مذہب اور ماحولیات

[pullquote]جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ میں مذہب کا کوئی کردار ہے؟[/pullquote]

دنیا میں ہر دس میں سے آٹھ افراد خود کو مذہبی سمجھتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ مذہب کا غلبہ اتنا نہیں رہا ہے جتنا صدیوں پہلے ہوا کرتا تھا، تاہم اب بھی مذہب کا ہم پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔

مذہب پر اس اعتقاد کے قدرتی ماحول کے بچاؤ کی تحریک پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟ کیا خدا یا کسی غیر مرئی طاقت پر ایمان سے لوگ جانوروں اور ماحول کے بارے میں زیادہ حساس ہو جاتے ہیں یا وہ ان سے لاتعلق ہو جاتے ہیں؟

ان سوالوں کے جواب میں ہر کوئی بہت سی کہانیاں سنا سکتا ہے۔ مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ بہت سے مذاہب اس دنیا کے فانی ہونے کی بات کرتے ہیں جس سے وہ اس خیال کو تقویت دیتے ہیں کہ ’دنیا کو جل جانے دو‘، اور اگر قیامت واقعی آنے والی ہے تو جنگلات جلتے رہیں، ہمیں کیا پرواہ۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہر مذہب رحمدلی کا درس دیتا ہے، اور کچھ مذاہب، جیسے جین مذہب، اپنے ماننے والوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ قدرتی ماحول کو خراب ہونے سے بچائیں۔

[pullquote]مسیحیت اور ماحول[/pullquote]

چلیں پہلے مسیحی مذہب کی بات کر لیتے ہیں۔

سنہ 1967 میں تاریخ دان لِن وائٹ نے ’سائنس‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں قدرتی ماحول کو بچانے میں اخلاقیات کے کردار کا دفاع کرتے ہوئے مسیحیت پر الزام لگایا تھا کہ اس مذہب میں جنگلی حیات کے بچاؤ کا احساس کم پایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انجیل قدرت پر ’کنٹرول‘ حاصل کرنے کی بات کرتی ہے، اسی لیے مسیحیت اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتی ہے کہ ’اگر انسان اپنے مقاصد کے لیے قدرتی وسائل کو بلا روک ٹوک استعمال کرتا ہے تو خدا کی مرضی یہی ہے۔‘

کئی دوسرے مورخین اور مذہبی پیشواؤں کا کہنا ہے کہ وائٹ نے انجیل کی جو تشریح کی وہ غلط تھی، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ بائیبل تو ماحول کو بچانے کی بات کرتی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ وائٹ نے اپنے دعوے کے ثبوت میں ایسے کسی رجحان یا رویے کی مثال نہیں دی جس کی پیروی کوئی سچا مسیحی کرتا ہو۔

سنہ 2013 میں کچھ محققین نے مختلف ملکوں کے اکثریتی مذہب اور ان ممالک میں جانوروں اور پودوں وغیرہ کے بچاؤ کے لیے قائم کیے جانے والے بائیو ڈائیورسٹی زونز کی تعداد کے درمیان تعلق پر تحقیق کی۔ انھوں نے اپنے مطالعے میں یہ نتیجہ نکالا تھا کہ دیگر ملکوں کی نسبت مسیحی ممالک، اور خاص طور وہ ممالک جہاں کیتھولِک مسیحی اکثریت میں ہیں، وہاں قدرتی حیات کے بچاؤ کے لیے مختص مقامات کی تعداد زیادہ ہے۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وائٹ نے جو بات کی تھی وہ بالکل غلط تھی۔ کئی دیگرماہرین کی تحقیق میں یہ ثابت ہوا ہے کہ دوسرے فرقوں کی نسبت قدامت پسند مسیحی کم ماحول دوست ہوتے ہیں۔

مثلاً 1993 میں اینڈریو گرلی نامی ایک پادری اور ماہر عمرانیات نے ایک مطالعہ کیا تھا جس کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ امریکی لوگ جانوروں اور پودوں وغیرہ کے بچاؤ کے لیے کتنے پیسے خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ان کی تحقیق کا نتیجہ یہ تھا کہ بنیاد پرست مسیحی قدرتی ماحول کے بچاؤ پر خرچ کرنے پر کم رضامند ہوتے ہیں، جبکہ کیتھولک مسیحی زیادہ پیسے خرچ کرنے پر رضامند ہوتے ہیں۔

یوں، یہ تحقیق نہ صرف ہر شخص کی ذاتی مسیحیت پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ قدرت کی جانب کسی مسیحی شخص کے رویے کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کا اپنے مذہب پر ایمان کتنا ہے۔

اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قدرت کے ساتھ لوگوں کے رویے کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ دوسرے مذاہب سے خود مسیحیت کا تعلق کیسا ہے۔

ایک اور محقق، ایما شیفرڈ وِلن نے برطانیہ کی یونیورسٹی آف کینٹ میں پی ایچ ڈی کا جو مقالہ پیش کیا تھا، اس میں انھوں نے اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ کینیا میں لوگوں کا اپنے ان قدرتی اور مقدس مقامات کے ساتھ تعلق کیسا ہوتا ہے جو ان قبیلوں نے بنائے تھے جو روایتی مذاہب، بھوت پریت اور روحوں پر یقین رکھتے ہیں۔

اپنی تحقیق کے اختتام پر ایما شیفرڈ کا کہنا تھا کہ ’میں جن مسیحی لوگوں سے ملی، ان میں کچھ ایسے تھے جن کا خیال تھا کہ ایسے جنگلات کو تباہ کر دینا چاہیے جن کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہاں کوئی بدروح رہتی ہے اور ایسے جنگلات کو ختم کرنے والا تباہی کا شکار ہو جائے گا۔‘

ان میں سے ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’روایتی مذہب شیطانیت ہے‘ جبکہ ایک اور شخص کے بقول وہ مقامات جنھیں مقدس سمجھا جاتا ہے ان کا تعلق جن بھوتوں اور توہم پرستی سے ہوتا ہے۔

اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی مخصوص قدرتی مقام کی جانب لوگوں کا رویہ مخالف مذاہب کے درمیان تصادم سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں کینیا میں لوگ اپنے مقامی اور روایتی مذاہب سے دور ہو رہے ہیں، یہ رجحان قدرتی مقامات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

اسی طرح شیروں کے بچاؤ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’لائن گارڈیئنز‘ سے منسلک لیلا حازہ نے سنہ 2006 میں ایک تحقیق کی تھی جس میں انھوں نے دیکھا کہ (کینیا اور تنزانیہ) کے ماسائی قبیلے کے وہ لوگ جو اپنے روایتی مذہب چھوڑ کر مسیحی ہو گئے تھے، ان کے شیروں کو ہلاک کرنے کے امکانات دیگر مذہبی لوگوں سے زیادہ تھے۔

لیلا حازہ کے بقول ’جنگلی حیات، نیشنل پارکس اور دیگر ایسے مقامات کے تحفظ کی جانب ان لوگوں کا رجحان مثبت نہیں تھا جو مذہب تبدیل کر کے پروٹسٹنٹ مسیحی ہو گئے تھے۔‘

چونکہ ماسائی لوگ ابھی ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے اتنے زیادہ عادی نہیں ہوئے، اس لیے وہ دنیا کے بارے میں معلومات کے لیے اپنے پادری کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔ اگر پادری انھیں ہفتہ وار دعائیہ اجتماع میں ماحول سے متعلق کوئی مثبت خبریں نہیں سناتا تو ان کے پاس قدرتی وسائل کو بچانے کے لیے کوئی رہنمائی نہیں ہو گی۔

ایسے گرجا گھر جہاں تبلیغ کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، وہاں بھی ایک ایک ہفتے کے اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اتنے دنوں میں ماسائی لوگوں کو اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے وقت نہیں ملتا۔

ایک دن دو ماسائی افراد کی 35 گائیں کھو گئی۔ جب لیکا حازہ نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے اپنی گائیوں کو اتنے دن اکیلا کیوں چھوڑا تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ’میں جب خدا کے گھر میں ہوتا ہوں تو پھر مجھے اپنے گھر جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ اس دوران خدا میرے مویشیوں کو خطرے سے محفوظ رکھتا ہے۔‘

ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماحول کو بچانے میں مسیحیت اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔

اس حوالے سے باقی مذاہب کیا کہتے ہیں۔

[pullquote]بدھ مت اور قدرت[/pullquote]

سنہ 2016 میں جانوروں کے متعلق انڈین لوگوں کے رویے کے بارے میں کی جانے والی ایک تحقیق میں معلوم ہوا تھا کہ مسلمانوں کی نسبت بدھ مت کے ماننے والوں کا رویہ زیادہ مثبت ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق بدھ مت کے ماننے والے جتنا زیادہ مذہبی تقریبات و رسومات میں حصہ لیتے ہیں، بھیڑیوں اور چیتوں سمیت تمام جانوروں کے بارے میں ان کا رویہ اتنا ہی مثبت ہو جاتا ہے، اور یوں خود بدھ مت اور ماحول کو بچانے کے عمل میں تعلق بھی مزید گہرا ہو جاتا ہے۔

یہ نتائج ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں کہ بدھ مت برادری میں ماحولیاتی کارکنوں کو کیسے کام کرنا چاہیے۔ ایسی برادری میں جب انسان اور قدرت کے درمیان تعلق کے بارے میں کسی فکرمندی کا سامنا ہو تو کارکنوں کو چاہیے کہ وہ مقامی مذہبی رہنماؤں سے رابطہ کریں۔

لیکن اگر اس حمکت عملی پر عمل نہیں کیا جاتا تو مذہبی رہنماؤں کو استعمال کرنے کے نتائج الٹ بھی نکل سکتے ہیں۔

اس حوالے سے ایما شیفرڈ وِلن کہتی ہیں کہ ماحولیات کے ماہر مذہب کے کردار کو فراموش کر دیتے ہیں کیونکہ عام طور پر ’یہ ایک غلط خیال پایا جاتا ہے کہ سائنس اور مذہب اکھٹے نہیں چل سکتے، اور اگر آپ کو ایک اچھا سائنسدان بننا ہے تو ضروری ہے کہ آپ مذہب سے ٹکرائیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہبی افراد اپنے کام میں سائنس کا اطلاق نہیں کرتے۔‘

اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ماحولیات کے کارکن اور مذہبی لوگ جانوروں اور پودوں کے بارے میں بات کیسے کرتے ہیں، کیونکہ یہ دونوں گروہ اپنے اپنے نقطۂ نظر سے بات کر رہے ہوتے ہیں۔

تاہم کچھ تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو ان دونوں کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اس قسم کے ایک گروپ کا نام ’سی آر سی ای‘ یا اتحاد برائے مذاہب و ماحولیاتی تحفظ ہے۔ یہ ایک غیر مذہبی اشتراک ہے جس کا مقصد مذہبی رہنماؤں کو ایسے پروگرام چلانے میں مدد فراہم کرنا ہے جن کی بنیاد مذہبی تعلیمات پر ہو۔

[pullquote]اسلام اور ماحولیات[/pullquote]

اس اتحاد کے کامیاب ترین منصوبوں میں ایک منصوبہ تنزانیہ کے ان ساحلی علاقوں میں جاری ہے جہاں لوگ مچھلیاں پکڑنے کے لیے دھماکہ خیز مواد، ’ڈائنامائیٹ‘ استعمال کرتے تھے۔ ڈائنامائیٹ کا استعمال چھوٹی مچھلیوں، کچھووں اور دیگر چھوٹی سمندری حیات کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔

جب سمندری حیات کے بچاؤ کے لیے کام کرنے والے مقامی کارکنوں نے ان مچھیروں کو دھماکہ خیز مواد استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی تو انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ حتیٰ کہ جب حکومت نے ڈائنامائیٹ کے استعمال پر پابندی لگا دی، پھر بھی مچھیروں نے اس کا استعمال ختم نہیں کیا۔

اس صورت حال میں مذکورہ اتحاد کے کارکنوں نے کام شروع کیا۔

ان کارکنوں نے یہ بات سمجھ لی کہ تنزانیہ کے اس علاقے میں تمام ماہی گیر مسلمان ہیں اور مقامی رہنماؤں کا یہاں بہت اثر ورسوخ ہے۔ چانچہ کارکنوں نے ان رہنماؤں کو ایسی قرآنی آیات بتائیں جن میں مسلمانوں پر زور دیا گیا ہے کہ ماحول کا خیال رکھیں۔ کارکنوں نے انھیں بتایا کہ دھماکہ خیز مواد کا استعمال قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

مقامی مذہبی رہنماؤں کے کہنے پر مچھیروں نے ڈائنامائیٹ کا استعمال چھوڑ دیا۔

سنہ 2007 میں ہفت روزہ کرسچن سائنس مانیٹر سے بات کرتے ہوئے ایک مچھیرے کا کہنا تھا کہ ’مجھے معلوم ہو گیا کہ ڈائنامائیٹ کا استعمال ماحول کے لیے تباہ کن ہے، اور سمندری حیات کے بچاؤ کے اس پہلو کے بارے میں مجھے کسی سفید فام شخص نے نہیں بتایا، بلکہ یہ بات میں نے قرآن سے سیکھی ہے۔‘

اس تنظیم کے بانی فضلون خالد نے اس کی بنیاد سنہ 1980 کے عشرے میں اس لیے رکھی تھی کہ انھیں قدرت سے بہت زیادہ لگاؤ ہے۔

جانوروں سے لگاؤ کے علاوہ فضلون خالد نے یہ بھی محسوس کیا کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح مسلمانوں کا بھی قدرت سے تعلق ختم ہو چکا ہے کیونکہ مسلمانوں کے سر پر بھی دولت کمانے کا بھوت سوار ہو چکا۔

اسی طرح تنزانیہ میں ہی اس تنظیم نے عالمی ادارہ برائے خوراک کے تعاون سے چلنے والے ایک یتیم خانے میں ایسے پلانٹ بھی لگائے ہیں جہاں دوبارہ استعمال کی جانے والی توانائی پیدا کی جا رہی ہے۔

فضلون خالد کہتے ہیں کہ ’یہ گاؤں پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بنایا گیا ہے جس میں قدرتی وسائل کو ضائع نہیں کیا جاتا۔‘

خالد سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر ایک مذہبی تحریک جنم لے رہی ہے جس کا مقصد ماحول کا تحفظ ہے۔

’عالمی حدت پر ہونے والے مذاکرات میں مذہبی تنظیمیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور اسلامِک فاؤنڈیشن فار اینوائرمینٹل سائنسِز نے اسلامِک ڈیکلریشن آن کلائیمیٹ چینچ میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔‘

اس حکمت عملی کی کامیابی کے ثبوت دکھائی دے رہے ہیں۔

[pullquote]ماحولیات اور مذہب کا امتزاج[/pullquote]

انڈونیشیا میں سنہ 2013 میں کی جانے والی ایک تحقیق میں جمعہ کے خطبوں میں ماحول کے تحفظ کے پیغامات کو شامل کرنے کی افادیت بھی ثابت ہوئی تھی۔ تحقیق کے مطابق ان پیغامات کے ذریعے عوامی سطح پر ماحول سے متعلق آگاہی کی مہم میں مدد ملی تھی۔

یونیورسٹی آف کینٹ سے منسلک جین مکے کے بقول ’ تب سے ملائشیا کی حکومت نے کئی ایسے فتوے جاری کیے ہیں جن میں جنگلی حیات کے شکار اور اس کی غیر قانونی تجارت پر پابندی لگائی گئی ہے۔‘

’سی آر سی آئی‘ کا کہنا ہے کہ کارکن مذہب، لوگوں کے مذہب سے تعلق کے متعلق بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ عوامی مسائل پر لوگوں کی سوچ اجاگر کرنے کے لیے مذہب ایک اچھا آلہ ہو سکتا ہے۔‘

جب ہم ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق خبریں پڑھتے ہیں، تو ہمارا واسطہ ایسی خبروں سے پڑتا ہے جن میں بہت مایوسی دکھائی دیتی ہے، جانوروں اور دیگر حیات کی ایسی اقسام کی بات ہوتی ہے جو معدوم ہونے والی ہیں، اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کیسے ہم جنگلی حیات کو تباہ کر چکے ہیں۔

یہ باتیں اپنی جگہ سچ ہیں، لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ منفی خبروں کی بجائے مثبت خبریں لوگوں کو زیادہ متاثر کرتی ہیں اور انھیں کچھ کرنے پر آمادہ کرتی ہیں، یعنی مثبت کہانیوں کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

ایما شیفرڈ ولن کہتی ہیں کہ ’مذہب کو ماحول کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی مثبت ثابت ہو سکتی ہے، اس کا دائرہ زیادہ وسیع ہے، اور سائنس سے جڑے رہنے کی نبست اس حمکت عملی کے فوائد زیادہ ہیں۔‘

’موجودہ ماحولیاتی بحران کو اہمیت نہ دینا ایک احمقانہ بات ہو گی، لیکن اس بحران کو حل کرنے کے لیے ماحولیاتی تحفظ کے کارکنوں کو شاید امید کی طاقت استعمال کرنی پڑے، وہ امید جس کی ترغیب مذاہب دیتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے