ہم تم سے محبت کرتے ہیں جون بھائی!

میں نے جون ایلیا کے حوالے سے ایک بات یہ بھی کہی تھی کہ جہاں ان کی مجموعی ہیئت اور کیفیت ایک دیوانے کی سی تھی، وہاں ان کی شخصیت میں ڈرامے کا عنصر بھی شامل تھا اور اس کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا تھا۔ میں نے بیرونِ ملک ایک مشاعرے میں اپنی ایک غزل جس کا مطلع ہے

کہیں گلاب میں ہوں اور کہیں ببول میں ہوں

کسی کی یاد میں ہوں اور کسی کی بھول میں ہوں

سنائی تو جو دادِ قسمت میں تھی، وہ مل گئی۔ مشاعرے کے اختتام پر جون بھائی کے ہوٹل کے کمرے میں محفل جمی، تو انہوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’الحق‘‘ ذرا اپنی غزل تو نکالو، جو تم نے مشاعرے میں پڑھی تھی۔ میں نے غزلوں کے پلندے میں سے وہ غزل نکالی جو سنائی تھی۔ انہوں نے غزل والا کاغذ ہاتھ میں تھاما اور بولے ’’الحق تم نے اتنی عمدہ غزل صحیح طریقے سے سنائی ہوتی تو اس سے کہیں زیادہ داد ملتی جو تمہیں مل رہی تھی‘‘ ۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’یہ غزل میں پڑھتا ہوں، تم میری طرف دیکھتے رہو اور آئندہ اپنا کلام اسی انداز میں پڑھنا‘‘، پھر انہوں نے غزل پڑھنا شروع کی مگر ایسے جیسے سناتے ہوئے خود کو حال پڑ گیا ہو۔ گردن کو کبھی بائیں اور کبھی دائیں جانب جھٹکا دیتے ہوئے اپنے لمبے بال کبھی آنکھوں کے سامنے لے آتے اور کبھی انہیں پیچھے دھکیل دیتے۔

اس دوران انہوں نے آنکھوں میں نمی قسم کی کوئی چمک بھی تخلیق کی۔ میں نے مشاعرے میں جو غزل دو تین منٹوں میں سنائی تھی، انہوں نے اس پر اپنے قیمتی دس منٹ صرف کئے۔ پھر انہوں نے میری غزل مجھے واپس کی اس ہدایت کے ساتھ کہ مشاعروں میں کلام اس طرح سنایا کرتے ہیں۔ میں نے ان کے مشورے پر عمل کرنے کے لئے واپس پاکستان آ کر تین چار روز استاد کے بتائے ہوئے طریقے کی پریکٹس شروع کر دی مگر گردن کو بار بار دائیں بائیں جھٹکے دینے سے میں CERVICALکا مریض ہو گیا ہوں، اب گردن کسی بھی طرف آسانی سے نہیں مڑتی۔ لوگ کہتے ہیں تم مغرور ہو گئے ہو۔ تمہاری گردن میں سریا آ گیا ہے۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ بھائی سریا نہیں آیا، یہ میرے جون بھائی کا ایک عطیہ ہے جو مجھے بہرحال عزیز ہے۔ اب میں جون بھائی کو کیا بتاتا کہ گردن کو بھی پتا ہوتا ہے اسے جھٹکے دینے والے شاعر کا مقام اور مرتبہ کیا ہے؟

جون بھائی سے ایک ملاقات لاہور میں بھی ہوئی۔ ان کے گرد پروانوں کا ہجوم تھا، اس روز میں نے جس جون کو دیکھا، ایک بہت بڑے اسکالر کے روپ میں دیکھا، لسانیات سے لے کر الٰہیات تک اور اس کے علاوہ ہر موضوع پر ان کی تخلیقی گفتگو سن کر میں سوچ رہا تھا کہ کیا جون صرف شاعر ہے، بے پناہ شاعر، جس کی تقلید کوئی نہیں کر سکتا اور یہ کہ شعراء میں اس سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ بھی ’’ٹانواں ٹانواں‘‘ ہی مل سکتے ہیں، اور یہ کہ اس نے علم کے اتنے ڈھیر سارے خزانے اپنے سینے میں چھپا کر کیوں رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں کتابی شکل کیوں نہیں دی۔ وہ صرف علمی گفتگو ہی نہیں کر رہے تھے، درمیان درمیان میں منیر نیازی کی طرح کوئی ایسا جملہ بھی کہہ دیتے جو شہر در شہر سفر کرنے والا ہوتا ہے۔

اس روز انہوں نے ایک عجیب بات بھی کہی ’’الحق، تمہیں پتا ہے میرے بزرگوں کا تعلق لاہور سے ہے‘‘ اور اس کے بعد انہوں نے ایک طویل شجرئہ نسب کی نقل و حمل سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ بنیادی طور پر لاہوریئے ہیں۔ لاہور کے لئے اس سے زیادہ خوش قسمتی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے، تاہم امروہہ والوں سے میری دست بستہ گزارش ہے کہ وہ جون بھائی کے اس بیان کو ان دس بارہ جام کا کرشمہ سمجھیں جو انہوں نے اپنے اندر انڈیلے تھے اور اس کے بعد بارہ تیرہ مختلف قسم کی ادویات کی ٹیبلٹس پانی کے ایک گھونٹ سے اپنے میں ٹھونس کر سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔

ہم تم سے محبت کرتے ہیں جون بھائی، تم نے خود کو برباد کر کے اپنی شاعری سے ہمیں اور آنے والی نسلوں کو آباد کر دیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے