ایئرایمبولنس سروس کیا کام کرتی ہے!

دنیابھرکی طرح پاکستان میں بھی ایئرایمبولنس سروس موجود ہے، تاہم پاکستان کی ایئرایمبولنس سروس مقامی سطح پر خدمات فراہم کرتی ہے ،بیرون ملک جانے کےلئے بین الاقوامی ایئرایمبولنس سروس کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہے ،جس پر لاگت ڈیڑھ کروڑسے لیکر ڈھائی کروڑتک آتی ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ مسلم لیگ کے سربراہ اورسابق وزیراعظم نوازشریف کو ایئرایمبولنس سروس کے ذریعے برطانیہ منتقل کیاجارہاہے۔پاکستان میں کئی اہم سیاسی وکاروباری شخصیات ایئرایمبولنس کااستعمال کرتے ہیں اورسول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق پاکستان سے ہرماہ پانچ سے چھ ایئرایمبولنسزسیاسی وکاروباری شخصیات کو بین الاقوامی سطح پرخدمات فراہم کرکے بیرون ملک لے جاتے ہیں۔سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسفزئی کوبھی متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے ایئرایمبولنس کے ذریعے برطانیہ منتقل کیاگیاتھا۔

[pullquote]پاکستان میں ایئرایمبولنس کی سروس کس حد تک موجود ہے؟؟[/pullquote]

پاکستان میں ایدھی فاﺅنڈیشن کے علاوہ ایئرایمبولنس سروس نامی کمپنی ملکی سطح پر خدمات فراہم کرتی ہے، ایئرایمبولنس سروس کے اہلکارکے مطابق ان کے پاس تین ایئرکرافٹ ہیں، جب کہ ایدھی فاﺅنڈیشن کے پاس ایک ہیلی کاپٹرموجود ہے اوروہ بین الاقوامی سروس کی بجائے صرف ملکی سطح پر خدمات فراہم کرتی ہے ،انہوں نے کہاکہ اسلام آباد سے کراچی تک ایک فلائٹ کی لاگت 8سے25لاکھ تک ہوتی ہے ،اس فلائٹ کے دوران مریض کو طبی عملے کی سہولت بھی میسرہوتی ہے۔

[pullquote]بین الاقوامی سطح پر ایئرایمبولنس سروس کی کتنی کمپنیاں ہیں؟؟[/pullquote]

پوری دنیامیں بیشترممالک سرکاری ونجی طور پرایئرایمبولنس کی سروس موجود ہے ،برٹش میڈیکل ایئرسروس کودنیامیں سب سے مستنداورقدیم ایئرایمبولنس سروس جانی جاتی ہے، ان کے پاس کئی ہیلی کاپٹرزاورجہازموجودہوتے ہیں ،جودنیابھرمیں خدمات فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ میں دنیاکی سب سے بڑی میڈیکل فلائٹ انڈسٹری کئی عشروں سے کام کررہی ہے امریکی اداروں کے اعدادوشمارکے مطابق امریکی میڈیکل فلائٹ انڈسٹری میں 21ہزارملازمین خدمات سرانجام دے رہے ہیں ،جن کی اوسطاًتنخواہ68ہزارڈالرہے ،حیران کن امریہ ہے کہ فلائٹ انڈسٹری اپنی آمدنی کادس فیصد معمرافرادکی فلاح وبہبودپرخرچ کرتی ہے، یورپ کے بیشترممالک بالخصوص فرانس،بلجیم،اٹلی اوردیگرکئی ممالک میں سرکاری ونجی طور پر ایئرایمبولنس سروس موجود ہے ۔

[pullquote]ایئرایمبولنس میں کونسی سہولیات ہوتی ہے؟؟[/pullquote]

دنیابھرمیں فراہم کی جانےوالی ایئرایمبولنس سروس میں 67فیصدہیلی کاپٹرزجب کہ33فیصدچارٹرڈ جہازہوتے ہیں، ملکی سطح پر سب سے زیادہ ہیلی کاپٹرزسروس کااستعمال ہوتاہے ،لیکن بین الاقوامی سطح پر چارٹرڈجہازوں کااستعمال عام ہے ۔ایئرایمبولنس میں آکسیجن،مائنرآپریشن تھیٹر،بلڈٹرانسفیوژن سروس، ڈائیلاسز،ای سی جی اوردیگرکئی سروسزہوتی ہیں، برٹش ایئرایمبولنس کی ویب سائٹ کے مطابق ائیرایمبولنس جدیدسہولیات سے آراستہ ایک چھوٹاساہسپتال ہوتاہے ،جس میں آئی سی یوکی حد تک خدمات فراہم کی جاتی ہے، ویب سائٹ پرلکھاگیاہے کہ مریضوں کی سہولت کےلئے جرمن ،فرانسیسی،ولندیزی،اطالوی،ترکی،پولش اور عربی زبانوں کے ماہر طبی عملے کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ مریض کو اپنی تکلیف بتانے میں آسانی ہو،ضرورت کے وقت مترجم کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہے۔ایئرایمبولنس کسی بیمار یازخمی شخص کو مکمل آرام کےساتھ جائے وقوعہ یا ہسپتال سے دوسرے ہسپتال تک لے جانے کی سہولت رکھتاہے۔

[pullquote]ایئرایمبولنس کی تاریخ کیاہے؟؟[/pullquote]

1870میں جرمنی کی جانب سے پیرس کے17روزہ محاصرے کے دوران پہلی مرتبہ ایئرایمبولنس کااستعمال کیاگیا، جس کے بعد فرانسیسی فوجیوں نے اسے اپنی فوج کاحصہ بنایا، پہلی اوردوسری جنگ عظیم کے دوران بھی مغربی ممالک نے روس ،برطانیہ ،فرانس ،اٹلی اوردیگرکئی ممالک میں ایئرایمبولنس سروس کااستعمال کیا، تاہم سب سے زیادہ ایئرایمبولنس کااستعمال1950سے لیکر1953سے جاری رہنے والے کورین لڑائی میں کیاگیا،جس میں مغربی ممالک نے جنوبی کوریاکے فوجیوں کو مکمل طبی امداددینے کے ساتھ ایئرایمبولنس کی سروس بھی فراہم کی ۔1930میں امریکہ میں پہلی مرتبہ نجی ایئرایمبولنس سروس کاآغازہوااوراسوقت دنیامیں درجن نجی کمپنیاں ایئرایمبولنس کی سروس فراہم کرتی ہیں ۔

[pullquote]پاکستان میں کب ایئرایمبولنس سروس کااستعمال کیاگیا؟؟[/pullquote]

پاکستان میں 60کی دہائی میں کراچی کے ایک مشہور کاروباری شخصیت کےلئے ایئرایمبولنس سروس کااستعمال کیاگیااورانہیں کراچی سے لندن منتقل کیاگیا ،سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں ہرماہ پانچ سے چھ افراد کو ایئرایمبولنس سروس کے ذریعے بیرون ممالک منتقل کیاجاتاہے، ایئرایمبولنس سروس کراچی کے علاوہ پشاور ،لاہور یاکسی بھی دوسرے بین الاقوامی ایئرپورٹ پراپنی خدمات فراہم کرتی ہے ،پاکستان میں ایدھی فاﺅنڈیشن اور ایئرایمبولنس سروس ملکی سطح پر خدمات دے رہی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے