جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وہ لانگ مارچ کے دوران اداروں سے کوئی جنگ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ اُن کا احتجاج حکومت کے خلاف ہوگا۔
نامہ نگار خدائے نور ناصر کے مطابق منگل کو غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں فضل الرحمان نے کہا کہ ان کا احتجاج تب تک جاری رہے گا، جب تک حکومت مستعفیٰ نہیں ہو جاتی۔
مولانا فضل الرحمان کے مطابق عوامی احتجاج ان کا آئینی اور قانونی حق ہے اور اس احتجاج میں اداروں کو غیرجانبدار رہنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا ’ادارہ ادارہ ہوتا ہے، میری حکومت ہوگی، تب بھی ادارہ ہوگا اور میرے مخالفین کی حکومت ہوگی تب بھی ادارے کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ آج ایک فرد ہے، اُس سے میرا گلہ شکوہ ہوسکتا ہے، لیکن یہ کل چلا جائے گا، کوئی اور آجائے گا‘۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اُن کا احتجاج ’مارچ‘ ہے، نہ دھرنا اور نہ ہی لاک ڈاؤن۔
’ہم ایک میدان میں کارکنوں کو تھکائیں گے نہیں، تحریک کی صورت میں مختلف میدانوں میں جائیں گے اور یہاں تک کہ جیل بھرو تحریک بھی شروع کریں گے‘۔
حکومت کی جانب سے مارچ سے قبل اُن کی گرفتاری کے بارے میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ لیڈرشپ کی گرفتاری سے تحریک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
یاد رہے کہ حکومت نے وفاقی وزیر پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا ہے جو حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ’مارچ‘ پر بات چیت کریں گے۔ اگرچہ حکومتی ٹیم اور جمعیت علمائے اسلام کے وفد کے درمیان بیس اکتوبر کو طے پانے والی ملاقات ملتوی ہوئی ہے، تاہم حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی کو حکومت کے ساتھ بات چیت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں مولانا فضل الرحمان نے اس کمیٹی کے بارے میں کہا کہ دھمکیاں اور مذاکرات اکٹھے نہیں ہوسکتے۔
’تضحیک اور سنجیدگی، دھمکیاں اور مذاکرات ایک جگہ نہیں ہوسکتے‘۔
گزشتہ اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا تھا کہ وہ اپوزیشن کو بات چیت کے لیے دعوت دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کے مطالبات بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوں۔
تاہم انھوں نے کہا تھا کہ ’اگر حزب اختلاف بات چیت ہی نہیں کرنا چاہتی تو حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے اقدامات اُٹھائے گی‘۔