اپیل میں کیا ہو گا؟

فرض کریں حکومت اپیل کر دیتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیا ہو گا؟

دو بنیادی سوالات ہیں. پہلا سوال یہ یے کہ اپیل میں ہائی کورٹ نے مقدمے کی فائل دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ اس فائل میں ہی اگر پولیس نے کمالات دکھا دیے گئے ہیں تو ہائی کورٹ کیا کر سکتی ہے. سزا دے گی یا ری ٹرائل کا کہے گی اور ری ٹرائل کا کہا تو کیا ہو گا؟ دوسرا سوال یہ یے کہ استغاثہ نے اگر کسی اہم نکتے پر ٹرائل کورٹ میں جان بوجھ کر صرف نظر کر لیا ہو تو اپیل میں اس کوتاہی کا ازالہ ہونا ممکن نہیں ہو گا ۔ یا ری ٹرائل کا کہا گیا تو کیا وہاں یہ کمی پوری ہو سکے گی؟

ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ انصاف کی فراہمی میں کسی ضابطے کی پابند نہیں ۔ ان کو یہ اختیار ہے کہ ضروری سمجھیں تو پروسیجر کو ایک طرف رکھ دیں اور انصاف کے مطابق فیصلہ کریں ۔ اسے ان عدالتوں کی ان ہیرنٹ پاورز کہا جاتا ہے ۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 561 اے کا کہنا ہے کہ انصاف کی فراہمی کی خاطر اس ضابطے کی کوئی دفعہ ہائی کورٹ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی ۔ وہ چاہے تو اس سے ہٹ کر بھی فیصلہ دے سکتی ہے ۔ اس طاقت کے اختیار کے لیے جو شرط رکھی گئی ہے وہ بھی لامحدود ہے:to prevent the abuse of process of any court or otherwise to secure the ends of justice;

یہاں to secure the ends of justice;کی اصطلاح بتا رہی ہے کہ یہ انتہائی غیر معمولی اختیار ہے ۔ لیکن یہ اختیار بھی انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ اپیل میں ہائی کورٹ کو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ اپیل کی سماعت کرتے وقت اگر دیکھے کہ ملزم سزا کا مستحق تھا تو وہ ریکارڈ کی روشنی مین سزا سنا سکتی ہے ۔ تاہم اگر وہ سمجھے کہ ریکارڈ کچھ اور کہہ رہا ہے اور اس میں گڑ بڑ ہے ۔ قتل سر عام ساہیوال کی سڑک پر ہوا ریکارڈ کہہ رہا ہے ایک گولی تک نہیں چلی تو وہ مقدمے کے ریٹرائل کا حکم بھی دے سکتی ہے ۔

ری ٹرائل میں پھر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ جو ثبوت پولیس نے ضائع کر دیے ۔ اب بھلے عمران خان اس کا نوٹس بھی لے لیں اور استغاثہ کی کوتاہی پر تحقیقات بھی شروع کروا دیں اس سے کیا ہو گا;وقت گزر چکا ۔ وزیر اعظم نے حسب وعدہ قطر سے واپس آتے ہیں کچھ دلچسپی دکھائی ہوتی تو پولیس یہ کبھی نہ کہہ سکتی کہ موقو پر موجود اہلکاروں نے تو ایک گولی نہیں چلائی اور اس سے اسلحہ لیا گیا تو ان کو ایشو کی جانے والی ساری گولیاں ان کے پاس موجود تھیں ۔ یہ کام تو وزیر اعظم اور وزیر اعلی کو اسی وقت کر لینا چاہیے تھا اور ضروری فیصلے کر لینے چاہییں تھے ۔ اب کیا اتنا وقت گزرنے کے بعد پولیس نے کچھ چھوڑا ہو گا جو اٹھا کر آپ ری ٹرائل کے وقت پیش کریں گے

اور فرض کریں آپ وہ ریکارڈ ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ آپ کسی کو اس ساری واردات کا وعدہ معاف گواہ بنا لیتے ہیں ۔ آپ نئی شہادت لے آتے ہیں ۔ آپ کسی کو کہتے ہیں ڈرو نہیں کھل کر بیان دو اور وہ اپنے پہلے بیان کو بدل کر نیا بیان دے دیتا ہے اور سب سچ کہہ دیتا ہے. سوال یہ ہے اس صورت میں کیا ہو گا؟ اس صورت میں شک پیدا ہو گا ۔ شک کا فائدہ کسے ملے گا; یہ فائدہ ملزم کو ملے گا ۔فرض کریں پھر بھی انہیں سزائے موت ہو جاتی ہے تو کیا یہ سزا اپیلوں میں برقرار رہ پائے گی؟

یاد رہے گذشتہ آٹھ سالوں میں سپریم کورٹ نے سزائے موت کے 78 فیصد مقدمات میں یہ سزا ختم کر دی ۔ اور پچھلے سال صرف تین فیصد کیسز ایسے تھے جن میں یہ سزا سپریم کورٹ نے بحال رکھی ۔ ملزم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قانون کا فیورٹ چائلڈ ہے ۔

ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت نے جب کچھ کرنا تھا تب کچھ نہیں کیا ۔ اب اس کی پھرتیاں اول تو صرف دکھاوے کی ہیں اور اگر ایسا نہیں اور وہ مخلص ہے تو معاملہ اب اس کے لیے اتنا آسان نہیں رہا ۔ ہاں کفارے کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ سچ میں پولیس اصلاحات کا بھاری پتھر اٹھا لے اور کچھ کر گزرے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے