آخری سانس تک جنسی تعلیم دیتی رہوں گی:ارم فاطمہ

لاہور کے گنجان آباد علاقوں اور دیہاتوں کو جانے والے کچے راستوں اور پکی سڑکوں پر اکثر آپ کو ایک سفید رنگ کی پرنٹڈ گاڑی دوڑتی نظر آئے گی۔

https://www.facebook.com/bbcurdu/videos/2651538264905246/

اس گاڑی میں سب سے زیادہ متاثر کرنے والی چیز اس پر بنائے گئے مختلف اقسام کے کارٹونز ہیں۔ ان کارٹونز کو دیکھ کر آپ شاید سوچیں کہ یہ گاڑی کسی سکول کے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ دینے کے لیے استعمال ہوتی ہو گی۔

مگر ایسا نہیں ہے۔

یہ گاڑی ایک موبائل اویئرنیس سینٹر یا چلتا پھرتا آگاہی مرکز ہے جسے لاہور کی رہائشی ارم فاطمہ نے خاص طور پر دیہات میں رہنے اور وہیں پلنے والے بچوں کے لیے ہی بنوایا ہے۔

ارم ایک سماجی کارکن ہیں اور ایک مقامی سماجی تنظیم ’بیداری‘ سے منسلک ہیں۔ وہ گذشتہ 10 سال سے اسی ادارے میں بچوں اور خواتین کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔

ایک سماجی تنظیم میں کام کرنے کے باعث ارم کو معاشرے میں ہونے والی برائیوں بالخصوص بچوں سے منسلک مسائل کے بارے میں کافی معلومات ہیں اور وہ اکثر اپنی تنظیم کے ذریعے دوسرے لوگوں کی تربیت بھی کرتی رہی ہیں۔

گاڑی پر بنے کارٹونز بھی منفرد اور بامعنی ہیں۔ کہیں بچے ہاتھ سے ہاتھ جوڑے قطار بنائے کھڑے ہیں اور کہیں ایک چھوٹی سی بچی ہاتھ میں گڑیا لیے اپنی ہی عمر کے بچے کے ساتھ عروسی جوڑے میں ملبوس ہیں جو کہ نو عمری میں شادی جیسے اہم مسئلے پر روشنی ڈالتا ہے۔

اسی کے ساتھ گاڑی کی بیرونی جانب بہت سے سماجی پیغامات کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی نمبرز بھی درج ہیں جن میں بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا نمبر واضح ہے۔

گاڑی میں بچوں کی آگاہی کے لیے مختلف آگاہی پلے کارڈز رکھے گئے ہیں اور بہت سے کھلونے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم اور سکول کی اہمیت، مساوات اور سب سے بڑھ کر جنسی اعضا کی آگاہی اور ان کی حفاظت کے متعلق تصاویر کے ذریعے بتایا گیا۔

ان ہی تصاویر میں چائلڈ پروٹیکشن ہیلپ لائن کا نمبر بھی درج کیا گیا ہے تاکہ بچے اسے باآسانی یاد رکھ سکیں اور پھر کسی بھی ہنگامی صورت حال میں اس نمبر سے مدد لے سکیں۔

[pullquote]موبائل اویئرنس سینٹر کی ضرورت کیوں؟[/pullquote]

ارم بتاتی ہیں جب وہ لاہور شفٹ ہوئیں تو قصور اور چونیاں جیسے بہت سے واقعات ان کے آس پاس گھومنا شروع ہوئے جن میں بچوں کو اغوا کرنے کے بعد زیادتی یا بدفعلی کا نشانہ بنایا گیا اور ان میں سے اکثر کو مار دیا گیا۔ بہت سے واقعات میں قاتل بچوں کا رشتہ دار یا جاننے والا نکلا۔

ایسے واقعات دیکھنے کے بعد ارم نے سوچا کہ انھیں بچوں کو بچانے کے لیے خود سے کچھ کرنا چاہیے۔

انھوں نے محسوس کیا کہ ایسے واقعات زیادہ تر دیہات میں ہو رہے ہیں جہاں لوگوں میں شرح خواندگی بھی کم ہے اور کم عمری کے باعث والدین اپنے بچوں کو مکمل تربیت نہیں دے پاتے۔

اس کے علاوہ پاکستانی معاشرے میں والدین اپنے بچوں کو جنسی آگاہی دینے سے کتراتے اور شرم محسوس کرتے ہیں۔ ماں باپ سمجھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ بچے خود ہی جنسیت کو سمجھ لیں گے۔ ان کے نزدیک یہ تعلیم اہم نہیں۔

اسی وجہ سے وہ بچوں کو سمجھا نہیں پاتے کہ بچوں نے خطرے میں یا ہراسانی کے دوران اپنا دفاع کیسے کرنا ہے اور کیسے خود کو محفوظ رکھنا ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق جنوری تا جون سنہ 2019 کے دوران 729 بچیاں جبکہ 575 بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ یعنی روزانہ اوسطاً سات بچے زیادتی کا شکار ہوئے۔

جغرافیائی اعتبار سے صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ زیادتی کے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ یہ سب دیکھ کر انھوں نے بچوں کو خود سے شعور دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے چھٹی کے روز کو بچوں کی آگاہی مہم کے لیے وقف کر دیا۔ اس رضا کارانہ کام میں ان کے دونوں بھائیوں وقاص اور اسرار نے ان کی مدد کی۔

[pullquote]ارم جنسی تشدد کی آگاہی دینے کے لیے کیا کرتی ہیں؟[/pullquote]

ارم بتاتی ہیں کہ انھوں نے اپنے بھائی کے زیر استعمال گاڑی کو بچوں کی دلچسپی کے مطابق باہر سے روغن کروایا اور ایسی تصاویر بنوائیں جن میں معلومات کے ساتھ خاموش پیغام بھی ہوں۔

ارم گاڑی لے کر لاہور کے دور دراز علاقوں خصوصاً دیہاتوں میں جاتی ہیں جہاں وہ بچوں کو اپنے بچاؤ کی تربیت دیتی ہیں۔ بچوں کو سمجھانے کے لیے وہ مختلف نفسیاتی سیشنز تیار کرتی ہیں۔

اس کے ساتھ وہ والدین کو اپنے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے شعور بھی دیتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو اس خطرے سے لڑنے کے قابل بنایا جائے۔

[pullquote]آگاہی سیشن میں بچوں کو کیا سکھایا جاتا ہے؟[/pullquote]

ارم بتاتی ہیں کہ انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کے لیے آگاہی سیشن ترتیب دیا اور سیشن کے دوران استعمال ہونے والی اشیا کا انتظام انھوں نے گھر سے کیا تھا۔

ارم ہر دیہات کا پہلے سے دورہ کرتی ہیں، وہاں کے علاقہ مکینوں سے بات کرتی ہیں، وہاں کے لوگوں کو گاؤں میں اپنے آنے کے مقصد سے آگاہ کرتی ہیں اور ہفتے کے کچھ دن مخصوص کر کے انھیں آگاہی سیشن دینے پہنچتی ہیں۔

مقررہ دن وہ وہاں پہنچ کر اپنا سامان سیٹ کرتی ہیں اور لاؤڈ سپیکر سے بچوں کو پکارتی ہیں۔ بچے ان کی آواز سن کر فوراً جمع ہو جاتے ہیں اور پھر ارم اپنا سیشن شروع کر دیتی ہیں۔

وہ بچوں کو مختلف تصاویر اور خطرناک جانوروں کے کھلونے دکھا کر ان میں پہلے خطرے کا شعور پیدا کرتی ہیں، پھر اسی شعور کو وہ انسانوں سے جوڑ دیتی ہیں کہ بچوں کو خطرہ کن اور کس طرح کے لوگوں سے ہو سکتا ہے۔

’موبائل اویئرنیس سینٹر میں ہم نے کھلونے اور پلے کارڈز رکھے ہیں جن کے ذریعے بچوں کے اندر تحفظ اور خطرے کا شعور پیدا کیا جاتا ہے جبکہ مائیک اور لاؤڈ سپیکرز بھی موجود ہیں تاکہ آس پاس کے گھروں اور دکانوں پر موجود والدین بھی جان سکیں کہ ان کے بچوں کو کیا سکھایا، سمجھایا اور بتایا جا رہا ہے۔‘

[pullquote]اپنا دفاع کیسے کرنا چاہیے؟[/pullquote]

سیشن کے دوران ارم بچوں کو اپنے دفاع کے گر بتاتی ہیں۔

وہ انھیں بتاتی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کے مخصوص اعضا کو چھونے کی کوشش کرے تو انھیں کیسے چیخنا چاہیے اور اگر کوئی ان کو پکڑنا چاہے تو اپنا دفاع کرتے ہوئے مد مقابل کو کیسے ٹانگ مار کر بھاگنا چاہیے۔

وہ بچوں کو عملی طور پر بھاگ کر بھی دکھاتی ہیں اور بچے بھی ان کی طرح ہی بھاگتے ہیں۔

یہی نہیں، سیشن میں انھیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ’خطرہ‘ ان کو ان کی پسندیدہ چیز کا لالچ بھی دیتا ہے۔ وہ انھیں بتاتی ہیں کہ انھوں نے لالچ میں نہیں آنا۔ وہ انھیں بتاتی ہیں کہ ان کے والدین ہی ان کا تحفظ ہیں چنانچہ والدین کو فوری اور ضروری بتانا ہے۔

ارم کے مطابق بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے ایسے واقعات میں ایک وجہ والدین اور بچوں کے درمیان دوستی نہ ہونا بھی ہے۔ وہ والدین کو بھی سیشن دیتی ہیں اور انھیں آگاہ کرتی ہیں کہ کیسے انھوں نے اپنے بچوں کے ساتھ دوستی پیدا کرنی ہے تاکہ وہ بلا جھجھک اپنے والدین کو اپنے مسائل بتا سکیں۔

’بچوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ والدین اور بچوں کی دوستی ہو کیونکہ جب والدین اور بچوں میں خلا ہو گا تو کوئی بھی اجنبی درمیان میں آ کر اس فاصلے کو پر کرنے کی کوشش کرے گا۔‘

[pullquote]اپنی مدد آپ کے تصور کا فروغ[/pullquote]

ارم کہتی ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ہم کب تک اس انتظار میں رہیں گے کہ کوئی باہر سے آئے گا اور ہمارے بچوں کو بتائے گا۔ ’ہمیں اپنے بچوں کو خود بتانا ہے اور ہمیں اپنی مدد آپ کو فروغ دینا چاہیے۔‘

’اپنی مدد آپ کے تحت اگر ہم چاہیں تو ہم یہ ذمہ داری بہتر نبھا سکتے ہیں ہم بچوں کو سمجھا سکتے ہیں اور ان کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔‘

تاہم ان کے مطابق حکومت کو بھی چاہیے کہ بچوں کے حوالے سے قوانین میں ترمیم کرے اور سکولوں میں بھی جنسی آگاہی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

[pullquote]مرنے سے پہلے ایک خواہش[/pullquote]

ارم کینسر کی مریضہ بھی ہیں۔ انھیں بیضہ دانی کا سرطان ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق ان کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے جسم سے تولیدی نظام نکال دیا جائے۔

اس سے پہلے بھی ارم کے متعدد بار آپریشنز ہو چکے ہیں مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ارم کا کہنا ہے کہ بچوں کے ساتھ گزارے گئے وقت سے انھیں طاقت ملتی ہے اور ان میں جینے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔

’جب ڈاکٹرز نے مجھے بتایا کہ میرے پاس کوئی اور حل نہیں ہے تو ایک عورت ہوتے ہوئے یہ میرے لیے بے حد تکلیف دہ تھا۔ تین چار دن میں بہت روتی رہی مگر پھر میں نے فیصلہ کیا کہ جتنی بھی زندگی میرے ہاتھ میں باقی ہے اسے بچوں کے لیے مخصوص کر دوں۔‘

’موت میرے ساتھ ساتھ میرے پیچھے پیچھے چل رہی ہے مگر جب میں ان بچوں کے ساتھ ہوتی ہوں مجھے اپنی تکلیف بھول جاتی ہے۔‘

بشکریہ بی بی سی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے