کرتار پورہ راہدری اور مولانا فضل الرحمان

سوشل میڈیا کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں % 80 خبریں بے بنیاد اور جھوٹی ہوتی ہیں۔ انہی خبروں کی بنیاد پر رائے عامہ بنتی ہے۔ جھوٹی خبریں پھیلانے کے لئے باقاعدہ سیاسی جماعتوں کے سیل قائم ہیں۔ مغربی دنیا میں اس کو (perception management)کہا جاتا ہے۔

9 نومبر 2019 کو حکومت پاکستان کی جانب سے کرتار پورہ راہداری کو دنیا بھر کے سکھوں کے لئے کھولے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل اقدامات کئے گئے ہیں جنکو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

1) سکھ یاتریوں کے لئے پاکستان آنے کے لئے ویزے کی شرط ختم کاکیا جانا ۔

2) سکھ یاتریوں کے لئے پاکستان آنے کے لئے پاسپورٹ کی شرط ختم کاکیا جانا ۔

3) سکھوں کو دنیا بھر سے پاکستان آنےکی اجازت ۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کرتار پورہ عین پاک بھارت سرحد پر واقع ہے ۔ آنے والے زائرین کو بمشکل ایک کلومیٹر بھی پاکستانی سرحد کے اندر داخل ہونا پڑے گا۔

اہم حقائق کی روشنی میں اس استثنیٰ کا تجزیہ پیش خدمت ہے ۔

1) بھارت سے آنے والے زائرین کو کرتارپورہ راہداری کے احاطے سے ایک انچ باہر جانے کی اجازت نہ ہوگی اور اس احاطے کو مکمل طور پر بند کیا گیا ہےجبکہ رینجرز اور پاکستان کی بارڈر سیکورٹی فورسز اسکی نگرانی کریں گی۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ہندوستانی شہری بغیر پاسپورٹ اور ویزہ پاکستان بھر میں گھومتے رہیں گے۔

2) زائرین کو پاکستان کرتارپور احاطے سے باہر آنے کی اجازت ہو گی نہ ہی وہ پاکستان میں داخل ہو سکیں گے۔ انٹری چند گھنٹوں کے لئے ہوگی ۔

3) بیرون ملک سے آنے والے زائرین کو بارڈر کراس کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔

4) ہر آنے والے یاتری کو 20 ڈالر انٹری فیس دینا ہو گی جس سے سالانا اربوں ڈالر کی آمدنی ہو گی ۔

5) دنیا بھر میں اقلیتوں کے حقوق کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان کو پذیرائی ملے گی۔

6) یہ سہولت ریاست مدینہ ماڈل میں اقلیتوں کو حاصل حقوق کی عکاسی کرے گی۔اب جو سب سے اہم ترین strategic زاویہ ہے اسکو سمجھنے کے لئے ہم کو اس نقشے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

[pullquote] خالصتان کی ریاست[/pullquote]

اس نقشے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستانی پنجاب کے ساتھ ساتھ اگر بھارتی پنجاب میں خالصتان کی ریاست قائم ہو جائے تو پاکستان کی مشرقی سرحد نہ صرف محفوظ ہوگی بلکہ ہم بھارت کے ٹکڑے با آسانی کر لیں گے۔خالصتان کی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی بھارت کا کشمیر سے زمینی رابطہ ختم ہو جائے گا۔ ان اقدامات سے سکھ کمیونٹی کے دلوں میں نہ صرف پاکستان کےلیے محبت پیدا ہو گئی ہے، بلکہ امرتسر میں سکھ براداری نےسڑکوں پر عمران خان کی تصویریں آویزاں کر دی ہیں ،جس کو یوں سمجھا جائے کہ پاکستان کے کسی شہر میں نریندر ہ مودی کی تصاویر آویزاں کی جائیں ۔

[pullquote] خالصتان کی ریاست اور پیپلز پارٹی[/pullquote]

1980 کی دہائی میں جنرل ضیاءالحق اور جنرل حمید گل کی زبردست پالیسی سے خالصتان تحریک اپنے عروج پر تھی۔ مگر پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے آتے ہی اس تحریک کی پیٹھ میں خنجر گھونپا گیا۔ 1200 سے زائد سکھ رہنماؤں کی فہرست اس وقت کے وزیر داخلہ، اعتزاز احسن نے بے نظیر بھٹو کے حکم پر بھارتی حکومت کے حوالے کر دی اور یہ تحریک دم توڑ گئی تھی۔

[pullquote]راہول گاندھی کاسبق آمیز واقعہ[/pullquote]

میرے ایک عزیز جمیل کھوکھر صاحب علاج کی غرض سے 2008 میں بھارت گئے تھے۔ انہوں نے کانگرس پارٹی کے ایک انتخابی جلسے کا احوال سناتے ہوئے ایک دلچسپ اور سبق آمیز واقعہ سنایا، کہ دہلی کی ایک بستی میں راہول گاندھی نے کانگرس پارٹی کے جلسہ سے خطاب کیا۔ وہ اس جلسے میں عوام سے گلی محلے کے مسائل کے برعکس یہ استفسار کر رہے تھے کہ کیا ان کی مخالف ب جے پی میں کوئی ایسا خاندان موجود ہے جس نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے ہوں، انہوں نے کہا کہ ان کو فخر ہے کہ انکا تعلق اس خاندان سے ہے۔جس نے پاکستان کو دو لخت کیا تھا اور اگر عوام نے ان کو دوبارہ منتخب کیا تو وہ پاکستان کے مزید ٹکڑے کریں گے۔ راہول گاندھی کی یہ تقریر پاکستانی عوام کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

[pullquote]قومی مفاد[/pullquote]

اس ساری صورتحال حال میں بلاشبہ عمران خان کا بھارت کی سکھ برادری کو قریب کرنے کے لئے یہ اقدام بہت مثبت ے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج میں 2 لاکھ سکھ تعینات ہیں۔سیاسی اختلافات اور ذاتی پسند ناپسند سے ہٹ کر ہمیں قومی مفاد کے معاملات میں نہ صرف یکجا ہونا چاہے ،بلکہ اچھے اقدامات کی دادو تحسین کرنی چاہے۔

اس راہداری پر بے جا تنقید کرنے والے مولانا فضل الرحمان 40 سال سے اقتدار میں شامل رہے ، ملکی مفادات کو خاطر میں لانا چاہیے۔ گزشتہ روز وہ آزادی مارچ کے شرکاء کو یہ باور کروا رہے تھے عمران خان پاکستان کو سکھ مملکت بنانا چاہتے ہیں ۔اپنی ذاتی سیاست اور مفادسے بالاتر ہو کر کرتار پور ہ راہداری کے فیصلے کو سراہنا چاہیے نہ کہ اس منصوبے کو ہدف بنا کر پاکستان مخالف بیانیہ کی ترویج کرنی چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے