وہ دھرناجسےکوئی کور نہیں کر رہا

کراچی بحریہ ٹاؤن کے ہیڈ آفس میں گزشتہ 9 گھنٹے سے متاثرین کا دھرنا جاری ہے۔ اس دھرنے میں اولڈ بی ٹی کے، اسپورٹس سٹی اور پیراڈائز کے وہ متاثرین موجود ہیں جنھیں قسطیں وصول کرنے کے بعد صرف پلاٹوں کے نمبر دیے گئے ہیں تاہم اراضی کا کوئی وجود نہیں۔

https://www.facebook.com/1603784593203828/posts/2392203441028602?vh=e&d=n&sfns=mo

گزشتہ تین ماہ سے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی ٹال مٹول کے بعد واٹس ایپ گروپس کے زریعے ایک دوسرے سے رابطے میں آنے والے متاثرین اب یہاں Victims of Bahria Town کی صورت میں یہاں جمع ہیں۔ واٹس ایپ کے ایک گروپ میں زیادہ سے زیادہ 250 کونٹیکٹس کو رکن بنایا جاسکتا ہے اور اس وقت ان متاثرین کے ایسے 8 گروپ متحرک ہیں۔ انہی گروپس سے دی جانے والی کال کے تحت بحریہ ٹاؤن میں صبح ساڑھے نو بجے سے دھرنا جاری ہے جن کی قیادت ان گروپس کے ایڈمن کررہے ہیں۔

گروپ ایڈمنز میں شامل اعجاز ملک نے بتایا کہ آج یہاں تین کیٹگریز کے متاثرین موجود ہیں۔ ان میں سے صرف اولڈ بی ٹی کے میں شہریوں کی تقریبا 2ارب کی سرمایہ کاری پھنسی ہوئی ہے۔ 125, 250 گز کے پلاٹس ،اسپورٹس سٹی، پیراڈائز میں پلاٹوں کی اقساط ادا کرنے کے باوجود زمین سے محروم افراد کی ایک بڑی تعداد گزشتہ 9گھنٹوں سے بحریہ ٹاؤن کے ہیڈ آفس میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

دھرنا کیوں؟

اولڈ بی ٹی کے میں مختلف رقبوں کے پلاٹس کی قرعہ اندازی 2013 میں ہوئی اور اس کی اقساط فروری 2018 میں مکمل ہوگئی۔ لیکن اس کے باجود بحریہ ٹاؤن کی جانب سے زمین کی نشاندھی بھی نہیں کی گئی۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ زمین کا کہہ کرہمیں صرف پلاٹ کے نمبر دے دیے گئے ہیں۔ اسی طرح سپورٹس سٹی کی تقریبآ 14 اور پیراڈائز کی نو اقساط ادا ہونے کے باوجود اراضی کا کوئی نام و نشان نہیں۔

اولڈ بی ٹی کے والے متاثرین کے ساتھ یہ لوگ بھی احتجاج میں شامل ہیں اور انھیں اپنی جمع پونجی ڈوب جانے کا شدید خدشہ لاحق ہے۔

انہی خدشات کے پیش نظر متاثرین نے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ سے رابطہ کیا اور 4مئی 2019 اس کے بعد 6 جولائی کو مذاکرات ہوئے اور بالآخر 27 جولائی کو بحریہ ٹاؤن کے کنٹری ہیڈ شاہد قریشی نے ویڈیو کانفرس پر متاثرین سے مذکرات کے بعد تین ماہ کے اندر زمین کا قبضہ دینے کا وعدہ کیا اور کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے انتظامی امور کے نگران بریگیڈیئر (ر) حسن رفیع نے شاہد قریشی کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کا تحریری وعدہ بھی کیا۔ تاہم یہ مدت پوری ہونے کے باوجود شکایات کا ازالہ نہیں کیا گیا۔

اس کے بعد ہونے والے مذاکرات میں متاثرین کو مختلف شرائط پیش کی گئیں۔

متاثرین کے گروپ ایڈمن میں شامل طاہر محمود کے مطابق کہا گیا کہ پلاٹ منسوخ کرکے رقم واپس لے لیں تاہم اول تو یہ عمل ہی ایک ڈیڑھ سال میں مکمل ہوگا اور اس میں سے 25فیصد رقم منہا کردی جائے گی۔

اس کے علاؤہ افراط زر کی شرح کو دیکھا جائے تو اس اعتبار سے زمین میں کی گئی سرمایہ کاری کا 70 فیصد ضائع ہوچکا ہوگا۔

انہی اسباب کی بنا پر متاثرین نے احتجاج کی راہ اختیار کی اور 9 نومبر کو دھرنے کی کال دی گئی جس میں بوڑھے،بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے علاؤہ قطر، برطانیہ اور دیگر ممالک سے سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ کراچی، کوئٹہ، ملتان،پشاور نواب شاہ، پشاور اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بھی دھرنے میں شامل ہیں۔

مظاہرین کا مطالبہ

دھرنا دینے والے متاثرین کا مطالبہ ہے کہ وہ اب صرف اور صرف ملک ریاض ہی سے بات کریں گے۔ متاثرین کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ان کی ادا کردہ قیمت اور وعدے کے مطابق پلاٹ کی الاٹمنٹ کے علاؤہ انھیں کوئی حل قبول نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے