بڈھے بڈھے جرنیل اور کم سن مولانا

ننھے منے مولانا بڈھے بڈھے جرنیلوں پر برس پڑے تو نوح ناروی یاد آئے کہ ’’ ابھی کم سن ہیں‘‘ ….. بگڑ گئے تو کیا ہوا، عمر ہی ایسی ہے ۔ لیکن گنجینہِ معنی کا طلسم کھلا تو معلوم ہوا نشانے پر امجد شعیب تھے ۔ منظر لکھنوی نے کہا تھا : کم سنی کیا کم ہے ، اس پر قہر ہے شکی مزاج ۔ کم سن مولانا نے الزام بھی لگایا تو کتنا نامعتبر؟ ’’ اسرائیل کے ٹکڑوں پر پلنے والے‘‘۔ اس ملک میں کسی بھی شریف آدمی پر کیچڑ اچھال دینا کتنا آسان ہے ، جسے سیاسی عصبیت حاصل نہیں ، اس کے لیے وطن عزیز میں کوئی امان نہیں ہے؟ سیاست نہ ہوئی بازار ہو گیا جہاں ہر گھر سے گلی آتی ہے۔

مولانا پاکستانی سیاست کا ایک معتبر نام ہے ، سمجھ سے باہر ہے وہ غلطی ہائے مضامین کا اشتہار کیسے بن گئے ۔ کم سن مولانا بڈے بڈھے جرنیلوں پر ایک طرف تو اس بات پر خفا ہیں کہ یہ انہیں سیاست سکھانے کیوں آ جاتے ہیں دوسری جانب وہ اسرائیل کے حوالے سے ایک موقف رکھنے پر انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں ۔ مولانا دلیل کی دنیا کے آدمی ہیں ان سے سوال اب یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کسی رائے کا اظہار کرنا ایک سیاسی موقف ہے یا ایک تزویراتی معاملہ ہے؟ کیا دنیا بھر میں ریٹائرڈ جرنیل ایسے تزویراتی امور پر اظہار خیال نہیں کرتے؟ ریٹائرڈ جرنیل اگر تزویراتی امور پر بھی بات نہیں کر سکتا تو پھر وہ کیا کرے ؟ ایک اونٹ اور دو کشتیاں لے لے اور دن میں چار دفعہ گنگنائے کہ : مولانا آئے ہیں، تبدیلی لائے ہیں ؟ کم سن مولانا اگر بڈھے جرنیلوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی امور پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے تو کیا اس اصول کی روشنی میں مولانا حضرات کو بھی صرف درس و تدریس کے کام سے کام نہیں رکھنا چاہیے؟

اسرائیل کے بارے میں امجد شعیب صاحب کا ایک موقف ہے ۔ اس موقف سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور کوئی چاہے تو اتفاق بھی کر سکتا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ حکمت عملی کے باب میں کیا گیا ، نصوص شرعی کی بنیاد پر نہیں ۔ جب فیصلہ حکمت عملی کی بنیاد پر کیا گیا تو اس پر ایک دوسری رائے دلیل کے ساتھ اگر کوئی پیش کرتا ہے تو یہ بہر حال اس کا حق ہے۔

اختلاف رائے اگر دلیل کے ساتھ ہو تو یہ زندگی کی علامت ہے اور معاشرے کو منجمد ہونے سے روکتا ہے۔اس عمل کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کسی پر یہ الزام عائد کر دینا کہ وہ اسرائیل کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے ، یہ ایک ایسا رویہ ہے جس کا علم اور اقدار کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں ۔ کیا مولانا کے پاس اس الزام کا کوئی ثبوت ہے؟ ثبوت کو تو چھوڑیے کیا ایسے کوئی معمولی سے شواہد بھی ہیں جو اس کی طرف اشارہ کرتے ہوں؟ کیا مولانا کو معلوم ہے جس اسلام کے علماء کی جمعیت کی سربراہی کا معتبر منصب اللہ نے انہیں سونپ رکھا ہے اس اسلام نے کہہ رکھا ہے کہ اے ایمان لانے والو ! زیادہ گمان کرنے سے بچو ، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اور یہاں تو عالم یہ ہے مولانا گمان سے آگے بڑھ کر بہتان عائد کر رہے ہیں۔ نادر اختر نے درست ہی کہا تھا :’’ کم سنی قاتل جاں ہوتی ہے‘‘۔

ننھے منے سے ایک اور مولانا نے بھی نکتہ آفرینی فرمائی ہے کہ ریٹائرڈ جرنیل جنہیں ہم پنشن دیتے ہیں چینلز پر بیٹھ کر سیاست پر بات کیوں کرتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس میں کیا مضائقہ ہے؟ قانون ریٹائرڈ جرنیلوں پر دو سالوں کی پابندی لگاتا ہے ۔ اس کے بعد وہ آزاد ہیں سیاسی تبصرے کریں یا سیاست کریں ۔ مولانا کے ممدوح نواز شریف صاحب کی جماعت میں جنرل عبدالقیوم سینیٹر ہیں اور جنرل عبدالقادر بلوچ وزیر رہے اور اس کے باوجود وزیر رہے کہ مشرف دور میں گورنر بھی رہ چکے تھے۔ مولانا نے کبھی وہاں تو شکوہ نہیں کیا کہ میاں صاحب آپ نے ان بڈھے بڈھے جرنیلوں کو سینیٹر اور وزیر کیوں لگا دیا ۔

ریٹائرڈ جرنیلوں کی پنشن کا طعنہ دینے والوں کو کچھ خبر ہے کہ مولانا کے ایک بھائی کس طرح سی ایس ایس کا امتحان دیے بغیر ڈپٹی کمشنر بنا دیے گئے۔ خود سیفران کی وزارت کا یہ موقف ریکارڈ پر ہے کہ مولانا کے بھائی کے معاملے میں جو ایک کلیریکل جاب کر رہے تھے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی؟ یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ مولانا کو اعتراض کس بات پر ہے۔ جرنیلوں کے تبصروں پر یا ا س بات پر کہ وہ بڈھے بڈھے کیوں ہو گئے۔ مولانا کے بھائی جان اگر سی ایس ایس کیے بغیر ڈپٹی کمشنر اور جانے کیا کچھ بن سکتے ہیں تو یہ بھی کم سنی میں ہی آئی ایس ایس بی کیے بغیر جا کر سیدھے جرنیل لگ جاتے۔

مولانا ریٹائرڈ جرنیلوں کو تو کسی رستم کی طرح للکار رہے ہیں لیکن پرویز مشرف نے جب منتخب حکومت گھر بھیج کر اقتدار پر قبضہ فرمایا تھا تب تو مولانا دیگر بہت سارے ننھے ننھے مولانائوں سمیت مشرف بہ مشرف ہوئے تھے اور وارفتگیوں کا یہ عالم تھا کہ ایم ایم اے کو خلق خدا نے ’ مُلا ملٹری الائنسّ‘‘ کے طعنے دینا شروع کر دیے تھے۔ ا بھی مولانا نے ارشاد فرمایا ہے حکومت سے بات نہیں کروں گا البتہ اداروں سے بات کرنے کو تیار ہوں ؟ کون سے اداروں سے قبلہ ؟ کیا پوسٹ آفس کے کلرکوں اور محکمہ مال کے پٹواریوں سے بات کرنا چاہیں گے آپ ؟ یہ کیسا اہتمام ہے کہ مشرقی دوشیزہ کی طرح ’ منے کے ابا‘ کا نام لینا خلاف ادب سمجھا جا رہا ہے۔ کچھ بتائیں تو سہی آپ کس ادارے سے بات کرنے کوبے تاب ہیں ؟

ایک طرف تو مولانا کا دعوی ہے وہ ’’ سلیکٹڈ ، سلیکٹر اور سلیکشن‘‘ کے خلاف جمہوریت کی بالادستی کی مبارک جدوجہد فرما رہے ہیں دوسری طرف وہ ’’ سلیکٹر ‘‘ سے ملنے کو بھی بے تاب ہیں ۔ خلوت میں انجمن آراء ہونے کی بیتابی کیسی؟ کیا شروعِ عشق کی ان شدتوں کا حوالہ دے کر کوئی نیا سی وی پیش کرنے کا ارادہ ہے؟ یا قیصر الجعفری کی طرح کسی کے کان میں سرگوشی کرنا ہے ’’ تیری بے وفائی کے بعد بھی میرے دل کا پیار نہیں گیا‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے