تجارتی جنگ بندی

دنیا کی دو بڑی معیشتوں امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ میںشدت اور کمی دیکھی گئی۔ دونوں ممالک کے درمیان نا صرف تجارت‘ بلکہ دیگر معاملات پر بھی تلخی بڑھی۔ دونوں بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان تجارتی کشیدگی یونہی بڑھتی رہی ‘ تجارتی جنگ میں شدت آ گئی‘ تو عالمی سطح پر معاشی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اگر امریکہ اور چین کے درمیان معاملات طے نہ ہوئے تو نیا معاشی بحران حقیقت بن کر عالمی سرمایہ دار حکمرانوں کے سامنے کھڑا ہو گا۔ یہ تجارتی جنگ عالمگیریت کے اختتام کے آغاز کا باعث بھی بن سکتی ہے۔رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ نے بظاہر نہ ختم ہونے والے ٹیرف کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ‘ تجارت کے تنازع کو صرف ان دونوں کے مابین تعلق کے طور پر دیکھنا غلط ہوگا۔ یہ ٹرمپ الیون کی یا بنیادی طور پر امریکی یا چین کی براہ راست لڑائی نہیں ہے۔در حقیقت‘ جب عالمی تجارت میں عدم توازن پیدا کرنے کی بات آتی ہے ‘چین پر الزام لگایا جاتا ہے اور اسے بدترین مجرم بھی قرار دیا جاتا ہے۔ چین کے موجودہ کھاتوں کی رقم اب دنیا میں بڑی نہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق‘ چین کی سالانہ اضافی رقم کا حجم تقریباً 130 بلین ڈالر ہے‘ جو جاپان کے تقریباً 180 بلین ڈالراور جرمنی کے تقریبا 280 بلین ڈالرسے نمایاں طور پر چھوٹا ہے۔

گزشتہ دو عشروں کے دوران‘ دنیا کیلئے اپنی وسیع پیمانے پر تجارتی عدم توازن کو درست کرنا مشکل تر ہوگیا ہے۔ ان حالات کو پیدا کرنے والے بہت سارے میکانزم بھی ان کو جذب کرنے میں مشکل بناتے ہیں۔ تجارت میں اضافے اور خسارے بنیادی طور پر گھریلو بچت کے اضافے اور خسارے سے منسلک ہیں‘ جو خود ملکی آمدنی کے عدم مساوات کا نتیجہ ہیں۔ جب تک کہ تجارت میں اس طرح کی عدم مساوات کو تبدیل نہیں کیا جاتا‘ اعلیٰ بچت والے ممالک اپنی بگاڑ کے اثرات کو دوسری قوموں ا ور ممالک کوجیسے امریکہ کرتا آرہا ہے ‘تجارت کو استعمال کرتے رہیں گے۔ اس سے قطع نظر کہ عالمی تجارت کا کنٹرول کس کے پاس ہے‘ عالمی تجارتی تنازع کو ناگزیر بنا دیا گیاہے۔

امریکہ ہمیشہ نظررکھے ہوئے ہوتا ہے کہ کس طرح دوسروں کی زیادتیوں کوہمدردی میں بدل کر اپنے مفادات کو تقویت دے۔روایتی دانشمندی کے برخلاف‘ آج کے تجارتی واجبات مینوفیکچرنگ کی کارکردگی یا غیر معمولی طور پر سخت محنت اور زیادہ بچت کرنے والے ورکس کا نتیجہ نہیں ۔ در حقیقت‘ جاپان میں گھریلو بچت کی شرح‘ جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی سرپلس ہے‘ پچھلے 15 برسوں سے تقریبا ًصفر ہے۔ اس کی بجائے‘ جرمنی‘ جاپان‘ اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں‘ تجارت کی بڑی رقم ان پالیسیوں کا فطری نتیجہ تھا‘ جو مسابقت کے نام پر شہریوں کی بینکاری‘ کاروبار اور سیاسی اشرافیہ کے مفاد کے حصول کی طاقت کو موثر طریقے سے کم کرتے ہیں‘ انہی کمپنیوں کو ان ممالک نے اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے؛چونکہ عدم توازن بہت زیادہ ہے‘ اس لئے چین نمایاں نظر آتا ہے‘تاہم چین کی کھپت کی شرح کم ہے‘ لہٰذا چین کی ہر چیز کی قیمت اب بھی ہر چیز کی قدر کو چکرا دیتی ہے‘ جو چین میں استعمال ہوتی ہے یاگھریلو سرمایہ کاری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اضافی آمدنی کو دور کرنے کیلئے چین تجارت میں اضافی رقم ڈالتا ہے اور بیرون ملک مالیاتی اثاثوں میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔

مبصرین نے ایشین اقدار پر چین کی کم کھپت کی شرح کوفوقیت دی ہے‘ جس کو سمجھا جاتا ہے کہ محنت اور بچت کو ترجیح دی جاتی ہے‘ یہ وضاحت غلط بھی ہو سکتی ہے ۔ اس سے گھریلو بچت کو قومی بچت میں الجھایا جاتا ہے۔اس میںکوئی دو رائے نہیں کہ واقعی چینی سخت محنت کش ہیں‘ اسی طرح ہر جگہ صرف امراء ہی نہیںمزدور بھی ہیں۔ چین کی قومی بچت کی شرح‘سب سے بڑے سرپلس ممالک کی طرح عام گھرانوں کی افادیت سے نہیں چلتی ‘ ملک کے مزدور اور ریٹائرڈ افراد کو قومی آمدنی کا غیر متناسب حصہ مل جاتا ہے ‘جس سے ان کی قوت خرید کم ہوتی ہے۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران‘ چینی گھرانوں کو حاصل ہونیوالی چینی آمدنی کا حصہ جدید تاریخ کے کسی بھی ملک میں سب سے کم رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ چینی کارکن اپنی پیداوار میں صرف تھوڑا سا حصہ استعمال کرتے ہیں‘ یہ کوئی انوکھا کارنامہ نہیں۔ مختلف وجوہ کی بناء پر جرمنی کاروباری منافع کے فوائد کیلئے اجرت دبانے کا ایک ماڈل بھی رہا ہے۔

2000ء کے اوائل میں ہارٹز لیبر اصلاحات کے بعد‘ دبی ہوئی اجرت میں اضافہ آمدنی میں عدم مساوات کا باعث بناتھا اور کاروباری منافع میں نسبتاً حصہ بڑھ گیا تھا‘ جس نے خود بخود ملک کی بچت کی شرح کو مجبور کیا اور ایک چھوٹے کرنٹ اکاؤنٹ والے جرمنی کو ایک ایسے ملک سے منتقل کردیا‘ جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ دنیا میں سب سے بڑے سرپلس کے ساتھ کسی قوم کا خسارہ ‘چینی اور جرمنی کے مزدوروں کی پریشانی ہی نہیں بڑھاتا ‘بلکہ اس بگاڑ کا اثر تجارت کے ذریعہ دوسروں تک بھی پہنچتاہے۔ یہ بات خاص طور پر امریکہ کیلئے اہم ہے‘ جو باقی دنیا کی مالی ضروریات کو پورا کرنے میں انوکھا کردار ادا کرتا ہے‘ کیونکہ امریکی معیشت دنیا کی سب سے بڑی اور متنوع ہے‘اسے سب سے زیادہ لچکدار اور بہترین حکمرانی والی مالی منڈیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ عالمی سطح پرکئی افراد‘ کاروباری شخصیات اور حکومتوں کیلئے یہ قدرتی گھر رہا ہے‘ جو بیرون ملک دولت رکھنا چاہتے ہیں ‘ایسے بہت سے افراد ہیں‘ جو گھر میں سرمایہ کاری نہیں کرسکتے یا نہیں کرنا چاہتے ۔ دنیا کی زیادہ سے زیادہ نصف بچت امریکہ میں ہوتی ہے‘ اسی طرح کی کھلی اور نفیس مالی منڈیوں جیسے برطانیہ اوردوسری بڑی معیشتیں امریکہ کے ساتھ چلتی ہیں۔

دوسرے لفظوں میں‘ کئی دہائیوں سے امریکہ غیر ملکی سرمائے کا خالص درآمد کرنے والا ملک رہا ہے۔1950ء اور 1960ء کے عشرے میں خالص برآمد کنند ہ رہا ہے۔ امریکہ نے دنیا کی باقی بڑی معیشتوں کو کھانا‘ تیار شدہ مصنوعات‘ اور سرمایہ بھیجا‘ خصوصاً جن ممالک کی پیداواری صلاحیت دو عالمی جنگوں کے ذریعے تباہ ہوچکی تھی۔ انہی دنوں میں توازن کا بگاڑ شروع ہوا تھا۔کئی ممالک نے اپنے اندر سدھار لاتے ہوئے اپنی معیشتوں کو مستحکم کرلیا اور کئی اس بحران میں پستے چلے گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے