا اور وہ مرنے سے پہلے اپنا بیان ریکارڈ کروانے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔جب نصرت کو مقامی ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے ان کے جسم کا 80 فیصد حصہ جھلسہ پایا، اور ان کے زخموں کا علاج نہ کر پانے کی وجہ سے انھیں ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال بھیجا گیا۔ ایمبولینس میں زندہ نہ بچنے کے خوف سے نصرت نے اپنے بھائی کے موبائل پر اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ اس بیان میں آپ انھیں یہ کہتے ہوئے سن سکتے ہیں ’میرے استاد نے مجھے چھوا، میں اپنی آخری سانس تک اس جرم سے لڑائی لڑوں گی‘۔اس واقعے میں نصرت کا 80 فیصد جسم جھلس گیا تھا اور وہ چار دن کے بعد 10 اپریل کو ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

نصرت جہاں کا کیس خاص طور پر غیر معمولی اس لیے تھا کہ وہ پولیس کے پاس گئیں۔ پولیس نے موبائل پر ان کے بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ کی اور بعد میں میڈیا کو لیک کر دی۔۔ اس دوران مظاہرین ہیڈ ماسٹر کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے جس سے ان کے اہل خانہ کو نصرت کی حفاظت کا خدشہ پیدا ہوا۔نصرت کی موت کے نتیجے میں ملک میں مظاہرے ہوئے اور ہزاروں افراد نے سوشل میڈیا پر ان کی موت اور بنگلہ دیش میں جنسی حملوں کا شکار ہونے والے کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر اپنا غم و غصہ نکالا۔بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ڈھاکہ میں نصرت کے گھر والوں سے ملاقات کی اور وعدہ کیا کہ ان کے قتل میں ملوث تمام افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا ‘کوئی بھی مجرم قانون سے بچ نہیں پائے گا‘۔ بنگلہ دیش ‘مہیلہ پریشد’ نامی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق سنہ 2018 میں ریپ کے 940 واقعات ہوئے مگر محققین کا کہنا ہے کہ ان کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔

[pullquote] عدالت نے سانحہ ساہیوال کے تمام اہلکاروں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا.[/pullquote]

رواں برس 19 جنوری کو ساہیوال کے ٹول پلازہ کے قریب سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ایک خاتون اور بچی سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے تھے. لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی مبینہ فائرنگ سے شہریوں کی ہلاکت کے مقدمے میں تمام چھ اہلکاروں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا ہے۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ارشد حسین بھٹہ نے جمعرات کو اس مقدمے میں فیصلہ سنایا۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کہا کہ قانون کے تقاضے پورے کرنے کے لیے واقعے کی سفاکی اور سنگینی کے بجائے شہادت کو مدنظر رکھنا ہے۔عدالتی فیصلے میں یہ باور کرایا گیا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ فیصلے میں قرار دیا گیا کہ چاہے کچھ بھی ہو انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہییں۔عدالت نے سی ٹی ڈی اور ایلیٹ فورس کے اہلکاروں صفدر حسین، احسن خان، رمضان، سیف اللہ حسین اکبر اور ناصر نواز کو شک کی بنیاد پر مقدمے سے بری کر دیا ہے۔

38 صفحات پر مشتمل فیصلے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ عدالت نے فیصلہ واقعے کی نوعیت پر نہیں بلکہ شواہد کی بنیاد پر کرنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے چاہے ’آسمان گر جائے لیکن عدالت نے انصاف کیساتھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے‘۔انسداد دہشتگردی کی عدالت نے نشاندہی کی کہ استغاثہ نے ساہیوال کے واقعے کا ٹرائل عینی شاہدین، میڈیکل، ڈیجیٹل، شناخت پریڈ کی بنیاد پر کرایا۔ اس طرح وقوعہ میں استعمال ہونے والے اسلحے اور دیگر شواہد کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا تھا۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت نے یہ باور کرایا کہ ’گواہوں نے جائے وقوعہ پر گولیاں چلتی ہوئی نہیں دیکھیں‘۔فیصلے میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ استغاثہ کے کچھ گواہوں نے بیانات دیے ہیں کہ وہ واقعہ ہونے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’واقعے کے گواہوں‘ نے ملزمان کے بری ہو جانے پر کوئی اعتراض نہ ہونے کا بھی بیان دیا ہے۔انسداد دہشتگردی کی عدالت نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ مقتول خلیل کے بیٹے عمیر نے بھی ملزمان کو پہچاننے سے انکار کیا اور ان کے بری ہونے پر اعتراض نہ ہونے کا بیان دیا ہے اور گواہوں کے بیانات کے بعد عدالت واقعے کے عینی شاہد نہ ہونے کے نتیجہ پر پہنچی ہے۔

 

فیصلے میں کہا گیا کہ استغاثہ عینی شاہدوں کے بیانات کی روشنی میں اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی اور ان کی عدم دستیابی کے باعث میڈیکل شواہد الزام ثابت کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئے۔عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ملزمان کے ’فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ‘ میں بھی ملزمان کی شناخت نہیں ہوئی اور جائے وقوعہ سے ملنے والی گولیوں کے خول بھی تاخیر سے فرانزک کے لیے بھیجے گئے۔

فیصلے میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ دیگر گواہوں کی طرح اس وقوعہ میں زخمی ہونے والے گواہ بھی ملزموں کی شناخت نہیں کرسکے۔وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری بھی ہوئی تھی۔ابتدائی طور پر اس مقدمے پر کارروائی ساہیوال کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ہوئی لیکن لواحقین کی درخواست پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اس مقدمے کو ساہیوال سے لاہور منتقل کر دیا تھا۔رواں برس 19 جنوری کو ساہیوال کے ٹول پلازہ کے قریب سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ایک خاتون اور بچی سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں ان افراد پر شدت پسند ہونے کا شبہ تھا۔تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہو گیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے