آزادکشمیرکے سُپروزیراعظم کی کارستانیاں

13ہزار 296مربع کلو میٹر پر محیط آزادکشمیر میں قائم حکومت آزادکشمیر کے وزیر اعظم کے پاس محدود اختیارات ہیں۔آزادکشمیر کے باشندوں اور آزادکشمیر کے وزیر اعظم کا وزیر اعظم بھی وزیر اعظم پاکستان ہوتا ہے،سادہ لفظوں میں اگر اس کی مزید تشریح کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا وزیر اعظم آزادکشمیر کے لوگوں کیلئے سپر وزیر اعظم ہے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن اس وقت آزادکشمیر میں گورننس کے معاملات کے حوالے سے جو صورتحال ہے اس کا وزیر اعظم پاکستان یا آزادکشمیر اور پاکستان کے انتظامی رشتوں سے کوئی تعلق نہیں۔

آزادکشمیر کے لوگوں،آزادکشمیر کے وزراء،آزادکشمیر کی بیوروکریسی کیلئے سپر وزیر اعظم فاروق حیدر نہیں ایک اور شخصیت ہیں ، ہم کہہ سکتے ہیں حکومت آزادکشمیر کے جملہ معاملات آج کل وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان کے بجائے سپر وزیر اعظم کے پاس ہیں ، آئیے اس دبنگ سپر وزیر اعظم کی مبینہ سرکاری سوانح حیات دیکھتے ہیں.

یہ چوہدری عبدالمجید کا دور حکومت تھا،میرپور میں واپڈا کی مبینہ طور پر 50 کروڑ سے زائد مالیت کی جگہ فروخت کرنے کا منصوبہ تیار ہوا،پلاٹ بنے فروخت ہوئے حصہ بقدر جُسہ رقم تقسیم ہو گئی، بعد ازاں فروخت کی گئی جگہ دوبارہ فروخت ہونا شروع ہوئی تو شور اُٹھا،چیف سیکرٹری سلطان سکندر راجا تھے، مرکزی کردار اور آج کے سپر وزیر اعظم کے خلاف انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں سپیشل پاور ایکٹ کے تحت کارروائی کیلئے چیف سیکرٹری نے وزیراعظم وقت چوہدری مجید کو لکھا، تجوریوں کے منہ کھلے معاملہ رک گیا.

بعد ازاں محترم فاروق حیدر صاحب وزیر اعظم کی کرسی سنبھالتے ہیں،آج کا سپر وزیر اعظم فاروق حیدر کے سامنے خود کو بے گناہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا بلکہ روایتی گیدڑ سنگھی کا استعمال کرتے ہوئے دنوں میں ترقی کی معراج پر پہنچا۔

ترقیاتی ادارہ میرپور کا ریکارڈ گواہ ہے کہ 50سے زائد ناقابل معافی کرپشن کہانیوں کا کردار ایک دم صادق اور امین ٹھہرا۔

چور،کرپٹ،کھا گیا،لوٹ لیا،اتنے پلاٹ فروخت کیے،فلاں فلاں معاملے کا مرکزی کردار ہے،اربوں روپے کی جائیدادیں بنا گی، انکوائریاں،سپیشل پاور ایکٹ کے استعمال کی سفارشات مگر ، ان سب کے مقابلے میں وہ ایک شخص،ٹس سے مس نہیں ، کسی کو خاطر میں نہیں لایا، اس کا اپنا طریقہ واردات ہے‘چھوٹی واردات سے اُسے نفرت ہے،بڑا کھیل اس کا مشغلہ ہے ، وہ دیہاڑی باز بونوں کی اچھل کودپر زیر لب مسکراتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ان سب کی اوقات کیا ہے؟ کس کی کیا قیمت ہے؟کسے کب کون سی جیب میں ڈال کر زپ بند کی جا سکتی ہے؟

سو وہ اسی نظام سے پیسے نکالتا ہے…کچھ بولنے والوں کے منہ میں ان کی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالتا ہے اور آگے بڑھتا جاتا ہے۔اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے والے اُسے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر بٹھانے پر مجبور ہوئے،اس کے خلاف اونچی آوازمیں بولنے والے اب اس کا نام سن کر موسم،کھانوں اور پرکشش سیاحتی مقامات کا ذکر شروع کر دیتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ آج سپر وزیراعظم وہ طوطا ہے کہ وزارت عظمیٰ کی جان اس میں ہے۔اسے اپنی اس طاقت کا مکمل احساس ہے اسی لیے وہ وزیر اعظم کے ماتحت ہوتے ہوئے خود کوسپر وزیراعظم ثابت کر رہا ہے ۔مسند سنبھالتے ہی اس نے محکمہ تعلیم کیلئے سامان کی خریداری کا ٹھیکہ ایک سبزی فروخت کرنے والی کمپنی کو دیا،طاقت ور وزیر افتخار گیلانی نے وزیر اعظم کو خط لکھا مگر سپر وزیر اعظم نے خود کو سپر وزیر اعظم ثابت کیا اور ہزاروں لوگوں سے ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچنے والا وزیر بے بس نظر آیا

راجہ فاروق حیدر کیلئے نئی گاڑی خریدنے کا منصوبہ … قیمت 2019 ماڈل کی اور گاڑی 2018ماڈل کی،ٹرانسپورٹ پول کا ایک افسر رکاوٹ بن گیا،اس کے تبادلے کا حکم جاری ہوتا ہے مگر سُپر سے اوپر والے میدان میں آگئے ، بتایا جاتا ہے کہ وِن وِن پوزیشن کو برقرار رکھ کر معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کیا گیا یا کیا جارہا ہے۔

آج کل وزراء حکومت وزیر اعظم کے پاس سُپر وزیراعظم کی شکایت کرتے ہیں جو اب میں وزیراعظم وزراء سے سپر وزیر اعظم کی شکایت کرتے ہیں،یوں بھرم رکھنے کیلئے شکایتوں سے کام چلایا جا رہا ہے،اس سارے منظر نامے کو اگر ایک جملے میں لکھا جائے تو عبارت کچھ یوں بنے گی

وزیر اعظم کی سُپر وزیر اعظم سے ملاقات
سپر وزیر اعظم نے وزیر اعظم کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا……خطرے کی کوئی بات نہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے