کیا MeToo# سے طاقتور افراد کو کوئی فرق پڑا؟

‘یہ می ٹو مہم ہی ہے جس کی وجہ سے آج بلوچ لڑکیاں اور پشتون لڑکیاں چیخ رہی ہیں، منھ چھپا کر چیخ رہی ہیں کہ جنسی ہراسانی کو روکیں۔’

یہ الفاظ انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ کے ہیں جن کی رائے میں اکتوبر 2017 میں شروع ہونے والے ’می ٹو‘ مہم کے پاکستانی معاشرے پر مجموعی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

رواں ماہ ایک جانب جہاں بلوچستان یونیورسٹی میں مبینہ طور پر خفیہ کیمروں کے ذریعے طالبات کو ہراساں کرنے کی خبریں موصول ہوئیں وہیں لاہور میں ایم او کالج کے لیکچرار محمد افضل کی پُراسرار موت کی خبر نے ’می ٹو‘ مہم کے اثرات پر سوشل میڈیا صارفین کو نظریاتی اعتبار سے تقسیم کر دیا ہے۔

ایم اے او کالج کے لیکچرار محمد افضل نے جنسی ہراسانی کے الزامات جھوٹے ثابت ہونے کے باوجود 9 اکتوبر کو خودکشی کرلی تھی۔

اس معاملے پر بات کرتے ہوئے حال ہی میں بی بی سی کی 100 خواتین کی فہرست میں شامل ہونے والی جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ وہ قطعً یہ نہیں کہتیں کہ یہ جائز تھا۔

‘وہ افراد جو اس کیس کی بنیاد پر اس مہم کو برا بھلا کہہ رہے ہیں وہ ان ہزاروں کیسز کو نظر انداز کر رہے ہیں جہاں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے والی بہت سی متاثرہ خواتین نے خودکشی کی اور انھیں اپنا معاملہ اٹھانے کا موقع بھی نہیں ملا۔‘

جلیلہ حیدر کے مطابق ’ان دو واقعات کا موازنہ کرنا اور اس بنیاد پر متاثرہ شخص یا کسی بھی خاتون کو خاموش کرانا جائز نہیں ہے۔‘

محمد افضل کی موت نے جہاں بہت سے سوال اٹھائے ہیں وہیں ’می ٹو‘ مہم کی حمایت میں ایک مرتبہ پھر پاکستانی فلم ساز جامی سامنے آئے ہیں۔

جمشید محمود عرف جامی نے ٹوئٹر پر گذشتہ روز یہ انکشاف کیا کہ پاکستانی میڈیا انڈسٹری کی ایک نامور شخصیت نے 13 برس قبل ان کا ریپ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ متاثرہ افراد کے درد کو خود محسوس کرتے ہیں۔

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان میں اس ’می ٹو‘ مہم کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

[pullquote]’می ٹو‘ مہم یا کال آؤٹ کلچر ہے کیا؟[/pullquote]

دو سال قبل ہالی ووڈ کے سابق پروڈیوسر ہاروی وائنسٹین کے خلاف خواتین اور اداکاراوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اکتوبر 2017 میں دنیا بھر میں لوگوں نے جنسی ہراسانی اور زیادتی کے خلاف سوشل میڈیا پر ‘می ٹو’ ہیش ٹیگ کو اپنا لیا۔

خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی ہراس کے واقعات میں ملوث ملزمان کو سوشل میڈیا پر بے نقاب کرنا شروع کردیا۔ یہ عمل ‘کال آؤٹ کلچر’ کے نام سے جانا جانے لگا۔

کال آؤٹ کلچر درحقیقت ایک عوامی احتساب کا عمل ہے جس میں لوگ کسی بھی ایسے فرد یا گروہ کو منظر عام پر لاتے ہیں جو اخلاقی اعتبار سے غیر مناسب سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔

اس عمل کو جہاں عورت کو بااختیار بنانے کے لیے سراہا گیا وہیں اس کے ناقدین نے اس عمل کو انصاف کے منافی قرار دیا۔

[pullquote]کال آؤٹ کلچر کی ضرورت پاکستان میں کیوں پیش آئی؟[/pullquote]

حقوق نسواں اور میڈیا کی تنظیم عکس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تسنیم احمر کے مطابق پاکستانی معاشرے میں یہ روایت رہی ہے کہ خواتین کے ساتھ جنسی ہراس کا کوئی واقعہ بھی ہو تو ملک میں رائج پدرشاہی نظام کے باعث اسے سامنے نہیں لایا جاتا۔

سماجی کارکن اور صحافی ایمان سلطان نے پاکستان میں ایک ثقافتی رجحان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘اگر کوئی عورت یہ آ کر بولے کے مجھے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے تو لوگ اسے خاموش کرانے کی کوشش کریں گے یا ان سے بولیں گے کہ آپ اپنی ساکھ متاثر نہ ہونے دیں اور اس معاملے کو نجی طور پر حل کرلیں۔‘

اس سماجی پہلو کے حوالے سے جب لمز یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات سے منسلک معلمہ ندا کرمانی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘کال آؤٹ کلچر کا مقصد جنسی ہراسگی سے متاثرہ افراد کو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایک ایسا موقع فراہم کرنا تھا جس کے ذریعے وہ اپنی آواز اٹھا سکیں۔’

ندا کرمانی کے مطابق ان افراد کو اس کی بالخصوص ضرورت پیش آئی جنھیں پاکستان کے رسمی قانونی ڈھانچوں نے مایوس کیا ہوا تھا۔

[pullquote]جنسی ہراسانی کے رپورٹ ہونے والے کیسز میں اضافہ[/pullquote]

دفتروں میں خواتین کے ہراسگی سے تحفظ کے لیے قائم وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں سنہ 2016 میں 77 کیسز رپورٹ ہوئے اور 2017 میں 88 کیسز سامنے آئے۔

اکتوبر 2017 میں شروع ہونے والی ’می ٹو‘ مہم کے واضح اثرات 2018 کے اعداد و شمار میں دکھائی دیتے ہیں۔ 2017 کی نسبت 2018 میں جنسی ہراسانی کے رپورٹ ہونے والے کیسز میں 309 فیصد اضافہ ہوا۔

2018 میں 272 کیسز سامنے آئے جبکہ 2019 میں 366 افراد نے جنسی ہراسانی کی شکایت درج کروائی۔

[pullquote]’طاقتور افراد کو اس مہم سے کوئی فرق نہیں پڑا'[/pullquote]

حقوق نسواں کی بیشتر سرگرم کارکنان اس بات پر متفق ہیں کہ جنسی ہراسانی کے حوالے سے آگاہی تو بڑھی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔

ندا کرمانی کا کال آؤٹ کلچر کے حوالے سے پاکستان کے تناظر میں کہنا تھا کہ ‘طاقتور افراد کو تو اس مہم سے کوئی فرق نہیں پڑا اور ان کا اثر و رسوخ اب بھی قائم دائم ہے۔ شاید عام افراد ڈر گئے ہیں اور عوامی محفلوں میں اپنی نفرت انگیز سوچ کا پرچار نہیں کرتے۔’

تاہم ان کے مطابق پدر شاہی یا عورت کے خلاف نفرت پر مبنی سوچ اگر محفوظ جگہوں پر منتقل ہوگئی ہے تو یہ بھی ایک خطرناک رجحان ہے کیونکہ ان کے بقول سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ان کے نظریات زیادہ پختہ اور پرتشدد ہو گئے ہیں۔

سماجی کارکن ایمان سلطان نے معاشرے میں پائی جانے والی ایک سوچ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر افراد یہ سمجھتے ہیں کہ حقوق نسواں کی سرگرم کارکنان ہماری تہزیب، مذہب اور پاکستان کے خلاف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘لوگ بے شک یہ مانتے بھی ہوں کے ریپ یا جنسی ہراسانی ان کے اقدار میں نہیں مگر انھیں یہ بھی نہیں پسند کہ خواتین ان پہلوؤں کو عوامی سطح پر اجاگر کریں۔’

[pullquote]کیا یہ مہم کبھی عام آدمی کے لیے تھی بھی؟[/pullquote]

اس مہم کا مقصد صرف اشرافیہ کو اپیل کرنا یقیناً نہیں تھا البتہ ندا کرمانی کے مطابق متوسط طبقے یا زیر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں، جس کے ذریعے وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو منظر عام پر لاسکیں۔

متاثرہ خواتین جو اس حوالے سے آواز بلند کرتی ہیں انھیں ہتک عزت کے دعووں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی حوالے سے ندا کا کہنا تھا کہ ‘بہت سے متاثرہ افراد کو سامنے آنے سے خوفزدہ کر دیا گیا ہے۔’

اس سوال کے جواب میں کہ کیا یہ مہم عام آدمی تک پہنچی ایمان سلطان کا کہنا تھا کہ ‘یہ مہم یقیناً عام آدمی تک نہیں پہنچی۔ ہمارے معاشرے میں اب بھی ایک ایسی سوچ پائی جاتی ہے کہ جنسی ہراسگی جائز ہے اور حیران کن طور پر کئی دیہی علاقوں میں بدلے کے طور پر ہونے والے ریپ کی بھی صفائی پیش کر دی جاتی ہے۔’

بلوچستان میں اس مہم کے اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئِے جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ ‘اس صوبے میں ایک ایسا ماحول ہے جہاں عورت پر ایک دباؤ ہے، تعلیم حاصل نہ کرنے کا، کام پر نہ جانے کا اور اس کے باعث جنسی ہراسانی کے بہت سے واقعات یہاں رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔ می ٹو مہم سے بیشتر لوگ آگاہ ہیں مگر اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔’

اعداد و شمار کے مطابق رواں سال بلوچستان میں ملازمت کی جگہوں پر جنسی ہراسگی کے صرف دو واقعات رپورٹ ہوئے۔

حقوق نسواں کی سرگرم کارکن تسنیم احمر کے مطابق کسی شخص کو کال آؤٹ کرنا ایک بہت خطرناک رجحان ہے کیونکہ بے قصور مرد اور خواتین بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔

مغربی ممالک میں اس مہم کا جائزہ لیتے ہوئے تسنیم احمر نے کہا کہ وہاں جنسی ہراسانی کے واقعات منظر عام پر لانے والی خاتون کو ایک بااختیار خاتون کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔

اس کے برعکس ‘بدقسمتی سے ہمارے مقامی میڈیا کے طنز و مذاح کے بہت سے پروگرامز میں می ٹو مہم کو اب ایک مذاق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔’

تسنیم احمر نے مہم کے مستقبل کے حوالے سے کہا کہ ‘مہم تو ہم نے اب اپنا لی ہے اور اس کو آگے ہی لے کے جایا جا سکتا ہے۔’

اس مہم کو آگے کیوں بڑھایا جانا چاہیے؟ اس پر بات کرتے ہوئے جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ ‘آئندہ دو برسوں تک متاثرہ افراد ان کیسز کو اجاگر کرنے کے لیے پراعتماد ہو پائیں گے بشرطیہ کہ لوگوں کو انصاف ملے اور یہ نہ ہو کے متاثرہ شخص کو بدنام کیا جائے۔’

[pullquote]’می ٹو رسمی مرحلے کا اختتامی نقطہ بن چکا ہے'[/pullquote]

اگر کسی متاثرہ شخص نے سوشل میڈیا کے ذریعے جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تو عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ صارفین فوری ملزم کو یا قصوروار قرار دے دیتے ہیں یا اسے ان الزامات سے بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔

اس رجحان کےحوالے سے لمز یونیورسٹی کی معلمہ ندا کرمانی کا کہنا تھا کہ ایسا فیصلہ صادر کرنا غلط ہے۔ ان کے مطابق الزامات لگانا صرف ایک رسمی مرحلے کا آغاز ہے مگر کیونکہ یہاں قانونی ڈھانچہ کمزور ہے اس لیے بعض اوقات جنسی ہراسانی کے مرتکب شخص کو منظر عام پر لایا جاتا ہے اور بات آگے نہیں بڑھ پاتی۔

کال آؤٹ کلچر ہمارے معاشرے میں رسمی قانونی مرحلے کا آغاز ہونا چاہیے مگر بد قسمتی سے آج یہ اس کا اختتامی نقطہ بن چکا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے