عمیر علی سائیکل پر کئی یورپی ممالک گھوم چکے ہیں، فیچر انٹرویو

[pullquote]ڈپٹی ایڈیٹر آئی بی سی اردو سلمان درانی کا لاہور میں ایک کیفے "سڑک پے کڑک” میں نوجوان سیاح اور ماہر تعلیم عمیر علی کے ساتھ گفتگو کا حال.. عمیر علی نے یونیورسٹی آف انجینئیرنگ ٹیکنالوجی سے گریجویشن مکمل کیا اور ایجوکیشن کا راستہ اپنا لیا، وہ پڑھانا چاہتے تھے اور پاکستان میں تعلیم نظام کی بہتری کے لیئے کچھ مزید کرنا چاہتے ہیں. ایک اور خاص بات یہ کہ عمیر سائیکل پر بیک پیک کرتے ہیں. یہ پاکستان سمیت کئی یورپی ممالک کو سائیکل پر گھوم چکے ہیں. آئیے ان سے مزید گفتگو کرتے ہیں.[/pullquote]

آپ لاہور سے ہی ہیں کیا؟
نہیں میں بہاولپور سے ہوں، لاہور یو ای ٹی میں پڑھنے آیا تھا اور یہیں ہو کر رہ گیا.. شائید یہ لاہور کا خاصہ ہے یا میری طبیعت، کچھ بھی کہا جا سکتا ہے.
تعلیم انجینئیرنگ میں، پیشہ معلم کا، یہ کیا ماجرہ ہے؟
ہاں یہ دلچسپ بات ہے. دراصل سول انجینئیرنگ کے دوسرے سال میں ہی مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ میں انجینئیرنگکی ڈگری تو کر لوں گا مگر اس کو بطور پیشہ جاری نہیں رکھ پاؤں گا. تعلیم مکمل ہوئی تو میں اسٹونیا چلا گیا، یہ ایک یورپی ملک ہے. وہاں میں ایجوکیشن سے متعلق ڈگری کررہا ہوں.

آپ کو تعلیم کا غم کب سے لگا؟
میں دراصل دیہات سے ہوں.. تبھی تعلیم کی اہمیت کو صحیح سےسمجھ سکتا ہوں. میری پرورش وہاں ہوئی ہے، شائید ویسی پرورش شہر میں نہ ہوسکتی تھی. مجھے فخر ہے کہ میں دیہات سے ہوں اور شعور و آگاہی کے اچھے درجے پر فائز ہوں.

سائیکل پر سفر کا خیال کیسے آیا؟
میں لاہور گرامر اسکول سے جب فری ہوا( میں وہاں پڑھاتا تھا) تو مجھے آن لائن سرچنگ کے دوران معلوم ہوا کہ میرے شوق سے متعلق سرگرمی کیا ہوسکتی ہے تو وہ سائیکل پر سفر کرنا تھی. پھر ایک دن میں لاہور سے بہاولپور سائیکل پر گیا، وہیں سے آگے میں راولپنڈی بھی سائیکل پر ہی گیا. پھر جب میں یورپ چلا گیا تو وہاں میں نے کئی ریاستیں ایسے ہی گھومیں. تو یہ سلسلہ اب تک بندھا ہوا ہے، آگے بھی یہی ارادے ہیں. میں سائیکل پر پوری دنیا کا سفر کرنا چاہتا ہوں. ابتداء میں میرا ایک ماہ کا سفر تھا، میں نے اس میں کئی یورپی ریاستیں گھومیں.

آپ کے پاس اتنا سرمایہ تھا؟ سفر کرنے کے لیئے بینک اکاؤنٹ بھی تو بھرا ہوا ہونا چاہیئے؟
نہیں، ایسا نہیں ہے. میں نے کئی جگہ متعلقہ اداروں سے اسکالرشپ بھی حاصل کیئے،میں نے وہاں ڈلیوری بوائے کے طور پر کام کرنا شروع کیا. مجھے یاد ہے وہ رمضان کا دور تھا اور میں روزے کے ساتھ کام کرتا تھا. میرے لیئے سخت نہیں تھا کیوں کہ میں دوڑ بہت پہلے سے ہی لگاتا تھا، میں اس وقت کے لیئے تیار تھا. شائید آپ یقین کر ہی لیں. انیس گھنٹے کی سائیکل سواری، اور انیس گھنٹے کا ہی روزہ، اس میں تقریباً سو کلومیٹر طے ہوئے. میں آج بھی یاد کرتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے.

یہ سب کرنے کے بعد زندگی مستحکم ہوگئی؟
جی بالکل! میں اس طرح سے معاشی طور پر بالکل ٹھیک ہوگیا. اب میرے اور کمپنی کے تعلقات بہت اچھے ہیں. وہ اب بھی مجھے خوش آمدید کہتے ہیں.

آپ کہاں کہاں گھومے؟ اور کیا آپ کو کسی بھی لمحے خطرہ محسوس نہیں ہوا؟
میں جرمنی، پولینڈ، اسٹونیا، لیتھویا، ایمسٹرڈم، لیویا، اور فنلینڈ وغیرہ میں سائیکل پر گھوما ہوں، میں نے کسی اور سواری کا سہارا نہیں لیا. وہاں بارڈرز ایک دوسرے میں ایک طرح سے ضم ہی ہیں، ایک باریک سی لکیر بس دو ممالک کی عارضی سی تقسیم کے طور پر ہی کھینچی گئی ہے، کئی بار تو آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ فرق کیسے کیا جائے. ڈر؟ ہاں تھوڑا سا ڈر تو لگتا تھا کہ جب میں سارا دن سائیکل گھما کر رات ڈھلتے بھی سائیکل چلا رہا ہوتا تھا، تو ویران ہائے ویز اور سڑکوں پر رُک کے سوچتا تھا کہ یہ میں کیا کررہا ہوں، کیا اس کا کوئی مقصد بھی ہے؟لیکن میں اس فیز سے بہت جلد واپس آ بھی جاتا تھا. میں جن لوگوں کے ساتھ رہ رہا تھا ان کے ساتھ گپ شپ اور وقت گزاری میں پتہ ہی نہیں چلتا تھا، تمام غم بھول جاتے تھے، ابھی بھی ایسا ہی ہے، میں ایک اچھی زندگی گزار رہا ہوں.

آپ کو راستے کیسے یاد رہتے تھے؟ کبھی کھوگئے ہوں؟
گوگل میپ نے میری بہت مدد کی، میں نے تقریباً ایک ماہ میں ان سب ریاستوں میں گھومنا تھا اور میں کامیاب رہا. بڑے ہائے ویز اور چھوٹی سڑکوں پر گھومنے کا کمال تجربہ رہا، وہاں کوئی کسی کو روکتا نہیں ہے. ہاں سب آپ کا بہت خیال رکھتے ہیں، بطور ہمدردی نہیں بلکہ ذمہ داری. مجھے یاد ہے کہ ایک بار سفر کے دوران میسے سامنے ایک گاڑی رُکی، میں ڈر گیا کہ اب تو کچھ ہونے والا ہے. وہ شخص گاڑی سے اُترا اور مجھے سمجھانے لگا کہ تم نے جیکٹ کیوں نہیں پہنی؟ انگریزی بول نہیں سکتا تھا اور ہماری زبانیں تھیں بھی الگ، تو اس نے گاڑی میں سے اپنی جیکٹ نکال کر مجھے سمجھایا کہ سائیکل چلاتے وقت جیکٹ، ہیلمٹ اور مکمل کٹ کا ہونا بہت ضروری ہے، آئیندہ خیال رکھنا. اس وقت میرے جذبات ہی کچھ اور تھے، میں پاکستانی ہوں، مجھے ایسے رویوں کی عادت ہی نہیں تھی. لیکن وہاں کے لوگ ایسی باتوں کا بہت خیال رکھتے ہیں.

آپ پاکستان کے لیئے کیا کرنا چاہتے ہو؟
میں اپنے ملک میں ایجوکیشن پر کام کرنا چاہتا ہوں . اور چاہتا ہوں کہ مقتدر حلقے، اور ریاست پاکستان اس معاملے میں میرا ساتھ دے، ہم یہاں یورپی ممالک جیسے وقت کے تقاضے پورے کرتا ہوا سسٹم متعارف کروا سکتے ہیں، ضرورت صرف نیت اور ہمت کی ہے. نوجوانوں اور پچھلی نسلوں کو اس بارے میں مل کر سوچنا ہوگا.

آپ اس ملک میں سب اچھا ہونے کے لیئے کتنے پُر امید ہو؟
اگر انتظار ہی کرنا ہے تو کیوں نا اچھے وقت کا کیا جائے؟ یہ واصف علی واصف کہتے تھے اور میں بھی یہی سمجھتا ہوں. سب کو معلوم ہے کہ ملک برے وقت کی طرف مسلسل بڑھے جا رہا ہے. لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس دن میں مایوس ہوگیا تومیں اپنا کردار ادا کرنا بھی بند کردوں گا، فی الحال یہ سلسلہ چلتے رہنا چاہیئے. میں وقت کی پابندی بہت کرتا ہوں دوسروں کے لیئے بھی یہی خیال رکھتا ہوں. اس لیئے میں نے آپ سے بھی یہی معائدہ کیا. آج میں وقت سے تھوڑا ہی دیر سے آیا، اس پر معذرت، مگر میں ترجیح دیتا ہوں کہ ہم سب وقت کی قدر کریں، ایک ایک لمحے کی.

پاکستانی نوجوان کے لیئے ہُنر کے حصول کے لیئےسب سے اہم چیز کیا ہونی چاہیئے؟
نوکری حاصل کرنے کے گُر کا علم ہو. خود کو وقت کا پابند بنائیں، آپ کو اپنی سی وی بنانا آتی ہو، یہ بھی کہ کہیں آپ کو کسی کی مدد حاصل کرنی ہے تو وہ کیسے کرنی ہے؟یہ سب آپ کے ذاتی ہُنر ہیں جو آپ کو کوئی نہیں سکھائے گا. آپ خود کو اس طرح سے با اختیارکر سکتے ہیں. اگر آپ ڈگری کرکے بیٹھے ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ آپ کو نوکری خود مل جانی ہے تو آپ غلط ہیں. آپ کو خود میں ہُنر پیدا کرنے پڑیں گے.خود کو اس قابل بنائیں کہ آپ کمپنیوں کی ضرورت بنیں.

نوکری کے حصول یا اپنا کام کرنے کے لیئے کونسے ہُنرہونا ضروری ہیں؟
ہر کام کے لیئے، جب تک آپ میں سیکھنے کا رویہ نہیں ہوگا، خود کو بڑھانے کا جذبہ نہیں ہوگا، آگے سے آگے بڑھنے کا جذبہ نہیں ہوگا تو آپ آگے نہیں بڑھ سکتے. یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ شروع شروع میں آپ کو سختیاں دیکھنی پڑیں گی، آپ کو آگے بڑھنا ہوگا.

ہم لوگ سڑک پر کڑک میں بیٹھے ہیں، عمیر علی نوجوان ایجوکیشنسٹ ہیں اور ٹریولر ہیں، ان سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے.

ہُنر لینے والے معاملے کو ذرا اور آسان کرکے سمجھائیں گے؟
ہاں جی بالکل! مثال کے طور پر آپ اپنے کام سے خوش نہیں ہیں تو کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کہ دوسرا کام ڈھونڈیں گے. اس کے لیئے آپ خود کو کسی دوسرے کام کے قابل بنانے کے لیئے اس کے ضروری ہُنر سیکھتے ہیں، ایسا ہی ہے؟ پھر آپ اپنا سی وی تیار کریں گے. یہاں اس بات پر غور کریں کہ آپ ہُنر سیکھ سکتے ہیں. تو مسئلہ کہاں آتا ہے؟ معاملہسمجھنے کے لیئے آسان ہوگیا، مسئلہ پھر صرف آپ کے چاہنے اور نا چاہنے پر جامد کھڑا ہے. آپ قدم بڑھائیں گے تو بڑھتے چلے جائیں گے، نہیں تو وہیں بیٹھے رہیں گے. تو جناب کچھ بھی ہو کرنا پڑتا ہے، خود سے نہیں ہونا ہوتا. اس کا تعلق آپ کے اپنے آپ سے ہے. خود کو سمجھیئے!

اس صورتحال میں آپ نوجوانوں میں انتشار کی کیفیت کو کہاں دیکھتے ہیں؟
میں اس بات سے انکار نہیں کررہا کہ فرسٹریشن بہت زیادہ ہے ہم میں. لیکن اس کو کنٹرول بھی تو ہمیں ہی کرنا ہے نا. اس کا حل یہی ہے آپ یہ سمجھ لیں کہ جو آپ نہیں کر پارہے، کچھ دیر کے لیئے مان لیں کہ آپ نہیں کر پائیں گے. پھر آپ اس کے معروضات پر غور کریں گے کہ آخر کیوں نہیں کر پارہے، پھر ظاہر ہے جب تک آپ اس کام کو تحمل سے اور عقل سے نہیں کریں گے اور صرف جذبات کا پریشر لگاتے جائیں گے تو اس نے پھٹنا ہی ہے نا. اپنی زندگی میں ٹھہراؤ لائیں، چیزوں کو تحمل سے لے کر چلیں. آپ ایک کام آج کرتے ہیں تو ایک ماہ میں وہ کام آپ تیس بار کررہے ہونگے،تو ہر کام کی اہمیت کو سمجھیں، زندگی میں اسی طرح اچھے کاموں کو جاری رکھیں. انتشار کو کنٹرول آپ ہی نے کرنا ہے.

عام نوکری پیشہ افراد کے لیئے سفر کتنا اہم ہے؟
میں یہ مانتا ہوں کہ اگر آپ جاب سے تھک چکے ہیں. آپ کو ٹریول کرنا چاہیئے. مزہ اس چیز میں ہے کہ آپ ایسا سفر کریں کہ جس کے بارے میں آپ کو بالکل کچھ معلوم نا ہو. مطلب کہ ایڈوینچر جس میں آپ کو معلوم نہیں ہوتا. اس سے آپ کو ہر حالات میں رہنا آئے گا. انسان نے ہر حال میں رہنا ہی ہوتا ہے.

اگر باقی لوگ سائیکل پر سفر کرنا چاہتے ہیں. وہ کہاں سے شروع کریں؟
میں لاہور میں پڑھاتا تھا، ایک گھنٹے کا سفر تھا لیکن میں نے سائیکل پر جانا شروع کردیا. میں بیمار پڑ گیا ، ڈاکٹر کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے ایک حد تک سائیکل چلانے کی تجویز دی. مسئلہ یہ ہوا کہ میں نے ایک دفعہ میں ہی چالیس کلومیٹر تک کا سفر کرنا شروع کردیا. سو یہ اس وقت کے لیئے زیادہ تھی. آپ کو تھوڑے سے شروع کرنا چاہیئے لیکن پھر اس کو آہستہ آہستہ بڑھائیں. آپ سبھی اس کو ایک مشغلے کے طور پر لے کر چل سکتے ہیں، یہ تو بلکہ ہمارے ماحول دوست ہونے کا ثبوت ہوگا کہ ہم گاڑی یا موٹر بائیک پر سائیکل کو ترجیح دے رہے ہیں. لیکن لاہور جیسے آلودہ شہر میں آپ کو بہت چیزیں دیکھ کر سائیکل کا فیصلہ کرنا ہوگا، کیونکہ یہاں اسموگ آپ کو بیمار کرسکتی ہے.

پاکستان کو سائیکل پر سیاحت کے حوالے سے کیا اقدام کرنے چاہیئں؟

صرف بائیک لینز بنا دیں. مطلب کہ سائیکل پر چلنے کے لیئے سڑک پر الگ راستہ، جس سے شعور میں بھی اضافہ ہوگا کہ حکومت سائیکل سواروں کے لیئے مواقعے فراہم کررہی ہے اور دوسرا کہ سائیکل سواروں کی حفاظت بھی ممکن بنائی جا سکے گی. اس طرح سے ہم اس کو فروغ سے سکتے ہیں.

اچھا یہ بتائیں کہ گاڑیوں وغیرہ کے لیئے تو آپ کو انٹرنیشنل لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے تو کیا سائیکل کے لیئے بھی؟
نہیں. ہاں مگر ھدایات کی پابندی کرنا ضروری ہوتا ہے. مطلب ہیلمٹ جیکٹ کٹ ہونا، اور موبائل کا استعمال نا کرنا وغیرہ. وہاں کے لوگ بہت حساس ہیں اس بارے میں، حتاکہ عام شہری بھی.

کبھی یہ خطرہ رہا ہے کہ سفر کے دوران کہیں کوئی حادثہ پیش نا آجائے؟
میرے کچھ قنوطی دوست ہیں جنہوں نے مجھ سے کئی بار ایسے سوال کیئے، ان میں سے ایک یہ کہ اگر مجھے ڈائریا ہوگیا تو کیا ہوگا، میں نے کہا جب ہوگا دیکھا جائے گا، میرے پاس ویسے دوائیاں پڑی ہوتی ہیں جس میں ابتدائی طبی امداد کا سامان، پیٹ درد، خراب، سر درد، بخار نزلہ ان سبھی کی دوائیاں موجود ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ ہر مسافر کو ایسے وقت کے لیئے پہلے سے ہی اقدام کرلینے چاہیئں اور مشکل وقت کے لیئے تیار رہنا چاہیئے.

آپ کے بیگ پیک میں کیا کچھ ہوتا ہے؟
میرے بیگ میں کیمپ کیوں کہ مجھے کبھی بھی کہیں بھی رکنا بھی پڑ جاتا ہے، مچھروں سے بچاؤ کی دوائی، ہونٹ سوکھ جانے اور چہرے پر لگانے والی کریم وغیرہ، اس کے علاوہ گرم اور سرد کپڑے اور کچھ کھانے کی چیزیں. کیلے اور دودھ والی ویڈیو تو آپ نے دیکھی ہوگی. وہ فن بھی تھا مگر ساتھ میں سبق بھی کہ آپ کو سفر میں کھانے پینے کا نظام کیسے درست رکھنا ہے.

سیاست کے حوالے سے کیا رائے ہے؟
ایک بات تو طے ہے کہ فضول کی بحث سے آپ سیاست اور مذہب میں کسی کی رائے نہیں بدل سکتے. ایک وقت تھا کہ میں بہت بحثیں کرتا ہوتا تھا مگر اب شائید نہیں. ایسا نہیں کہ میری کوئی رائے نہیں ہے مگر اب ذرا کم ہوگیا ہوں. مجھے لگتا ہے کہ جو اب میں کررہا ہوں وہ زیادہ بہتر ہے. میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ میں یہاں کے معاملات پر ہر وقت کمینٹ کرتا رہوں. میرا اس ملک سے تعلق اتنا تو ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آئے، مگر میں ایک حد تک بولتا ہوں، شائید جتنا ضروری ہو، اتنا ہی.

معاشی استحکام کے لیئے کس چیز کو اہم سمجھتے ہیں؟
میرے خیال میں ٹیکس کا نظام، اور دولت کا صحیح بہاؤ. اسٹونیا میں میں 53 فیصد ٹیکس دیتا ہوں، اور استعمال کی ہر شے پر ٹیکس دیتا ہوں.اگر آپ کو چھوٹا سا کھوکا بھی لگانا ہے تو آپ وہاں اس کو ٹیکس کی لسٹ میں رجسٹر کرائیں گے. یہاں بھی ایسا ہونا چاہیئے. اور ٹیکس کے پیسے عوام پر ہی لگنے چاہیئں، مغربی ممالک یہی کرتے ہیں، تبھی وہ آج کی دوڑ میں آگے ہیں. میں نے وہاں سے ٹیکس کے بچنے کی حد درجہ کوشش کی، بہت مشکلوں کے بعد کامیاب ہوا مگر مجھے بہرحال وہاں رہتے ہوئے ٹیکس ادا کرنا ہے. پاکستان کے لیئے بھی یہی آپشن ہے، دنیا میں خوشحالی کا فی الوقت کوئی اور طریقہ ایجاد نہیں ہوا.

تعلیم کا نظام کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ اساتذہ کے پڑھانے کے نظام کو ٹھیک کردیا جائے تو سب ٹھیک ہوسکتا ہے. وہاں اساتذہ پر ایک اعتبار موجود ہے. لوگ اساتذہ پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرتے ہیں. یہاں ایسا کیوں نہیں ہو پارہا، دراصل مسئلہ اسی نکتے پر موجود ہے. میں نے اسٹونیا کے تعلیمی نظام کا قریب سے جائزہ لیا ہے، اساتذہ کا بہتر ہونا اور ہر چیز کا ہموار ہونا وہاں کے نظام میں اب رچ بس سا گیا ہے. اساتذہ مجبوری، احسان سمجھ کر نہیں بکہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر پڑھاتے ہیں. یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے، اس رویے کو بھی ایک عمل سے گزار کے ہموار کیا جاتا ہے.
وہ کیسے؟ ہم اپنے اساتذہ پر اتنی محنت کرسکتے ہیں؟
وہاں پر آپ سب سے چھوٹے درجے کو بھی پڑھانے کے بھی تبھی قابل ہوتے ہیں جب آپ نے ایجوکیشن میں ڈگری کی ہوگی. آپ اپنی متعلقہ ڈگری کے بعد تعلیم کی طرف آتے ہیں تو آپ کو ایجوکیشن میں ڈگری مکمل کرنا ہے جس میں ریسرچ شامل ہوتی ہے. ایک استاد کو ریسرچ کرنی ہے اور ڈگری مکمل کرکے بچوں کو پڑھانے کے قابل ہونا ہے. یہ تقریباً چھ سال کی تعلیم بنتی ہے. اس سب کے بعد اگر آپ استاد لگتے ہیں تو آپ صرف ایک استاد نہیں ہوتے بلکہ ایک سوشل سائینسدان بن جاتے ہیں جو روائتی حل تلاش نہیں کرتے بلکہ طلبہ کو سمجھ کر ان کے ساتھ جدید طریقوں سے چلتے ہیں. اس کو کہتے ہیں بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کی پیروی کرنا. طالبعلم اگر پڑھ نہیں پا رہا تو اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ نالائق ہے، یہ مطلب آپ کو تب ہی سمجھ آتا ہے جب آپ ایجوکیشن میں تعلیم حاصل کرتے ہیں.

پاکستان میں کہیں ایسا ہورہا ہے؟
پاکستان میں یہ کام لمز نے شروع کروایا ہے، یہ بات خوش آئیند ہے. اساتذہ کی تربیت کا یہ رجحان یہاں بڑھنا چاہیئے.. ہمیں انتظامی بنیادوں سے بڑھ کر اب اس چیز کو سائینسی بنیادوں پر سمجھنا ہوگا. آج کا طالبعلم کل کے طالبعل سے یکسر مختلف ہے، تو اس کی علمی ضروریات بھی تو تبدیل ہوئی ہونگی؟ تو نظام میں ابہام کیسا، ملک بھر کی جامعات سے اس سلسلے میں مدد لی جائے، ہم اپنے مسائل خود ہی حل کرنے کے قابل ہیں، بس ایک نیت اور جذبہ چاہیئے. میرے خیال میں، صرف ایک تعلیم کے نظام میں ہی انقلاب آجائے تو ملک کے دیگر معاملات بھی جلد یا بدیر، درست ہو ہی جائیں گے.

آپ کا پاکستان میں تعطیلات کا کیا معمول ہے؟
میں پاکستان میں اگلے کچھ اور روز مزید ہوں. جیسے کہ ابھی آپ بیٹھے ہیں، اسی طرح بہت سے دوستوں کو ٹائم دیا ہوا ہے. میں یہاں آکر بیٹھ جاتا ہوں اور یہاں لوگ آتے رہتے ہیں. میں دوستوں کی تعلیم کے حوالے سے مدد کرتا ہوں اور گپ شپ بھی ہوتی ہے. تو کسی نے مجھ سے ملنا ہو یا رابطہ کرنا ہو، میرا فیسبک پیج موجود ہے جہاں سے مجھ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے