کیپٹن غلام مصطفی فاروقی شہید”شیرِ جنگ“

کشمیر کی دھرتی کے سپوتوں نے شہادتوں اور قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی۔ کشمیر صدیوں سے محکوم و مجبور ہے، اہل کشمیر نے درد و غم میں زندگی بسر کی، ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر رہے اور تاحال لاکھوں قربانیوں کے بعد بھی اس قوم کو آزادی نصیب نہ ہوئی۔ ٹکڑوں میں بٹی یہ قوم نہ کبھی جھکی ہے اور نہ کبھی ان کے قدم لڑکھڑائے۔

مائیں جنتی ہیں بیٹے کفن کے لیے
وار دی نسل ساری وطن کے لیے
(افضال صدیقی)

اہلِ کشمیر کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ آزادکشمیر کا موجودہ ضلع حویلی کہوٹہ بھی تمام شعبہ ہائے زندگی میں انفرادیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس دھرتی نے ایسے بے شمار سپوت جنم دیے جنہوں نے اس کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ انہی میں سے کیپٹن غلام مصطفی شہید کا نام سرفہرست ملتا ہے جنھوں نے وطن عزیز کی آبرو کے لیے اپنی آخری سانس تک قربان کر دی۔

خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

محمد شفیع فاروقی صاحب (ریٹائرڈ ایس ڈی او)کی ایک قلمی تحریر (غیر مطبوعہ) ملی تو پڑھ کر فخرو انبساط کے ساتھ ساتھ حیرت و تجسس کی ملی جھلی کیفیت نے آلیا۔ ہماری دھرتی کا ایک بڑ ا اعزاز اور عوام کی اس سے نا آشنائی!جس سے پردہ کشائی کرنا راقم کی کوشش ہے۔

غلام مصطفی فاروقی نے سال 1922ء میں حویلی کے گاؤں کلالی میں مہتاب دین فاروقی کے ہاں جنم لیا۔آپ کلالی کی مشہور شخصیت حاجی عبدالغنی فاروقی صاحب کے بڑے بھائی تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پرائمری سکول کہوٹہ سے جب کہ مڈل کا امتحان ہائی سکول پونچھ سے پاس کرنے کے بعد محکمہ ڈاک میں ملازمت اختیار کی۔

بعد ازاں آپ نے سال 1938ء میں محکمہ ڈاک کی ملازمت کو خیر باد کہا اور کمیشن لے کر برطانوی فوج میں بھرتی ہو گئے۔ آپ کی عسکری تربیت ڈیرہ دون چھاونی میں ہوئی جس کے بعد خصوصی تربیت کے لیے آپ کو بنگلور بھیجا گیا۔ جنگ عظیم دوم کے دوران آپ مشرق وسطی میں مامور تھے اور آپ نے اس جنگ میں بھرپور حصہ لیا۔ جنگ کے اختتام پر تقریباً سات سال بعد1942ء میں آپ وطن واپس آئے۔

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

1947ء میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد بیرونی طاقتوں نے کشمیر میں مداخلت شروع کر دی۔ تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ہوا اور دشمن کے مقابلے کے لیے صف بندیاں شروع ہو گئیں۔ غلام مصطفی فاروقی نے یکم دسمبر 1947ء کو پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور بہ حیثیت سیکنڈ لیفٹینٹ حویلی میں تعینات ہوئے۔اسی تاریخ کو میجر خزین شاہ اور میجر عبدالمنان قریشی نے بھی کمیشن حاصل کیا اور حویلی میں مامور ہوئے۔حویلی کی مجموعی کمانڈ میجر خزین شاہ کے پاس تھی اور ان کے ہمراہ میجر عبدلمنان قریشی اور کیپٹن مبارک شاہ جیسے بہادر اور جنگجوبھی تھے۔

کیپٹن غلام مصطفی فاروقی نے حویلی بھر سے نوجوانوں کو بھرتی کر کے تربیت دی اور دو بٹالین ”فرسٹ فاروقی بٹالین“اور”سیکنڈ فاروقی بٹالین“ ترتیب دیں۔ تربیت یافتہ مجاہدین کو لے کر دشمن کے مقابلے کے لیے میدان میں اترے اور اپنے علاقے سے دشمن کو بھگانے میں مصروف عمل ہوگئے۔

جفائیں سرخرو ہوں اور وفا نامعتبر ٹھہرے
اگر یوں ہوتا آیا ہے تو اب ہونے نہیں دیں گے
یہاں ہم نے ستارے بوئے تھے، سورج اگائے تھے
کسی کو اس زمیں میں ظلمتیں بونے نہیں دیں گے
(ڈاکٹر افتخار مغل)

غلام مصطفی فاروقی کو خدا نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ نڈر، جرات مند، بروقت اور مثالی حکمت عملی کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ مرد مجاہد اپنے وطن عزیز کی آبرو اور آزادی کی خاطر پورے جی جان سے لڑ رہا تھا۔

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

مورخہ 19 /اکتوبر 1948ء کو دیگوار کے قریب برمی درّہ کے مقام پر جب دشمن نے حملہ کیا تو کیپٹن غلام مصطفی فاروقی نے بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے اور مثالی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے حملے کو ناکام بنایا اور بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود اپنی تحویل میں لے لیا۔ آپ کے ہم راہ صوبیدار فقیر محمد اور جمعدار عمر دین بھی تھے۔

بدقسمتی سے دشمن کی جوابی کارروائی میں سرزمین حویلی کے اس سپوت نے لازوال تاریخ رقم کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کا جسدِ خاکی مبارک شاہ کے والد محترم معظم شاہ صاحب اٹھا کر ان کے گاؤں کلالی لے کر آئے تھے۔

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰۃ ہے

کیپٹن غلام مصطفی فاروقی شہید کو ان کی جرات، بہادری اور شجاعت کے صلہ میں ”شیر جنگ“(موجودہ ستارہئ جرات) کا جب کہ صوبیدار فقیر محمد خان کو ”مجاہدِ حیدری“ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ستارہئ جرات اِس وقت فوج کا تیسرا بڑا اعزاز ہے۔کیپٹن مبارک شاہ مورخہ 16جولائی 1948ء کو شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے،انہیں بھی ”شیرجنگ“ کے اعزازسے نوازا گیا۔

اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں

یہ اعزاز نہ صرف قریشی خاندان یا ضلع حویلی کے لیے ہے بلکہ آزادکشمیر بھر کا اعزاز ہے، مگر شومئی قسمت کہ اب تک ان کے نام پر نہ تو کسی تعلیمی ادارے کا نام رکھا گیا اور نہ ہی ان کے مزار کی تعمیر ممکن ہو سکی۔ کیپٹن غلام مصطفی قریشی کی محنت اور قربانی کا نتیجہ ہے کہ اہلِ حویلی آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔

یہ برگ و بار یہ نکہت ترے حوالے سے
ہمیں ملی ہے یہ جنت ترے حوالے سے
(شہباز گردیزی)

کیپٹن غلام مصطفی فاروقی شہید کے نام پرنہ صرف کسی تعلیمی ادارے کا نام رکھا جانا ناگزیر ہے بل کہ ان کے متعلق مضمون شاملِ نصاب ہو نا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کی قربانیوں سے آشنا رہیں، اسی میں قوموں کی بقا ہے۔ جو قومیں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو بھول جا یا کرتی ہیں یقینا ان کی ترقی اور آزادی ماند پڑ جاتی ہے۔ یاد رہے کہ کیپٹن صاحب کی ترتیب دی گئی بٹالین کو 1975 ء میں 21AK رجمنٹ کے نام سے مستقل کردیا گیا تھا۔

”اِحیائے ادب حویلی“اور ”ہمالین پریس کلب حویلی“ کے تمام ذمہ داران، عہدیداران و اراکین اس مردِ مجاہد کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کی قربانی کو تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ ایسے جاں باز اور وطن سے عشق کرنے والی شخصیات قوموں کا قیمتی سرمایہ ہواکرتی ہیں۔ کشمیر تاحال منقسم ہے اور کرب و بلا کا منظر پیش کر رہا ہے۔ علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر تو اب ہر دعا کا حصہ بن گیا ہے۔

توڑ اس دستِ جفاکیش کو یا رب، جس نے
روحِ آزادئ کشمیر کو پامال کیا

ہمیشہ دعا کیجیے کہ اللہ تعالی شہدائے کشمیر کی قربانیوں کو قبول فرما ئے اور ٹکڑوں میں بٹی قوم کو آزادی نصیب فرمائے۔ آخر پر مشتاق شاد کے کہے یہ دعائیہ اشعار اس امید کے ساتھ کہ وہ آزاد رب شاید کسی زبان سے نکلی ”آمین“ کو قبول فرما لے۔

اے خدا تجھ کو شہیدوں کے لہو کا واسطہ
ماؤں، بہنوں کی دریدہ آبرو کا واسطہ
جسم سے کاٹی ہوئی بانہوں کی بھی فریاد سن
درد کی روداد سن، آہوں کی بھی فریاد سن
پھر ابابیلوں کا غولِ آسمانی بھیج دے
تو کہاں ہے، پھر کوئی اپنی نشانی بھیج دے
ہم تہی ہاتھوں کو یا بازوئے حیدر کر عطا
یا ابابیلوں کی چونچوں میں وہ کنکر کر عطا
ابرہہ کے ہاتھیوں کو جو شکستِ فاش دیں
دشمنوں کے ساتھیوں کو جو شکستِ فاش دیں
پھر کوئی دیکھے نہ میلی آنکھ سے کشمیر کو
اے خدا، اب تو بدل بگڑی ہوئی تقدیر کو
سن مرے کشمیر کے مظلوم کی فریاد سن
مامتا کی لاش پر معصوم کی فریاد سن
بچیوں کی عصمتیں تاراج ہوتی دیکھ لے
کم سنوں پر بربریت آج ہوتی دیکھ لے
مل رہا ہے چار سو خونِ شہیداں خاک میں
دشمنِ اسلام رہتا ہے ہمیشہ تاک میں
اک طرف چھ لاکھ فوجی مائلِ یلغار ہیں
دوسری جانب نہتے برسرِ پیکار ہیں
لشکرِ کفار کا ہر لشکری نمرود ہے
امتحان اولادِ ابراہیمؑ کا مقصود ہے
اے خدا، اس آتش نمرود کو گلزار کر
کوئی خالد دے، کسی کو حیدرِ کرار کر
کشتواڑ و ڈوڈہ و نوگام و حضرت بل کی سن
مرغزاروں کا لہو بھی دیکھ، روتے ڈل کی سن
روک دے اب دشمنِ دیں کی ہر اک یلغار کو
نیست و نابود کر دے لشکرِ کفار کو
نام تیرا وادیئ کشمیر میں زندہ رہے
تو مرے کشمیر کی تصویر میں زندہ رہے
تجھ کو تیری ہی قسم، اب تو کرم فرمائی کر
وادیئ کشمیر میں پھر انجمن آرائی کر
٭٭٭

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے