Laundromat طوائف اور امریکہ

ابھی ابھی اس کا آفیشل ٹریلر NETFLIX پر جاری ہوا ہے جس میں آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ کی امریکن اداکارہ میرل سٹریپ (Meryl Streep) نے با شعور بیوہ کا کردار ادا کیا۔ سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں لُٹنے والی خاتون۔ ہمارا اعزاز یہ ہے کہ 3 بار وزیر اعظم رہنے والے صاحبِ فراش لیڈر کو اس فلم میں یکے از ملزمان کے طور پر شامل کیا گیا۔ یہ کالے دھن، کالے کرتوت اور منی لانڈرنگ کی گلوبل داستان کا کردار ہے۔ ایک ایسا چلتا پھرتا کریکٹر جس نے اپنی قوم کو کمرشل فاتحِ اعظم یا بین الاقوامی جرائم میں ماسٹر مائنڈ جیسے اعزاز سے نواز دیا۔

جاریMillennium میں سنڈیکیٹ کرائمز کے عجائبات عالم میں سے ایک۔ یہ کہانی امریکی سر زمین پر فلمائی گئی۔ اسی امریکہ میں ایک دوسری کہانی نے بھی جنم لیا۔ کارلا فے ٹکّر (Karla Faye Tucker) کی کہانی۔

کارلا فے ٹکر ہیوسٹن ٹیکساس میں لیری اور کیرولین ٹکر کے ہاں 18 نومبر 1959 کو پیدا ہوئی۔ وہ تین بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ لیری اور کیرولین کی شادی گھریلو جھگڑوں کا شکار رہی۔ کارلا نے اپنی بہنوں کے ساتھ 8 سال کی عمر میں سگریٹ نوشی شروع کر دی۔ 10 سال کی عمر میں لیری اور کیرولین ٹکر کی طلاق ہو گئی۔ تب کارلا کو پتہ چلا کہ لیری ٹکر اس کا جینیاتی باپ نہیں بلکہ اس کی پیدائش کیرولین کے Extra marital افیئر کا نتیجہ ہے۔ 12 سال کی بالی عمر میں کارلا ماں کے نقشِ قدم پہ چلتی ہوئی جسم فروشی اور منشیات نوشی کی دنیا میں داخل ہو گئی۔ 14 سال میں سکول چھوڑا، ماں کے ساتھ Rock band میں شامل ہوئی۔ سولہویں سال میں سٹیفن گرفتھ سے شادی کی جو جلد ختم ہو گئی۔ 20 سال کی عمر میں اس نے Biker گروپ جوائن کیا‘ جہاں شان ڈین اور اس کے شوہر جیری ڈین سے ملاقات ہوئی‘ جو دوستی میں بدل گئی۔ 21 سالہ کارلا 35 سال کے ڈینی گیرٹ کی دوست بنی۔

13 جون 1983 کو منشیات نوشی وغیرہ کے بعد صبح 3 بجے کارلا اور اس کا بوائے فرینڈ ڈینی موٹر سائیکل چوری کرنے جیری ڈین کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے۔ کارلا نے چابی پہلے ہی چرا رکھی تھی۔ جیری ڈین مکینک تھا اور اس وقت نیند میں تھا۔ کارلا اس کی چھاتی پر بیٹھ گئی۔ جیری نے مزاحمت کی تو ڈینی نے اس کے سر پر ہتھوڑا مارا جو اس نے وہیں سے اٹھایا تھا۔ کارلا نے ایک Pickaxe سے جیری کو مارنا شروع کر دیا۔ جیری کے جسم پر 20 سے زیادہ زخم تھے۔ یہیں کارلا نے ڈیبورا نامی عورت کو کلہاڑا مار کر قتل کیا۔ ڈسٹرکٹ کورٹ نے ڈبل مرڈر کیس میں دونوں کا ٹرائل کیا۔

19 اپریل 1984 کو جیوری نے انہیں قصوروار کہا اور 25 اپریل کو سزائے موت سنائی گئی جو سپریم کورٹ تک برقرار رہی۔ ڈینی جیل میں بیماری سے مر گیا جبکہ کارلا نے بائبل پڑھنا شروع کی۔ اگلے 14 سال تک اس کی زندگی بدل گئی۔ 1995 میں جیل کے پادری ”برائون‘‘ نے کارلا سے Proxy شادی کر لی۔ یوں اس کی تبدیلی کی خبر باہر کی دنیا تک پہنچی۔ ہر طرف شور مچ گیا۔ مظاہرے شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ ڈیبورا (مقتولہ) کا بھائی اور جیری ڈین (مقتول) کی بہن بھی اس کے حق میں باہر نکل آئے۔ کارلا کہتی رہی کہ اس نے جو کیا ہے اس پر اسے سزا ملنی چاہیے لیکن بحیثیت Christian وہ سزائے موت کے خلاف ہے۔

اب چلتے ہیں امریکن سوسائٹی، ریاست اور نظامِ عدل کی طرف۔ ان تینوں کے سامنے نظریۂ ضرورت بانہیں کھولے کھڑا تھا کیوں کہ کارلا کا کیس بین الاقوامی سطح پر بہت مشہور ہوا۔ بہت سے لوگوں نے کارلا کی سزائے موت میں تخفیف کی حمایت کی۔ Bacre Waly Ndiaye، UN کمشنر فار Summary and arbitrary executions جیسے اہم اداروں نے بھی ریاستِ ٹیکساس سے رحم کی اپیل کر دی۔ اس کے علاوہ، Pope جان پال دوئم نے کارلا کو سزائے موت نہ دینے کی اپیل کی۔ اطالوی وزیر اعظم رومانو پروڈی، امریکن ایوانِ نمائندگان کے سپیکر نیوٹ گینگرچ، Televangelist پیٹ رابرٹ سن، عالمی شہرت یافتہ جیسی جیکسن اور مقتولہ کا بھائی رونالڈ کارل سن بھی رحم کی اپیل کرنے والوں میں شامل تھے۔ رحم کی اپیل ٹیکساس بورڈ آف پارڈن میں پیش ہوئی۔ 18 میں سے 2 ممبران نے درخواست دے کر چھٹی کر لی۔ 28 جنوری 1998 کو باقی سولہ نے سزا معاف کرنے سے انکار کر دیا۔

تب ٹیکساس کا گورنر جارج بش تھا۔ اُسے سزائے موت کو 30 دن موخر کرنے کی درخواست کی گئی۔ جارج بش نے سزائے موت پر عمل درآمد میں تاخیر کرنے سے انکار کر دیا۔ گورنر بش نے اس موقع پر تاریخ ساز الفاظ میں اپنے فیصلے کو ریکارڈ کا حصہ بنایا۔ کہا ”میں نے اپنی ریاست کے قوانین پر عمل درآمد کروانے کا حلف اٹھایا ہے۔ میری ذمہ داری ہے کہ میں ان قوانین کا نفاذ ایمانداری سے کروائوں۔ بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی کارلا کے کیس سے متاثر ہوا ہوں۔ لہٰذا، میں نے عبادت اور دعائوں کے ذریعے بھی رہنمائی ڈھونڈی۔ میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ بہتر ہو گا، سزائے موت کے منتظر فرد کے دل و روح میں تبدیلی کا فیصلہ ہم Higher authority پر چھوڑ دیں۔ کارلا نے قتل کا اعتراف کیا۔ اسے جیوری نے سزا دی۔ ریاست کا کام قانون پر عمل درآمد کروانا ہے۔ خدا کارلا، اس کے Victims اور ان کے خاندانوں پر رحم فرمائے‘‘۔ سپریم کورٹ نے بھی دوبارہ ٹرائل اور سزا معافی کی درخواستیں سرسری سماعت کے بعد رد کر دیں۔ 3 فروری 1998 کی شام 6:45 پر کارلا فے ٹکر کو زہریلا انجیکشن لگا کر سزائے موت دے دی گئی۔

اس طرح، امریکہ کی تاریخ میں مجرموں کو گلیمرائز کرنے اور ماورائے قانون وجوہات کی بنا پر رعایت دینے کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسی ہفتے Act of Terrorismکی نئی تشریح کی۔ یہ سات رکنی بینچ تھا۔ اس فیصلے کے تین اہم پہلو ہیں۔ پہلا، نئی تعریف کی روشنی میں کوئی فریق پیسے کے زور پر روٹین کی واردات کو دہشت گردی میں شامل نہیں کروا سکے گا۔ دوسرا، زورِ بیان، اثر و رسوخ اور میڈیا کی حمایت سے ریاست، اس کے اداروں اور قانون نافذ کرنے والوں پر حملہ دہشت گردی ہے۔ تیسری اور اہم بات یہ کہ مُلک کی مقننہ کو نئے سرے سے دہشت گردی پر قانون سازی کی ہدایت کی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر letter & spirit میں عمل درآمد کرنا ہو گا۔

جس طرح ریاست کی طاقت سادہ لوح شہریوںکے خلاف جرم پر حرکت میں آتی ہے اُسی طرح ضروری ہے کہ ان مجرموں کو گلیمرائز کرنے والوں کے خلاف بھی قانون وضع کیا جائے۔ مجھے یقین ہے‘ پاکستان میں Rule of law کی کمزوری کی وجہ یہی ہے۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل نمبر 5 ریاست سے غیر مشروط وفاداری کا تقاضا کرتا ہے۔ ابھی دو دن پہلے تجارت کرنے والوں کی ہڑتال کا مقصد ”میں شناختی کارڈ نہیں دکھائوں گی‘‘ تھا۔ کچھ دن پہلے سرکاری ملازمتوں کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان Servants of state مل بیٹھے۔ ملازموں کی ٹولی کہتی ہے ”میں اثاثے نہیں دکھائوں گی‘‘۔ ایسا لگتا ہے جیسے طاقت ور طبقات نے 796096 مربع کلومیٹر پر پھیلی پاکستان کی سرزمینِ با آئین پرLaundromat بچھا رکھا ہے۔

امریکہ کی طوائف زادی کارلا کی کہانی میں یہ منظر بھی تھا۔ جب اس کو ڈیٹھ سٹریچر پر باندھا گیا تو وہ مسکرا بھی رہی تھی اور رو بھی رہی تھی۔ کارلا کے آخری الفاظ یہ تھے ”تھرنٹن خاندان اور جیری ڈین کے خاندان والوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ میں شرمندہ ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس (سزا) سے خدا آپ لوگوں کو سکون دے دے گا‘‘۔
حضرت علیؓ کا قول ہے ”معاشرے کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن نا انصافی کے ساتھ نہیں‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے