کچھ ایسا ہو‘ مدنی ریاست کا حکمران!

وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سنبھالے ڈیڑھ سال ہونے کو ہے۔ انہوں نے اقتدار کا آغاز اس عہد کے ساتھ کیا کہ وہ پاکستان کو مدینے کی ریاست بنائیں گے۔ عمل کے میدان میں آثار ابھی تک تو دکھائی دے نہیں رہے؛ البتہ ان کی زبان پر مدنی ریاست قائم کرنے کے الفاظ پوری آب و تاب اور گھن گرج کے ساتھ موجود ہیں۔ انہوں نے علماء سے رہنمائی کا تقاضا بھی کیا ہے۔ رہنمائی تو علماء ہی فرمائیں گے‘ تاہم ایک طالب علم کی حیثیت سے قرآن کی رہنمائی سپردِ قلم کرنے جا رہا ہوں۔

حضرت محمد ؐ مدینے کی ریاست کے اوّلین اور بانی حکمران ہیں۔ مکہ کے مشرکین مدینہ کی ریاست کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑے لشکر کو لے کر اُحد پہاڑ کے پاس آ رہے ہیں۔ حضورؐ نے صحابہ سے مشورہ کیا‘ تو صحابہ نے رائے دی کہ مدینے سے باہر نکل کر لڑنا چاہیے۔ حضورؐ نے اپنی رائے کو واپس لے لیا کہ مدینہ شہر میں ہی رہ کر مقابلہ کرنا بہتر ہے۔ جی ہاں! لڑائی ہوئی تو جس دستے کو حضورؐ نے حکم دیا تھا کہ اپنی جگہ نہیں چھوڑنی۔ انہوں نے جگہ چھوڑ دی‘ اسی پوزیشن سے حملہ ہوا اور 72صحابہ شہید ہو گئے۔ حضورؐ بھی زخمی ہو گئے۔ حضورؐ نے اپنے صحابہ کو اشارے کنائے کے ساتھ بھی ندامت نہیں دلائی کہ تمہاری پہلی رائے بھی غلط تھی۔ دوسری غلطی بھی واضح جرم تھا۔ اللہ اللہ! یہ ہے‘ مدینے کے حکمران حضرت محمدؐ کی اعلیٰ ظرفی۔

میں کیا کروں کہ اعلیٰ ظرفی کا لفظ انتہائی چھوٹا ہے۔ میرے حضورؐ کا ظرف تو اپنے اندر نرمی اور ملائمت کا سمندر سموئے اور سمیٹے ہوئے ہیں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس پر حضورؐ کی رحمت کا ذکر فرمایا تو مفسرین نے عربی گرائمر کے حساب سے آگاہ کیا کہ حضورؐ کی رحمت اتنی عظیم ہے کہ اس پر عظمت کی تین تاکیدیں ہیں۔ اب ترجمہ ملاحظہ ہو: ”یہ اللہ کی طرف سے انتہائی عظیم ترین رحمت ہی کی وجہ سے ہے کہ آپؐ (صحابہ) کے لیے انتہائی نرم ہیں‘‘ (الِ عمران:159)۔

قارئین کرام! حضورؐ کی نرم طبیعت کے لیے جو لفظ قرآن میں آیا ہے وہ ”لین‘‘ سے آیا ہے۔ کھجور کے درخت کو بھی قرآن نے ”لینۃ‘‘ کہا ہے۔ کھجور کا پھل اپنی نرمی اور مٹھاس میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کا معنی انتہائی نرم اور گداز تکیہ بھی ہے کہ تھکا ہوا انسان اس پر سر رکھ کر لیٹے تو تھکے ماندے دماغ کو سکون اور راحت مل جائے۔ کنول کے پھول کو بھی عربی میں ”لینوفر‘‘ کہا جاتا ہے‘ یعنی حضورؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی رحمت عطا ہوئی ہے‘ جو انسانیت کے لیے نرمی اور مٹھاس میں کجھور‘ روئی کا تکیہ اور کنول کا پھول ہے۔

قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اور خلیلؐ کا کردار تو بتلا دیا۔ اس کے بعد مخاطب تو حضورؐ ہی کو کیا‘ مگر حقیقت میں یہ ہر اس شخص کیلئے ہے‘ جو مسلمانوں کا حکمران بن جائے ‘جو زبان بھی سخت استعمال کرے اور دل کا بھی پتھر ہو‘ حضورؐ کے واسطے سے اسے بتایا کہ ایسے کردار سے لوگ بھاگ جائیں گے‘ ساتھ چھوڑ جائیں گے‘ لہٰذا میرے رسولؐ! ان لوگوں کو معاف کرتے رہیں‘ ان کیلئے بخشش کی دعا بھی مانگتے رہیں اور معاملات میں ان کے ساتھ مشورہ بھی کرتے رہیں‘ یعنی جو مسلمان حکمران اپنے ملک کو مدینے کی ریاست جیسی ریاست بنانا چاہتا ہے‘ وہ حضورؐ کی پُررحمت زندگی کے باغ سے چند کھجوریں کھانے کی کوشش کرے۔ روئی کے نرم تکیوں کے نبوی کارخانے سے ایک تکیہ حاصل کرنے کی جدوجہد کرے۔ پھولوں کے گلستان سے ایک نرم اور خوشبودار پھول اپنے دل کے ساتھ چمٹی ہوئی جیب کے ساتھ لگانے کی کوشش کرے۔ یقین جانیے! جو شخص اپنے ملک کو مدنی ریاست بنانا چاہتا ہے‘ اس کا پہلا زینہ اعلیٰ اخلاق ہے۔ یہ نہیں ہے تو اگلی سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہے۔

بعض فرقہ پرست اپنے ہی مسلمانوں کو کافر‘ مشرک اور گستاخ رسول قرار دے کر اسلام سے خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مذموم کام انتہائی نچلی سطح پر ہوتا ہے۔ ہر مسلک کے جید اور ممتاز علماء اس سے بری اور بالا ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں یہودی ایجنٹ‘ امریکی ایجنٹ‘ انڈین ایجنٹ‘ غدار‘ چور‘ ڈاکو نالائق اعظم وغیرہ کے طعنے اعلیٰ ترین سطح کے ممتاز سیاستدان ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ نچلی سطح پر کیا ہوتا ہے‘ اللہ کی پناہ! وہاں تو گالی گلوچ اور بیہودگی کا اک طوفان ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس پر بند کون باندھے گا؟ میں سمجھتا ہوں‘ سیاستدانوں کو ایک اخلاقی میثاق میں اپنے آپ کو پرونا چاہیے‘ تاکہ ہماری سیاست میں مدنی اخلاق کا خوبصورت رنگ نظر آئے۔ اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم پر آتی ہے‘ وہ دو کروڑ پاکستانیوں کے ووٹوں سے وزیراعظم بن جاتا ہے‘ آبادی 22کروڑ ہے‘ وہ اب دو کروڑ نہیں‘ حلف اٹھانے کے بعد 22کروڑ لوگو ں کا وزیراعظم ہے‘ مدنی ریاست کے وزیراعظم کو کیسے ہونا چاہیے؟ حضرت محمد ؐ کے مبارک اسوہ سے واضح کرتے ہیں۔

صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ سے مروی واقعہ کچھ یوں ہے کہ ”یہودی جو مدینہ منورہ میں ایک غیر مسلم اقلیت تھے۔ ان کا ایک وفد حضورؐ سے ملاقات کرنے گھر میں آیا۔ انہوں نے حضورؐ کو مخاطب کرتے ہوئے السلام علیکم کی بجائے ”السّام علیکم‘‘ کہہ دیا۔ سام کا معنی موت اور ہلاکت ہے۔ حضرت عائشہؓ نے فوراً جواب دیا کہ تم پر ہلاکت بھی ہو اور لعنت بھی ہو۔ اس پر اللہ کے رسولؐ اپنی زوجہ محترمہ سے ناراض ہوئے اور فرمایا؛ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کی؛ اے اللہ کے رسول! آپؐ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا؟ فرمایا؛ میں نے سنا ہے ‘مگر یاد رکھو۔ اللہ تعالیٰ ہر عمل میں نرمی پسند فرماتے ہیں۔ آپ نے‘ اگر ضرور ہی بدلہ لینا تھا‘ تو اتنا ہی لینا تھا‘ جتنی انہوں نے زیادتی کی۔ لعنت کے لفظ کا اضافہ کر کے آپ نے زیادتی کر دی‘‘۔ اللہ اللہ! یہ ہے‘ حضورؐ کی نرمی۔ لوگو! میرے حضور کی نرمی اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی دیکھو اور مدینے میں موجود اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی دیکھو اور پھر اپنے کردار کا بھی جائزہ لو کہ ہم آپس میں کیا کر رہے ہیں؟

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری فوج مضبوط ہے۔ ایٹمی طاقت کی حامل ہے۔ میزائل ٹیکنالوجی کمال درجے کی ہے۔ فضائی شاہین ابھینندن کو سبق سکھاتے ہیں اور پھر نرمی کر کے ریاست پاکستان اسے واپس بھیج کر جنگ ٹال کر ڈیڑھ ارب انسانوں کو ہلاکت و بربادی سے محفوظ کر کے امن عطا کرتی ہے۔ یہ فوج دہشت گردی کی جنگ میں کامیاب ہوتی ہے‘ اگر ہمارے پاس ایسی باصلاحیت فوج نہ ہوتی تو ہم بھی عراق‘ شام‘ یمن اور لیبیا بننے کے راستے پر ہوتے۔ جی ہاں! اس مضبوطی کے باوجود اس کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کس قدر حوصلہ مند اور حلیم طبیعت کے ہیں۔ ان کے ترجمان جنرل آصف غفور اپنی جانب اٹھنے والے اعتراضات کو آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے ذریعے کس قدر خوبصورتی کے ساتھ واضح کر دیتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔ طعن و تشنیع اس میں بالکل نہیں ہوتی۔

جی ہاں! جب وہی آئی ایس پی آر انڈیا کیلئے ہوتی ہے تو سبق سکھانے کی زبان ہوتی ہے ‘مگر اس میں بھی شائستگی ہوتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدان ایسا کیوں نہیں کرتے؟وہ ترجمانوں کی ٹیم ضرور بنائیں‘ مگر ترجمان ایک ہی رکھیں۔ ایسا سمجھدار کہ جو حکومتی موقف میٹنگ میں طے ہونے والا بیان کرے اور میڈیا کے ساتھ سوال و جواب میں اس فریم ورک سے باہر نہ جائے ‘جو میٹنگ اجلاس میں طے ہوا ہے۔ بالکل اسی طرح ‘جس طرح آصف غفور کرتے ہیں۔ آصف غفور تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم انسان ہیں۔ ہم سے بھی غلطی ہوتی ہے۔ آپ اصلاح کریں ‘ہم خوش آمدید کہیں گے۔

میاں نوازشریف کی وزارت ِعظمیٰ کے چوتھے سال کے آغاز میں جب پنامہ سیکنڈل کا سلسلہ شروع ہوا ‘تو میاں صاحب نے ترکی کے صدر اردوان کی کامیابی کا خواب اپنے بارے میں دیکھنا شروع کیا۔ میں نے انہی صفحات پر گزارش کی تھی کہ ترکی کی فوج سیکولر ہے‘ ہماری فوج ایمان‘ تقویٰ‘ جہاد فی سبیل اللہ والی ہے‘ عوامی فوج ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ طیب اردوان نے ترکی کی معاشی پاور بنایا ہے‘ اسلامی رنگ دیا ہے ‘لہٰذا عوام نے جان پر کھیل کر اردوان کا تحفظ کیا۔ آپ نے پاکستان میں رائج ظالمانہ اور جمود کے شکار نظام کو ختم کیا کرنا تھا‘ اسے تقویت دی‘ لہٰذا قوم نہیں نکلے گی اور وہی ہوا۔ اب‘ میاں صاحب بالآخر جا چکے ہیں۔ سانپ ہاتھ سے نکل جائے تو رسّی پر لاٹھیاں برسانے سے کیا حاصل ہوگا؟ ہاں! آپ خود جاتی عمرہ جاکر میاں صاحب کی عیادت فرما لیتے تو سنت پر عمل کی برکت سے آپ کا قد کاٹھ بھی بلند ہوتا۔ میاں صاحب نے آپ کی عیادت کی تھی۔ بدلہ بھی ہو جاتا اور میاں صاحب کی صحت کیسی ہے ؟یہ بھی واضح ہو جاتا۔ اب‘ آپ اپنے ایجنڈے کی فکر کریں‘ پاکستان میں رائج اس جمودی نظام کو توڑیں۔ پارلیمنٹ میںقانون سازی کریں۔ پاکستان کو مدنی ریاست بنانے کیلئے سب کے ساتھ تعلقات خوشگوار بنائیں۔ مزاج نہ بھی مانے تو 22کروڑ پاکستانیوں کو ریلیف دینے اور اپنے مقاصد میں آگے بڑھنے کیلئے ایسا کریں۔

میں کہتا ہوں‘ اگر آپ ہزارہ موٹروے کے افتتاحی موقع پر شہباز شریف کو اپنے ساتھ کھڑا کر لیتے تو آپ کا اخلاقی قد سوفٹ کا ہو جاتا‘ مگر آپ نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ وزیراعظم صاحب! وقت کم رہ گیا ہے۔ بہرحال! آپ کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے