حریم شاہ،نیلم منیراورففتھ جنریشن وار

موجودہ دور حکومت میں واقعات اس تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں کہ جیسے غریب کی جیب سے نکلا ہزار کا نوٹ خرچ ہوتا ہو ، جیسے ہر روز بڑھتی بجلی کی قیمت ہو ، جیسے تیزی سے بے روزگار ہوتے مزدور ہوں ، جیسے تیزی سے بند ہوتی پاکستانی صنعتیں ہوں اور جیسے بے شمار وعدے و دعوے کرتے ہمارے وزراء ہوں –

ایسے میں حالات حاضرہ پر لکھنے والے شخص کا کنفیوژ ہونا تو بنتا ہی ہے اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ کیا سوچے ، کیا لکھے اور کیا نہ لکھے –

زیادہ پیچھے جانے کے بجائے اگر تازہ واقعات کے تسلسل کو وزیر اعظم کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یو این میں کی گئی تقریر سے دیکھنا شروع کروں تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے منصوبہ سازوں نے پاکستانی کلینڈر میں ہر تاریخ کے ساتھ کچھ نہ کچھ غیر معمولی ہونا لکھ رکھا ہو –

اس کے بعد تاریخوں کے ساتھ دھیرے دھیرے بڑھتے ہوئے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے دیے گئے پلان میں پاکستان کی ناکامی ، مولانا فضل الرحمان کی طرف سے آزادی مارچ کا اعلان ، ایک استاد کی اپنی عزت بچانے کے چکر میں خود کشی کی خبر ، پھر نیلم منیر کے آئٹم نمبر کا دھوم دھڑکا ، ٹک ٹاک گرل حریم شاہ کی وزارت خارجہ کے میٹنگ روم میں بنی ویڈیو کے چرچے ، اس کے بعد تین مرتبہ کے وزیراعظم کا موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہو کر نیب کے گرفتار ملزم کے طور پر سروسز ہاسپٹل آمد اور اس پر حکومتی وزرا کے ٹھٹھے ، سانحہ ساہیوال کے یتیم بچوں کے ساتھ ریاستی مذاق ، سنگین غداری کے مقدمے میں کے ملزم جنرل ر مشرف کے خلاف 2013 سے عدالت میں کیس لڑتی پراسیکیوشن ٹیم کا ڈی نوٹیفائی کیئے جانا ، آزاد کشمیر میں پیپلز نیشنل الائنس اور اسلام آباد میں خواتین اساتذہ کے احتجاج پر پولیس کا بد ترین تشدد ، پنجاب میں ینک ڈاکرز کا احتجاج ، پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل کی تحلیل ، اور اب سانحہ ساہیوال کے عدالتی فیصلے پر ریاست کے مدعی ہونے کے باوجود وزیر اعظم کا نئے سرے سے تحقیقات کے احکامات دینا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ایک نئی بنتی خبر –

ان بہت ساری دِل سوز خبروں میں میرے جیسے پتھر دل بندے کے لیے دلچسپی کی دو خبریں تھیں ، ایک نیلم منیر کا اپنے پھیکے سے آئٹم نمبر کو پاک فوج کے نام کرنا اور دوسری معصوم سی حریم شاہ کی یکے بعد دیگرے دو الگ الگ سرکاری عمارتوں سے ٹک ٹاک ویڈیوز کا آنا –

ان میں بھی دلچسپی کی وجہ ایک محترم دوست کی طرف سے لکھی گئی انگریزی کہاوت “Champagne Problems” تھی یعنی "جب مسائل کا غربت ، قدرتی آفات اور جنگ سے موازنہ کیا جائے تو یہ کوئی بڑی بات یا بڑے ایشوز نہ لگیں ” واقعی ایسا ہی ہے تو ہے کہ ان دو خبروں نے سوشل میڈیا پر ایکٹو لوگوں کو اپنے مخصوص فوکس پوائنٹ سے divert کر دیا ہے ، کیا یہ وہ خود ساختہ غلطیاں تھیں جو اصل مسائل ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے دیے گئے ہدف کو پورا نہ کرنے ، مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کسی بھی قسم کے عملی اقدامات نہ کرنے کو اپنی پیچھے چھپا گئی ہیں ؟؟

آئٹم نمبر دیکھ کر نیلم منیر مجھے نظر نہ آنے والی ففتھ جنریشن وار میں وینا ملک کے بعد دوسری اہم کمانڈر محسوس ہوئی جس کے ناتواں کندھے اور خوبصورت ” قمر” پاکستانی قوم کے دفاع کے لیے حرکت میں تھے ، اگرچہ ففتھ جنریشن وار میں مد مقابل دیکھوں تو نیلم کے ڈانس کا مزہ نہیں آیا، ہر سرکاری ادارے میں نظر آتی قومی سُستی یہاں بھی دکھائی دی ، جبکہ کے مقابلے میں کھڑی کترینہ ، نورا فتح ، لیسا ہائیڈن ، نرگس فخری اور سنی لیونی جیسا ایکٹو پن ہرگز ہرگز نہ تھا ، ایسے میں اپنے دفاع میں نظر آتی سستی یقیناً میرے جیسے عام آدمی کو تھوڑا سا پریشان ضرور کرتی ہے –

دوسری معصوم سی حریم شاہ کی دو ٹک ٹاک ویڈیوز ایک دفتر خارجہ جبکہ دوسری کے متعلق کہا جا رہا ہے وہ مبینہ طور پر پی ایم ہاؤس کا چوتھا فلور ہے – لوگ کہتے ہیں یہ سیکیورٹی بریچ تھا مگر میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہو ، آخر بندی دفتر خارجہ کے حساس ایریے میں ویڈیو بنا رہی ہے تو یقیناً سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد ہی وہاں تک پہنچی ہو گی ، میرے جیسا عام آدمی اگر دفتر خارجہ کے ڈاکومنٹ اٹیسٹیشن والے حصے میں بھی بغیر اجازت داخل ہونے کی کوشش کرے تو گیٹ پر کھڑے سیکیورٹی والے اسے کتے کی طرح پڑھ جاتے ہیں، ایسے میں حریم کے لیے یہ کہنا کہ سیکیورٹی بریچ تھا نہ بابا نہ ، دل نہیں مانتا-

ہمیں بحثیت قوم موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے کچھ چیز ( انتظامی نا اہلی ، غربت ، بے حیائی و بے غیرتی وغیرہ ) پر انجوائے کرنے کی عادت ڈال لینی چاہیے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے