مولانا سمیع الحق شہید

دارالعلوم مدنیہ ڈسکہ کے مہتمم مولانا محمد ایوب خان ثاقب نے 5 نومبر ہفتہ کو ظہر کے بعد حضرت مولانا سمیع الحقؒ شہید کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں مختلف اصحاب علم و فکر کے ساتھ میں نے بھی کچھ گزارشات پیش کیں، ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے:

مولانا سمیع الحقؒ شہید ہماری ملی و دینی جدوجہد کی تاریخ کے ایک مستقل باب کا عنوان ہیں اور ان کی خدمات کا اس مختصر گفتگو میں تفصیلی تذکرہ ممکن نہیں ہے، البتہ چند باتیں عرض کر دیتا ہوں کہ مولانا سمیع الحق شہید کی حیات و خدمات کے مختلف پہلو ہیں جن میں سے ہر ایک پر کام کی ضرورت ہے اور ان کے تلامذہ و رفقا کو اس کی کوئی صورت نکالنی چاہیے۔

مثلا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند و جانشین ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی علمی، سیاسی و تحریکی جدوجہد کے رفیق کار بھی رہے ہیں۔ ان میں سے ایک دو کا مثال کے طور پر ذکر کر دیتا ہوں کہ 1973ء کے دستور کی تیاری میں دستور ساز اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حضرت مولانا عبدالحق کا بڑا حصہ ہے اور وہ دستور ساز اسمبلی کے حاضر باش اور متحرک ارکان میں سے تھے اور انہیں ہوم ورک اسٹڈی، لابنگ اور فائل ورک کے شعبوں میں مولانا سمیع الحق کا تعاون حاصل تھا۔ اسی طرح 1974 کی تحریک ختم نبوت کے دوران پارلیمنٹ میں ارکان اسمبلی کو قادیانیت کے مسئلہ پر بریفنگ، دلائل اور ضروری علمی مواد فراہم کرنے والے حضرات میں مولانا سمیع الحق، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا عبد الرحیم اشعر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

اس کے بعد مولانا شہید کی جدوجہد کا ایک بڑا باب شریعت بل کی جدوجہد ہے جو انہوں نے صدر جنرل محمد ضیا الحق مرحوم کے دور میں مولانا قاضی عبد اللطیف کے ساتھ مل کر سینٹ آف پاکستان میں پیش کیا اور اس کے لیے پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ عوامی اور علمی محاذوں پر بھی جدوجہد کو منظم کیا۔ یہ تینوں محاذ الگ الگ تھے اور تینوں شعبوں میں مولانا سمیع الحق شہید کا کردار قائدانہ رہا ہے، جبکہ اس میں مجھے بھی ان کی رفاقت کا شرف حاصل تھا۔ عوامی سطح پر متحدہ شریعت محاذ قائم کر کے تمام مکاتب فکر کو شریعت بل کی حمایت میں منظم کیا گیا جس کی قیادت حضرت مولانا عبد الحق، مولانا مفتی محمد حسین نعیمی، مولانا معین الدین لکھوی، مولانا وصی مظہر ندوی، مولانا قاضی عبد اللطیف، قاضی حسین احمد، اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسے سرکردہ بزرگوں نے کی۔ شریعت بل کے مسودہ کو سب علمی، پارلیمانی اور سیاسی حلقوں کے لیے قابل قبول بنانے کی محنت ایک مستقل جدوجہد کی حیثیت رکھتی ہے جو ان سب نے مل کر کی، جبکہ عوامی محاذ پر پارلیمنٹ ہاس کے باہر عوامی مظاہرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک بھر سے علما کرام اور دینی جماعتوں کے کارکن ہزاروں کی تعداد میں اسلام آباد میں جمع ہوئے۔

مولانا سمیع الحق شہید کی تگ و تاز کا ایک بڑا دائرہ جہاد افغانستان بھی ہے جس کے لیے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک بلاشبہ علمی و فکری بیس کیمپ ثابت ہوا۔ دارالعلوم حقانیہ کو دارالعلوم دیوبند ثانی کہا جاتا ہے جو میرے خیال میں اس حوالہ سے درست ہے کہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے سنگم اکوڑہ خٹک میں بیٹھ کر حضرت مولانا عبد الحق اور دارالعلوم حقانیہ نے دارالعلوم دیوبند کے فیضان کو وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پہنچایا، جبکہ روسی استعمار کے خلاف جہاد افغانستان کو علمی و فکری پشت پناہی مہیا کی۔ میں اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ جب روسی استعمار نے افغانستان کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرہ میں شامل کرنے کے لیے فوجیں اتاریں اور اس کے عسکری تسلط کے خلاف علما افغانستان نے جہاد کا اعلان کیا تو پاکستان میں انہیں علما کے حلقہ میں سب سے زیادہ تین بزرگوں کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہوئی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق، حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی، اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود پاکستان میں جہاد افغانستان کے پشتیبان بنے اور اسے مکمل سپورٹ فراہم کی۔ اس سارے عمل میں مولانا سمیع الحق کا کلیدی کردار رہا ہے اور انہوں نے نہ صرف علم و قلم کے ذریعے بلکہ تحریک و سیاست اور رائے عامہ کو منظم و ہموار کرنے میں بھی مسلسل محنت کی۔

مولانا سمیع الحق شہید کی جدوجہد کے صرف چند پہلوئوں کا میں نے ذکر کیا ہے ورنہ تدریس و تعلیم اور صحافت بھی ان کا مستقل دائرہ کار تھا اور کسی شعبہ میں ان کی خدمات دوسرے شعبہ سے کم نہیں ہیں۔ اصل ضرورت دارالعلوم حقانیہ، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق، مولانا سمیع الحق شہید اور ان کے رفقا کی اس محنت اور کردار کو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ کرنے کی ہے جس پر ان کے متعلقین کو توجہ دینی چاہیے۔ آج کل ایسے کاموں کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عنوانات اور دائروں کا تعین کر کے فاضل علما کرام اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طلبہ کو مقالات کے لیے تیار کیا جائے، ان کی راہنمائی کی جائے اور انہیں ضروری مواد فراہم کیا جائے تاکہ ایم فل یا پی ایچ ڈی کے مختلف مقالوں کی صورت میں اس علمی، فکری، سیاسی اور تحریکی جدوجہد کو منظم طور پر تاریخ میں محفوظ کیا جا سکے۔
مولانا محمد ایوب خان ثاقب کو اس سیمینار کے انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوئے اس میں شرکت کا موقع دینے پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت مولانا سمیع الحق شہید کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ان کے سلسلہ خیر کو ہمیشہ جاری رکھیں، آمین یا رب العالمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے