بریگیڈیئر محمد رفیق: ملٹری کالج کا دیو مالائی کردار 1&2

اگر آپ جی ٹی روڈ پر سفر کریں تو اسلام آباد سے لاہور کے راستے میں سرائے عالمگیر کا شہر آتا ہے۔ وہیں دائیں جانب ایک طویل دیوار اور اس کے وسط میں ایک گیٹ ہے۔ یہ مشہور ملٹری کالج جہلم ہے جس کی ایک شاندار تاریخ ہے جہاں سے فارغ التحصیل طلبا کی ایک کثیر تعداد پاک فوج سے وابستہ ہوتی ہے۔ اسی کالج میں ایک ایسے شخص نے قیادت کے فرائض سرانجام دیے جو اپنی محبت، مشقت، مقصد سے لگن، بلند ویژن اور اعلیٰ کردار کی بدولت موثر لیڈرشپ کا استعارہ بن گیا۔

بریگیڈیئر رفیق کا نام میں نے پہلی بار ایک دوست کی زبانی سنا تھا۔ ان دنوں میں لیڈرشپ کے موضوع پر مختلف مفکرین کو پڑھ رہا تھا اور بریگیڈیئر محمد رفیق کے حوالے سے ملٹری کالج جہلم کے استاد سعید راشد کی کتاب ‘کردار ساز‘ نظر سے گزری تھی۔ میں بریگیڈیئر رفیق کی زندگی سے جوں جوں واقف ہوتا گیا مجھ پر پُر اثر قیادت کے اسرار کھلتے گئے۔ آج اسی طلسم ہوشربا کی سیر میں آپ کو بھی شریک کرتا ہوں۔ یہ دراز قد، چمکتی آنکھوں اور مقناطیسی شخصیت کے مالک بریگیڈیئر رفیق کی کہانی ہے۔ رفیق کی پیدائش 27 اکتوبر 1920 کو ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں ہوئی‘ جہاں ان کے والد میاں چراغ دین پولیس کے محکمے میں ملازمت کر رہے تھے۔ میاں چراغ دین کا تعلق مشرقی پنجاب کے شہر کپورتھلہ سے تھا۔ وہ ایک دیانت دار انسان تھے‘ جنہیں جھوٹ سے شدید نفرت تھی۔ وہ یہی صفات اپنے بیٹے میں بھی دیکھنا چاہتے تھے۔

رفیق کو وکٹوریہ انٹرنیشنل سکول میں داخل کرایا گیا‘ جہاں ذریعۂ تعلیم انگریزی تھا۔ اس کے ساتھ ملائی زبان بھی سکھائی جاتی تھی۔ سکول میں تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی زور دیا جاتا تھا تاکہ طلبا کی شخصیت میں نکھار آئے۔ اس موثر تعلیمی ماحول میں رفیق کی شخصیت تشکیل پائی۔ گھر میں ان کی زبان پنجابی تھی لیکن وہ انگریزی اور ملائی زبان آسانی اور سہولت سے بول لیتے تھے۔ 1935 میں میاں چراغ دین صاحب اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو گئے تو انھوں نے واپس اپنے آبائی شہرکپورتھلہ جانے کا فیصلہ کیا۔ کپورتھلہ میں رفیق کو رندھیر کالج میں داخل کرایا گیا۔ رفیق ہر روز اپنے گھر سے کالج سائیکل پر آتے۔ شروع ہی سے انہیں اپنے ٹرن آئوٹ کا خاص خیال تھا۔ صاف، بے داغ لباس اور چمکتے ہوئے جوتے۔ اپنی وضع قطع اور اپنی چھب ڈھب سے وہ ہزاروں میں پہچانے جا سکتے تھے۔ ان کا ایک شوق ورزش بھی تھا۔ کالج سے واپسی پر شام کو بلاناغہ ورزش کرتے۔

اسی طرح تیراکی ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔ یہ 1941 کی بات ہے جب رفیق کو ائیرفورس میں کمیشن ملا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ تقدیر ان کا ہاتھ پکڑ کر ڈیرہ دُون اکیڈمی لے گئی اور وہ آرمی میں کمشنڈ افسر بن گئے۔ اسی دوران حکومت برطانیہ نے ملایا میں آرمی ٹریننگ کا آغاز کیا۔ یہاں ایسے آرمی افسروںکی ضرورت تھی جنہیں ملائی زبان پر دسترس ہو۔ یوں رفیق ایک بار پھر ملایا چلے گئے‘ جہاں سے ان کی بچپن کی یادیں وابستہ تھیں۔ ملایا آرمی ٹریننگ سینٹر میں رفیق کو پہلی بار تدریس اور تنظیم کے فنون سے آگاہی ہوئی۔ اس تجربے نے آگے چل کر رفیق کی زندگی میں کلیدی کردار ادا کرنا تھا۔ ادھر برصغیر میں تاریخ کروٹ لے رہی تھی اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعدہندوستان کی آزادی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تھا۔ 1947میں جب پاکستان کو آزادی ملی تو ہجرت کے عمل میں ہزاروں لوگ شہید ہو گئے‘ بہت سوں کا سراغ نہیں ملا۔ رفیق نے پاکستان میں اپنی رجمنٹ میں رپورٹ کیا۔ اس کے گھر والوں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا ۔

کپور تھلہ میں کافی کشت و خون ہوا تھا۔ رفیق لاہور میں واقع مہاجرین کے والٹن کیمپ میں ہر روز اپنے گھر والوں کاپتہ کرتے اورہر روز انہیں مایوسی ہوتی۔بہت دن گزرنے کے بعد انہیں خبر ملی کہ گھر والے خیریت سے پاکستان پہنچ گئے ہیں اور سرگودھا میں جا بسے ہیں۔ رفیق نے سکون کا سانس لیا۔ محمد رفیق کی یونٹ اس وقت رزمک میں تھی۔ وہیں انہیںپتہ چلا کہ ان کا تبادلہ پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے ) میں بطور میتھڈانسٹرکٹر (Method Instructor)کر دیا گیاہے۔ ملایا کے ٹریننگ سینٹر کا تجربہ یہاں کام آیا۔ محمد رفیق نے تدریس اور تنظیم کے میدان میں اپنے تجربے کو مزید وسعت دی اور اس میں نت نئے اضافے کیے۔ اس دور کے ان کے شاگر د ابھی تک ان کی شخصیت ، ان کی تدریس اور ان کے کردار کے سحر میں گرفتار نظر آتے ہیں۔

ملایا میں ٹریننگ سینٹر اور پھر پی ایم اے میں بطور میتھڈ انسٹرکٹر کام کے تجربے نے ان کی صلاحیتوں کو صیقل کر دیا تھا۔ ان کی جسمانی ساخت مرعوب کن تھی۔ اس پر ان کی تخلیقی صلاحیتیں اور کردار کی پختگی۔ ان سب خوبیوں نے مل کر ان کی شخصیت میں ایک خاص اعتماد پیدا کر دیا تھا اور وہ اب کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیا ر تھے۔وہ جولائی کا ایک گرم دن تھا جب رفیق کو ملٹری کالج جہلم کی قیادت کا چیلنج سونپا گیا۔

بریگیڈیئر رفیق نے ملٹری کالج کی باگ ڈور سنبھالی تو ایک موثر لیڈر کی طرح انھوں نے سب سے پہلے کالج کے طلبا، اساتذہ اور سٹاف سے خطاب کر کے انہیں اپنا ویژن بتایا۔ ان کے ویژن کا بنیادی نکتہ بطور پاکستانی اپنی شناخت کو اجاگر کر نا تھا۔ انہوں نے طلبا پر واضح کیا کہ کالج کی زندگی صرف کتاب تک محدود نہیں ہو گی بلکہ طلباکی شخصیت کی کثیرجہتی نشوو نما کی جائے گی ۔ طلبا، اساتذہ اور سٹاف اپنے نئے قائد کی تقریر سن رہے تھے‘ خوبصورت انگریزی میں قائد کا پیغام ان کے دلوں میں اتر رہا تھا۔ یہ تقریر شاید دو گھنٹوں پر محیط تھی لیکن انہماک کا عالم یہ تھا کہ پتہ بھی گرتا تو اس کی آواز سنائی دیتی ۔تقر یر جب ختم ہوئی تو سب کا تاثر یہی تھا کہ ملٹری کالج جہلم میں ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایک ایسا روشن دور جس میں ہر شخص سے مساوی سلوک ہو گا اور سب کی عزتِ نفس کا خیال رکھا جائے گا۔ جہاں تعلیم کے ساتھ تربیت پر زور دیا جائے گا ۔ جہاں کردار سازی کا اہتمام ہو گا ۔ جہاں طلبا اپنے محتسب خود ہوں گے۔جہاں پابندیٔ وقت، محنت دیانت اور شجاعت کی اقدار کو پروان چڑھایا جائے گا‘ جہاں آنر سسٹم ہو گا ، جہاں جزا ور سزا کا اہتمام ہو گا۔

اس ویژن کو عملی صورت دینے کیلئے طلبا اور اساتذہ کا بھر پور تعاون درکار تھا۔ اس کیلئے ضروری تھا طلبا اور اساتذہ کے ساتھ براہِ راست رابطہ رکھا جاتا۔بریگیڈیئر رفیق کے بارے میں جلد ہی مشہورہو گیا کہ وہ ہر جگہ ہر وقت ہوتے ہیں کلاس رومز میں، پریپ کے پیریڈ میںبریگیڈیئر رفیق کا سایہ ہر جگہ متحرک ہوتا۔ اکثر جب کلاس روم میں بیٹھے طلبا کی نظر کھلی کھڑکی کی طرف جاتی تو بریگیڈیئر رفیق کی سیاہ چمکدار آنکھیں انہیں دیکھ رہی ہوتیں اور اس میں وقت کی تخصیص نہ ہوتی بریگیڈیئر رفیق کسی بھی وقت کسی بھی کونے سے نمودار ہو سکتے تھے۔ ایک موثر قائد کی طرح ان اقدار (Values)‘ جن کی تاکید انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں کی تھی کا نمونہ انہیں خود پیش کرنا تھا۔

ان میں سے ایک پابندیٔ وقت تھی۔ سردی ہو یا گرمی ،آندھی ہو یا طوفان و ہ وقت کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور دوسروں سے بھی پابندیٔ وقت کی تو قع کرتے تھے ۔بریگیڈیئر رفیق کی پابندیٔ وقت مثالی تھی۔ وہ رو ز صبح سویرے پی ٹی کیلئے وقت مقررہ پر گرائونڈ میںپہنچتے۔ ان کے پہنچتے ہی کالج کا پرانا ملازم تاج بگل بجاتا تھا۔ یہ روز کا معمول تھا جس میں کبھی دیر سویر نہیں ہوتی تھی۔ سوائے ایک دن کے ۔ اس دن گھڑی پر مقررہ وقت ہو گیا تھا اور بریگیڈیئر رفیق ابھی تک گراؤنڈ میں نہیں پہنچے تھے۔ تاج کیلئے یہ مشکل فیصلہ تھا کہ بگل بجا دے یا بریگیڈیئر صاحب کا انتظار کرے۔ لیکن تاج نے بریگیڈیئر رفیق سے یہی اصول سیکھا تھا کہ چاہے آسمان گر پڑے بگل بجانے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیںہونی چاہیے۔ تاج نے اللہ کا نام لے کر بگل اٹھایا اور پوری قوت سے بجانے لگا۔بگل کی آواز چاروں طرف گونجنے لگی تھی۔

بگل کی آواز لہراتی ہوئی صبح کاذب کی ہوائوں میں پھیل رہی تھی۔ آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ملٹری کالج جہلم میں پی ٹی گرائونڈ میں کالج کمانڈنٹ بریگیڈیئر محمد رفیق کے آنے سے پیشتر تاج نے بگل بجا دیا تھا۔ ابھی بگل کی آواز کی بازگشت فضا ہی میں تھی کہ تاج بگلر نے دیکھا‘ بریگیڈیئر رفیق پی ٹی ڈریس میں تیزی سے اس کی طرف آرہے ہیں اور ان کے چہرے پر جلالی رنگ ہے۔ انہوں نے چھوٹتے ہی سخت لہجے میں کہا ”آج وقت سے پہلے بگل کیوں بجایا؟‘‘ تاج بگلر نے کہا: سر کالج کی گھڑی‘ جو ہر صبح ملاتی جاتی ہے‘ پر بگل کا ٹائم ہو چکا تھا۔ بریگیڈیئر رفیق نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی جو ایک منٹ پیچھے تھی۔ اس گھڑی کی وجہ سے وہ آج پہلی بار ایک منٹ تاخیر سے پہنچے تھے۔

بریگیڈیئر رفیق نے اپنی کلائی سے گھڑی اتاری اور غصے سے فرش پر دے ماری۔ کہتے ہیں اس دن کے بعد سے وہ دو گھڑیاں رکھنے لگے تھے۔ انہوں نے اب ایک گھڑی کا اضافہ اپنے واش روم میں کر دیا تھا۔ اس کے بعد جتنا عرصہ وہ ملٹری کالج جہلم میں رہے کبھی پی ٹی پر تاخیر سے نہیں پہنچے۔ بریگیڈیئر رفیق جانتے تھے کہ کالج کے طلبا اور اساتذہ تک ویژن پہنچانا کافی نہیں‘ ایک اچھے لیڈر کی طرح انہیں اس ویژن کے حصول کے لیے انسپائر بھی کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ان سے براہِ راست ربط رکھا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے بہت ہوم ورک کیا۔ ان کے گھر میں کالج کے تمام بچوں کی تصویریں لگی تھیں۔ ان کی ڈائری میں ہر بچے کے لیے ایک صفحہ مختص تھا جس میں انفرادی طور پر وہ ہر بچے کے حوالے سے بنیادی معلومات اور اپنے مشاہدات لکھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ سب لڑکوں کو ان کے ناموں سے پکارتے تھے۔

قیادت کا رجعت پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ کمانڈنٹ اور طلبا و اساتذہ میں ایک شعوری فاصلہ رکھا جائے۔ یہ فاصلہ ایک طرح سے Power Relations کا اعادہ کرتا ہے‘ یوں شعوری طور پر حاکم و محکوم کے رشتے کو مستحکم کیا جاتا ہے اور کالج کے دو چار قریبی لوگ کمانڈنٹ کی آنکھیں اور کان بن جاتے ہیں۔ لیکن بریگیڈیئر رفیق انوکھی وضع کے لیڈر تھے۔ انہوں نے آتے ہی اپنے اور طلبا و اساتذہ کے درمیان شیشے کی اس دیوار کو ہٹا دیا۔ وہ اپنے دفتر میں مقید ہو کر احکامات چلانے والے افسر نہیں تھے۔ وہ کالج کے برآمدوں، روشوں اور آتے جاتے راستوں میں سب کو نظر آتے تھے۔ ایک بار یوں ہی وہ کچن کے پاس سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ کچھ بچے مٹر چھیل کر دانے نکال رہے۔ بریگیڈیئر رفیق بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور مٹروں سے دانے نکالنے لگے۔ اسی دوران ایک دانہ نیچے گر گیا۔ انہوں نے وہ دانہ اٹھا کہ میز پر رکھا اور بچوں کو Welldone کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

بریگیڈیئر رفیق کی شخصیت میں ایک رعب اور جلال تھا لیکن بچوں کے ساتھ وہ بچے بن جاتے تھے۔ سوئمنگ پول میں وہ لڑکوں کے ساتھ خود بھی تیراکی کے مقابلے کرتے۔ ایک بار وہ ہارس اینڈ کیٹل شو میں کالج کے بچوں کے ساتھ گئے تو وی آئی پی لائونج میں بیٹھنے کے بجائے کالج کے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر شو دیکھا اور آفیسرز میس میں رہنے کے بجائے اسی بیرک میں قیام کیا جہاں کالج کے لڑکے ٹھہرے تھے۔ ایک بار کالج کے بچوں کو ہسپتال جانا تھا۔

وہ کالج کی ٹرانسپورٹ پر ہسپتال چلے گئے؛ البتہ ایک بچہ کالج میں پیچھے رہ گیا۔ بریگیڈیئر رفیق نے اس لڑکے کوکھڑے دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی۔ اس نے کہا: سر میںکالج میں بالکل نیا ہوں‘ باقی سب چلے گئے مجھے پتہ نہیں چلا۔ بریگیڈیئر رفیق نے کہا: کوئی بات نہیں تم میرے ساتھ جائو گے۔ اور واقعی اس دن وہ اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسے ہسپتال تک لے گئے۔ ان کا یہ برتائو صرف طلبا یا اساتذہ تک محدود نہیں تھا‘ وہ کالج کے عام ملازمین، جن میں مالی، نائب قاصد اور باورچی شامل تھے‘ سے بھی اسی حسنِ سلوک سے پیش آتے تھے۔ ایک بار ایک باورچی کی بیوی فوت ہو گئی اور اسے ایمرجنسی میں گھر جانا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ پورے دن میں ایک دو بسیں ہی چلتی تھیں۔ بریگیڈیئر رفیق نے اپنی جیب سے اس کو پیسے دیے اور ڈرائیور کے ہمراہ اپنی جیپ میں اسے راولپنڈی بھجوایا۔

موثر قیادت کا یہ وہ جزو ہے جس پر لیڈرشپ پر لکھے گئے لٹریچر میں بہت زور دیا گیا ہے۔ ایک اچھا لیڈر اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو ایک ایسی ٹیم میں بدل دیتا ہے جو اس کے کہنے پر ناممکن کام کو بھی ممکن بنا دیتی ہے۔ ڈسپلن کے معاملے میں بریگیڈیئر رفیق کے ہاں کوئی رعایت نہیں تھی کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر بریگیڈیئر رفیق کی طرف سے دی جانے والی سزا کم سے کم کالج سے اخراج تھا۔ اس کے لیے وہ ہر طرح کا دبائو قبول کرنے کے لیے تیار رہتے۔ وہ صحیح معنوں میں آہنی اعصاب کے مالک تھے۔ ان کا ملٹری کالج کا پہلا دور ایک سال سے بھی کم تھا۔

اس عرصے میں ملٹری کالج جہلم میں بہت سی نئی روایات کا آغاز ہوا تھا۔ ابھی اصلاحات کا سفر جاری تھا کہ ان کا تبادلہ کوئٹہ کر دیا گیا جہاں انہوں نے سینئر ٹیکٹکس کورس پاس کیا اور انہیں کوئٹہ میں واقع جے ایس پی سی ٹی ایس سکول میں سینئر انسٹرکٹر تعینات کر دیا گیا‘ لیکن ان کا دل ملٹری کالج جہلم میں لگا ہوا تھا۔ یہیں انہوں نے ایک پیپر لکھا‘ جس میں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ ملٹری کالج جہلم کو ایک باقاعدہ پبلک کالج بنانے کی ضرورت ہے‘ جس کے لیے مرحلہ وار اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اس فیصلے کو مرحلہ وار نافذ کرنے کے بجائے یک لخت سب پابندیوں کو نرم کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کالج میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال انتہائی مخدوش ہو گئی‘ ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہ رہی۔ اس وقت ملک کی باگ ڈور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہاتھ تھی۔ انہوں نے بریگیڈیئر رفیق کو فون کیا اور انہیں فوری طور پر ملٹری کالج جہلم کا چارج لینے کو کہا۔ یہ 1954ء کا سال تھا جب بریگیڈیئر رفیق دوسری بار ملٹری کالج میں سربراہ کے طور پر آئے لیکن ایک سال پیشتر وہ کالج کو جس حالت میں چھوڑ کر گئے‘ صورتحال ویسی نہ تھی اب وہاں ابتری کے آثار نمایاں تھے۔

نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ لڑکوں کے گروپس بن گئے تھے اور وہ اپنی من مانی کر رہے تھے۔ جب بریگیڈیئر رفیق چارج لینے پہنچے تو کسی ٹیکنیکل وجہ سے چارج لینے میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ بریگیڈیئر رفیق نے ان دنوں کا استعمال اس طرح کیا کہ وہ رات کو بھیس بدل کر ادھر اُدھر گھومتے رہتے۔ اس طرح انھوں نے اپنی آنکھوں سے ان طلبا کو دیکھا جو نظم و ضبط کی دھجیاں بکھیر رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد جب انہوں نے باقاعدہ چارج لیا تو تمام طلبا کو بلا کر تین گھنٹے تک تقریر کی۔ انہیں ان کی زندگی کا مقصد یاد دلایا اور ان اقدار کا حوالہ دیا جو بڑے مقصد کے حصول کے لیے ضروری تھیں۔ آخر میں انہوں نے وارننگ دی کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سخت سزا دی جائے گی۔

اور یہ محض وارننگ نہیں‘ یہ بریگیڈیئر رفیق کا وعدہ تھا۔ کچھ ہی دنوں میں ان طلبا کی فہرست مرتب کی گئی جو ڈسپلن کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ وہ دو تین، یا چار پانچ نہیں پورے 80 تھے۔ اتنی بڑی تعداد کا کالج سے ایک وقت میں اخراج کشتی کو ہچکولوں کے سپرد کرنے کے مترادف تھا۔ مشکل فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ ہر لیڈر کی زندگی میں چند مقامات ایسے آتے ہیں جب اسے اصول اور مصلحت میں سے ایک کا چناؤ کرنا ہوتا ہے۔ فائل بریگیڈیئر رفیق کے سامنے رکھی تھی۔ بریگیڈیئر رفیق نے کھڑکی سے باہر دیکھا تیز ہوا درختوں کو جُھلا رہی تھی۔ انہیں ملایا کے درخت یاد آ گئے۔ جب ہوا درختوں کے درمیان چلتی تو کیسی کیسی آوازیں آتیں۔ پھر انہیں اپنے والد میاں چراغ دین صاحب کی یاد آ گئی جنہیں بزدلی اور جھوٹ سے شدید نفرت تھی۔ بریگیڈیئر رفیق کی نظریں دوبارہ اس فائل پر آ گئیں جس پر انہوں نے فیصلہ دینا تھا۔ انہوں نے میز سے پین اٹھایا اور فائل پر دستخط کرنے ہی لگے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔جاری

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے