کنٹینر و سپیکر نہ دیں، بولنے کا حق تو دیں!

فرض کیا کہ ہم ایک جنگل میں ہیں، ہمارے گرد و نواح میں انسان نہیں چرند پرند بستے ہیں، ہمارے پاس باہر کی دنیا سے رابطے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔

اکیسویں صدی کے اس لمحے، اس ساعت میں اس بات کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔

یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا دور ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی پرندوں کی چہچہاہٹ پیغام بن سکتی ہے، ہواؤں کی سرسراہٹ سرگوشیاں کر سکتی ہے، دریاؤں کی لہریں شور مچا سکتی ہیں، فضائیں کہانی کہہ سکتی ہیں اور کہکشائیں راستوں کی نشاندہی کر سکتی ہیں۔

ہم اکیسویں صدی کے باسی ہیں، لفظوں کو اظہار کا پہناوا اور حرفوں کو گفت گو کا اچھوتا انداز مل چکا ہے۔ دنیا واقعی سمٹ کر ہتھیلی میں نہیں بلکہ انگلیوں کے پوروں تلے آچکی ہے۔

رنگ و آہنگ کے اس دور میں نہ رنگ قید ہو سکتے ہیں نہ آوازیں دب سکتی ہیں اور نہ ہی لہجے قابو کیے جا سکتے ہیں۔ جس نے بھی ایسا کیا غلط کیا، حماقت کی، لیکن جناب یہ تو ہم سوچ رہے ہیں۔ اہل اقتدار اور طاقت وروں کو اپنے ہتھیاروں کا زعم رہتا ہے۔

آج کل مظاہروں اور احتجاجوں کا دور ہے اور عالمی سطح پر دیکھیں تو دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگ سڑکوں پر جمع ہو جاتے ہیں۔ اپنے حقوق سے آگہی اور اُن کے حصول کا جتنا ادراک دنیا میں بسنے والوں کو اب ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔

ماحولیات کے بچاؤ کی عالمی مہم ہو یا جمہوری تحریکیں، افراد اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کی تحریک کی بانی گریٹا تھنبرگ دنوں میں ایک مقصد کی کامیابی کے لیے جدوجہد کی علامت بن گئیں ہیں۔ ان کے ایک پیغام پر دنیا سڑکوں پر نکل آتی ہے اور اپنی حکومتوں سے صاف فضاء میں سانس لینے کے بنیادی حق کا مطالبہ کرتی ہے۔

سنہ 2014 میں ہانگ کانگ میں اس وقت حکومت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا جب حکومت نے انتخابی قوانین میں تبدیلی کی کوشش کی۔ عوام نے نہ صرف انہیں مسترد کیا بلکہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔

یہ احتجاج بڑھتے بڑھتے ملک کے طول و عرض میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے اہم دارالحکومتوں تک جا پہنچا۔

چین کے خلاف اس احتجاج کو اتنی پذیرائی ملی کہ آج پانچ برس گزر جانے کے باوجود ہانگ کانگ مظاہروں کی نذر ہے اور مطالبات میں جمہوریت کا نفاذ اب سر فہرست ہے۔

ہانگ کانگ کی حکومت کی جانب سے 2014 میں ان مظاہروں کو روکنے کی مکمل کوشش کی گئی لیکن مظاہرین نے سوشل میڈیا پر ’پیلی چھتری‘ تحریک کا آغاز کر دیا جس کے تحت تمام مظاہرین سڑکوں پر پیلی چھتریاں لے کر نکل آتے۔

ان کا اصل ذریعہ فیس بک تھا تاہم اس کے بعد ایک خاص ایپ ٹیلی گرام کے ذریعے اپنی جدوجہد جاری رکھی گئی۔ ٹیلی گرام ایپ کے صارفین کی تعداد جولائی 2018 میں 26 ہزار تھی جو حیرت انگیز اضافے کے ساتھ جولائی 2019 میں ایک لاکھ 10 ہزار تک جا پہنچی۔ اب تک تقریباً 2300 افراد گرفتار ہو چکے تاہم حکومت مخالف تحریک میں اضافہ ہی دکھائی دے رہا ہے۔

حال ہی میں بیروت میں بھی حریری حکومت کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام اور خصوصاً نوجوان متحرک نظر آئے، البتہ ایک خاص بات یہ کہ یہاں موجود لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے مظاہرین کو اکٹھا ہی نہیں کیا بلکہ مظاہرے والی جگہ کی صفائی کے لیے بھی اسی ذریعے کا سہارا لیا۔ حکومت تادمِ تحریر ان مظاہرین کے چند مطالبات مان چکی ہے اور چند مانے جانے کا امکان ہے۔

اب ذرا وطن عزیز کا جائزہ لیجیے جہاں کہیں ٹوئٹر پر ایک دوسرے کے خلاف ٹرینڈ چلانے کا جھگڑا اور کہیں آوازوں کو دبانے کی کوششیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی سوشل میڈیا ہے جس کے ذریعے کپتان کی 22 سالہ جدوجہد کو زبان ملی اور تحریک انصاف کو پہچان ملی۔

مگر جناب 21 ویں صدی کے اس دور میں آپ صحافیوں کی تنظیم کے ایشیائی نمائندے اسٹیون بٹلر کو عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت سے تو روک سکتے ہیں، لیکن سکائپ کے ذریعے اُن کی آواز کو نہیں دبا سکتے۔

اُن کے پاکستان پہنچ جانے سے کانفرنس میں شریک چند سو افراد سُن سکتے مگر اُن کے روکے جانے سے دنیا بھر میں یہ خبر خوب چلی کہ ایک آزاد اور جمہوری ملک میں آج بھی صحافیوں کو ملک بدر کیا جاتا ہے۔

مولانا کے مارچ کو روکنے کے لیے بھی دھڑا دھڑ انتظامات کیے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ ان پر اور اختلافی آوازوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

جو بھی یہ کر رہا ہے اُسے شاید معلوم نہیں کہ شخصی آزادی اور اظہار رائے پر پابندی کم از کم اس دور میں ناممکن ہے۔

آوازوں کو دبائیں نہیں آوازوں کو سُنیں۔ کنٹینر اور سپیکر نہ سہی مگر بولنے کا حق تو دیجیے۔ کچھ نہیں ہوگا جیسے 2014 میں نہیں ہوا تھا۔

جو حق آپ کے پاس تھا وہ حق دوسرے کو دینے میں کیا حرج؟ چلیے دیکھتے ہیں کہ سمجھ میں آجائے اُن کی یہ بات وگرنہ، دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے