کشمیرکا نوحہ امریکی کانگریس تک کیسے پہنچا؟

“میرے نزدیک امریکی اخلاقیات بھارتی کاکس کی چئیرمین شپ سے کہیں زیادہ اہم ہیں “
کانگریس مین بریڈ شرمن

امریکہ میں کشمیر کی بابت آگاہی میں اضافہ کانگریس کی ہیومن رائٹس سب کمیٹی برائے جنوبی ایشیا کی طے شدہ سماعت میں ایجنڈا کے آئٹمز کی فہرست میں سب سےزیادہ اہمیت کشمیر میں انسانی حقوق کا سوال سب سےزیادہ اہمیت اختیار کر گیا اور اس کی بنیادی وجہ 5 کو اگست کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر جموں کشمیر کے عوام کے شدید رد عمل کو روکنے کیلئے بھارتی حکومت کی طرف سے وہ ظالمانہ اقدامات ہیں جنہیں تاریخ میں بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دور کے طور یاد رکھا جائے گا ۔

دنیا بھر میں کشمیریوں اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والی اقوام اور افراد نے خاص کر پاکستان کے روشن خیال عوام نے کشمیر کے معاملہ پر سیاسی و نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر زبردست احتجاج کیا،لندن، برسلز ، ٹورنٹو،سڈنی، اوسلو، ناروے، کوپن ہیگن ، ہالینڈ ، ڈیلاس،ہیوسٹن، اٹلانٹا ، شکاگو، سیاٹل، سان فرانسیسکو اور لاس اینجلیس اور پھرنیویارک میں ہونے والے مظاہروں کا سب حکومتوں اور اداروں نے نوٹس لیا ۔

اس موقع پر میں کشمیری عوام کی جانب سے مشکل وقت میں کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا ہونے پر امریکہ میں مقیم سب ہی کمیونیٹیز اور خصوصی طور پاکستانی کیمونٹی اور ان کےرہنماؤں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ ان سب کے کام کی بابت ساری دنیا آگاہ ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے سامنے آئے بغیر پس پردہ بھی بہت کام کیا جن کا مجھے علم ہے ، ان کی بابت میں الگ سے لکھوں گا۔

اب آتا ہوں کشمیری کیمونٹی کی طرف۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے سامنے کی گلیاں گواہ ہیں کہ کشمیر کےحوالے سے ہر سال چھوٹے بڑے مظاہرے ہوتے رہے مگر بھارتی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والوں کی شرکت نیویارک کے قرب و جوار میں مقیم چند خاندانوں تک محدود ہوا کرتی تھی ۔ اس کی بہت سی جائز وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں انڈین امیگرنٹ کی حیثیت سے کشمیر آنے جانے میں دشواریوں کا سامنا ہوتا تھا ۔مگر 5 اگست نے ان کو بھی ہلا کر رکھ دیا، ان پر قیامت ٹوٹ گئی ، ان کا سب کچھ لُٹ گیا، وہ کشتیاں جلا کر نکلے، کسی کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ آسمان کوچُھوتی اندرونی خود مختاری کی آفر دینے والا انڈیا ان کی جداگانہ خصوصی حیثیت بھی ختم کر ڈالے گا !!

اس لیے یہ پہلا موقع ہے کہ دنیا بھر میں انڈین امیگرنٹ کشمیری کہلائے جانے والے مرد و زن سراپا احتجاج بنے سڑکوں پر نکل آئے۔ میرے بہت سے پاکستانی ہی نہیں آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے دوستوں کو علم نہ ہوگا کہ امریکہ میں آباد بھارتی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی کشمیری کیمونٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے امریکی نظام میں ایک خاص مقام رکھتی ہے، سب سے زیادہ یہ شعبہ طب سے وابستہ ہیں اور اس شعبہ میں ریسرچ میں عالمی شہرت یافتہ بھی ہیں ، جو لوگ بزنس میں ہیں وہ بڑی بڑی کارپوریشنوں کے مالک ہیں ، یہاں ہزاروں امریکی ان کی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں.

یونیورسٹیاں کشمیری پروفیسروں اور طلبہ سے بھری پڑی ہیں ۔ عالمی نشریاتی اداروں میں بھی آپ کو کشمیری نظرآئیں گے.

سرکاری ملازمتوں میں بھی بڑے بڑے عہدوں حتی کہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے دور میں اسلامی ممالک کے لیے جس سینئر امریکی سفارت کار کو ترقی دے کر اپنا خصوصی نمائندہ اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ مقرر کیا وہ ایک کشمیری خاتون ہی تھیں۔

کشمیر کی اس کیمونٹی کے متحرک ہونے کا انداز ذرامختلف رہا ۔ ڈیلاس ، ہیوسٹن اور نیویارک کےمظاہروں میں ان کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت نے بھارت کی حکومت کی نیندیں اڑا دیں چونکہ وہ اب یہ پراپیگنڈہ نہیں کر سکتا تھا کہ یہ مظاہرین پاکستانی ہیں یا پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے ہیں اور پاکستان انہیں استعمال کر رہا ہے ۔

کشمیری ڈاکٹروں اورپاکستانی ڈاکٹروں کے آپس میں پیشہ وارانہ تعلقات نےایک نیا موڑ لیا ، کمیٹی میں شریک کانگریس مینوں کو کشمیری فیملیوں سے ملوایا گیا، کشمیر کے حالات سےآگاہی کا ذریعہ یہ کشمیری فیملیاں ہی بنیں ۔ امریکی رائے دہندگان اور قانون سازوں تک درست معلومات پہنچانے کا یہ کام ماضی کے کاموں سے مختلف تھا ، یہ بات ذہن میں رہے کہ امریکہ میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کی کیمونٹی کو انڈین امیگیرنٹ کیمونٹی ہی تصور کیا جاتا ہے ۔آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ وہ کانگریس مین اور سینیٹر جوانڈیا کے خلاف ایک لفظ بھی نہ بولتے تھے ، انہوں نےکھل کر کشمیریوں کے لیے آواز اٹھائی ۔ بھارتی نژادامریکی کانگریس ویمن جے پال نے تو کمال کر دیا ۔

اور پھر اسی وجہ کی بدولت کانگریس میں انڈیا کے سب سے بڑے حامی انڈیا کا کس کے چئیرمین بریڈ شرمن کوکشمیری فیملیوں سے ملاقاتیں کرنے اور حالات جاننےمیں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی ۔ ان کی کشمیریوں کے تئیں ہمدردی پیدا ہوئی.

کشمیری فیملیوں سے براہ راست ملاقاتیں کرانے میں آذاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے AAPNA کےسابق صدر ڈاکٹر آصف رحمان اور امریکی سیاست میں متحرک پاکستانی ڈاکٹر آصف محمود چوہدری اورواشنگٹن میں کشمیری ڈاکٹر فیروز پڈر سمیت دیگر کشمیری شخصیات نے بریڈ شرمن کے ذاتی دوست ہونے کی حیثیت سے رابطہ کاری کا فرض ادا کیا۔

کشمیری امریکن خاندانوں سے ملاقاتوں کے بعد انڈیا کاکس کے چئیرمین بریڈ شرمن کو یہ یقین ہو گیا کہ بھارتی حکومت کشمیر میں شہری اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔

آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ بریڈ شرمن نے کانگریس کمیٹی کی سماعت کے دوران ایک بھارتی باشندے کے اس سوال پر کہ آپ بھارتی کاکس کے چئیرمین بھی ہیں آپ کی کمیٹی میں بھارت کے خلاف سماعت، بطور انڈیا کاکس چیئرمین آپ کی سوچ کے تضاد کو ظاہر نہیں کرتا؟

جواب میں بریڈ شرمن نے انتہائی مضبوط لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا میرے نزدیک امریکی اخلاقیات انڈین کاکس کی چئیرمین شپ سے کہیں زیادہ اہم ہیں جودنیا کے ہر انسان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کا درس دیتی ہیں۔ امریکہ کی ترقی، خوشحالی اور امن و سلامتی کا راز انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اسٹینڈ لینے میں ہی پوشیدہ ہے۔

بریڈ شرمن نے کہا مجھے معلوم ہے مجھے اس سماعت کے نتیجے میں سیاسی نقصان ہوسکتا ہے اور مجھے میرےاسٹاف نے بھی پہنچنے والے اس ممکنہ سیاسی نقصانات سے آگاہ کیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں امریکی روایات کی پاس داری میرے سیاسی نقصان اور فائدے سے کہیں بالاتر ہے۔

بریڈ شرمن نے کہا کہ میرا اپنا بھی ایک ضمیر ہے جس کے ساتھ رات کو مجھے اکیلے ہی سونا ہوتا ہے۔ بریڈ شرمن نے بڑی سادگی مگر انتہائی مضبوط لہجے میں کہا ”جو قومیں اور ان کے سیاست دان اپنی روایات کے امین نہیں ہوتے وہ اپنی قوم کا تحفظ بھی نہیں کرسکتے”

یاد رہے کہ بریڈ شرمن بھارتی وزیراعظم کے ہیوسٹن میں ہونے والے استقبالیے میں کشمیر میں کیے جانے والے بھارتی مظالم کے خلاف احتجاجاً شریک نہیں ہوئے تھے جبکہ دس سال سے پاکستان کاکس کی سربراہ کانگریس ویمنشیلا جیکسن نے باوجود پاکستانی کیمونٹی کی درخواستوں کے بھارتی وزیراعظم کے استقبالیے میں شرکت کی تھی۔

اسی بریڈ شرمن کی کانگریس کمیٹی میں بھارت کے خلاف مذکورہ سماعت نے بھارتی میڈیا اور بھارتی حکومت کی نیندیں اڑا دی ہیں ۔

کیا ہی اچھا ہو کہ کریڈٹ لینے کا روایتی انداز ترک کیاجائے ۔ میں نے یہ اس لیے لکھا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیرسے تعلق رکھنے والی کشمیری کیمونٹی کے کچھ اہم دوستوں نے میری توجہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی ایسی اطلاعات کی طرف دلائی جس میں اس ہیئرنگ کو کسی اور لابی کی کوششوں سے جوڑا گیا ہے ۔ جس سے ہندوستان کو ہماری اس کوشش کو یہ کہہ کر بدنام کرنےکا موقعہ ملے گا کہ اس سارے معاملہ کے پیچھے پاکستان اور اس کے وسائل تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے