سرفروشی کی تمنا

نئی نسل میں سرفروشی کی تمنا، مستقبل سے مایوسی کا اظہار ہے یا کسی نئے امکان کی نمود؟

سرفروشی انقلاب سے پھوٹا ہوا ایک خیال ہے۔ یہ وہ گیت ہے جو انقلاب کے موسم میں گایا جاتا ہے۔ ایک رومانوی فضا، جس میں خواب دیکھے جاتے ہیں اور موت بھی ایک رومان میں ڈھل جاتی ہے۔ انقلاب میں موت کا جشن منایا جاتا ہے۔ انقلاب کے پس منظر میں بالعموم کوئی نظریہ کارفرما ہوتا ہے۔ مذہب بھی جب ایک نظریے (Ideology) میں بدلتا ہے تو انقلاب آفریں قوت بن جاتا ہے۔

انقلاب کا تصور انتہائی مایوسی کے عالم میں جنم لیتا ہے‘ جب ایک فرد یا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس پر زندگی کے سب دروازے بند ہو چکے۔ اس کا انجام نوشتۂ دیوار ہے اور یہ فنا ہے۔ یوں وہ سرفروشی کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جب موت ہی اس کا مقدر ہے تو اسے گلے لگانے سے پہلے، کیوں نہ اپنے اندر کے غصے کو سماج پر عیاں کر دیا جائے۔ انقلابی تصورات، اسے پہلے ہی یہ امید دلا دیتے ہیں کہ اس کی موت بہت سے لوگوں کے لیے پیغامِ حیات بن جائے گی۔ یوں مرنے والا یہ بھی سوچتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے بڑی قربانی دے رہا ہے۔ یہ خیال موت سے ہم آغوشی کو محبوب کا وصال بنا دیتا ہے۔

یہ سب مگر ماضی کی داستانیں ہیں جب انقلاب بھی ایک حل بلکہ واحد حل سمجھا جاتا تھا۔ عوام کو یہ باور کرایا جاتا تھا کہ موجود نظام میں ان کے لیے کوئی خیر نہیں۔ اسے جڑ سے اکھاڑنے ہی میں سب مسائل کا حل چھپا ہوا ہے۔ ہیجان، انقلاب کی ناگزیر ضرورت ہے۔ رومان اور مایوسی کے عہد میں عقلی سوال کوئی نہیں اٹھاتا۔ اگر اٹھائے تو انقلاب دشمن شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جو انقلاب آئے، انہوں نے انسانوں کی مایوسی میں مزید اضافہ کیا۔ مایوسی جتنی بڑھتی جاتی ہے، انقلاب کے امکانات اتنے ہی روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔
زمانہ مگر کروٹ لے چکا۔ دنیا کے وسائل اور طاقت کے مراکز پر قابض قوتوں نے یہ راز جان لیا کہ اگر عوام کو وسائل اور اقتدار میں ایک حد تک شریک کر لیا جائے تو مایوسی کی وہ صورت پیدا نہیں ہوتی جو کسی انقلاب کے لیے سازگار ہوتی ہے۔ یوں معیشت میں آزاد منڈی (Liberalization) اور اقتدار میں شراکت (Democracy) کا تصور سامنے آیا۔

ان خیالات سے عبارت نظام میں یہ اہتمام کیا گیا کہ کوئی بھوکا نہ سوئے اور عوام کو یہ اعتماد دیا جائے کہ وہ اگر مطمئن نہ ہوں تو اقتدار پر فائز لوگوں کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ پھر یہ کہ اگر کوئی صلاحیت رکھتا ہے تو وسائل سے حصہ بقدرِ جثہ وصول کر سکتا ہے۔ جیسے بل گیٹس۔ اس احساس نے موجود نظام کے بارے میں انتہائی مایوسی کے تصور کو ختم کر دیا۔ ترقی یافتہ معاشروں نے لبرلائزیشن اور جمہوریت کی اساس پر ایک کامیاب تجربہ کر کے، انقلاب کے امکانات کو کم و بیش ختم کر دیا۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشروں میں یہ نہیں ہو سکا۔ ہمارے ہاں ابھی تک معیشت اور اقتدار کے وہ نظریات پیش کیے جاتے ہیں جو کب کے متروک ہو چکے یا وقت نے انہیں ناقابلِ عمل ثابت کر دیا۔ ہمارے ہاں اپنے معاشرتی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے، سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل کا کوئی قابلِ عمل حل پیش کیا جا سکا‘ نہ دنیا ہی سے سیکھنے کا کوئی مظاہرہ کیا گیا۔ یوں مایوسی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔

ایسے معاشروں میں انقلاب کی خواہش زندہ رہتی ہے۔ یہی سرفروشی کی تمنا کو جنم دیتی ہے۔ جو مذہب پر یقین رکھتے ہیں انہیں ‘اسلامی انقلاب‘ کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔ شاندار ماضی کو قوتِ متحرکہ بنا کر ان میں سرفروشی کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب کا منتہائے کمال ایک اسلامی ریاست ہے۔ یہ دراصل وہ رومان ہے جو تصورِ خلافت سے وابستہ تھا۔ اسے بیسویں صدی میں ‘اسلامی ریاست‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا۔ دورِجدید میں یہ ایک بار پھر احیائے خلافت کے نام سے بیان ہو رہا ہے۔ اس کیلئے بھی وہی لوگ بروئے کار ہیں جو سرفروشی کی تمنا رکھتے ہیں۔

غیر مذہبی لوگوں کے پاس اس وقت کوئی نظریہ موجود نہیں۔ وہ مایوسی کے اس عالم میں کیا کریں؟ عمران خان صاحب اُن کی مدد کو آئے اور انہوں نے کرپشن کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی بات کی۔ ان کا تجربہ دلچسپ ہے۔ انہوں نے نوجوانوں میں ہیجان پیدا کیا اور انہیں یہ تاثر دیا کہ جیسے وہ کوئی انقلاب برپا کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے جو حکمتِ عملی اپنائی، وہ طاقت کے روایتی مراکز کی مدد سے اقتدار تک پہنچنا تھا۔ یہ کھلا تضاد تھا لیکن ‘پوسٹ ٹرتھ‘ (مصنوعی تاثر) کے زور سے اس کو نگاہوں سے اوجھل کر دیا گیا۔ نئی نسل کو اس تاثر میں رکھا گیا کہ ملک میں انقلاب آ رہا ہے اور عملاً اقتدار کے موجود مراکز کی مدد سے اقتدار تک رسائی کا راستہ نکالا گیا۔

اس تضاد نے خان صاحب کو ایک عجیب و غریب صورتِ حال سے دوچار کر دیا ہے۔ آج ان کی ترجیحات پر غور کیجیے۔ وہ ‘سٹیٹس کو‘ کی علامتوں کے لیے کبھی اِس کریہ تو کبھی اُس کریہ بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ ان کو اپنی محدودیت کا اندازہ ہو چکا ہے مگر وہ چاہتے یہ ہیں کہ نوجوانوں میں ہیجان باقی رہے۔ اس کیلئے وہ اپنی شعلہ نوائی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈر کی طرح اس ہیجان کو کم نہ ہونے دیں جو انہوں نے انقلاب یا تبدیلی کیلئے نوجوانوں میں پیدا کر دیا تھا۔ گویا موجود نظام کے برکات سے پورا فائدہ اٹھائیں اور ساتھ انقلاب کی مشعل بھی تھامے رکھیں۔ ان کی خوش بختی ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں خواب فروشوں کو بہ آسانی گاہک مل جاتے ہیں۔

نوجوانوں کا لیکن ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ خان صاحب اس کے مسائل کا حل نہیں ہیں۔ وہ روایتی قیادت کی طرف بھی رجوع نہیں کرنا چاہتا ہے۔ وہ مذہبی بھی نہیں ہے کہ خلافت کے کسی تصور میں پناہ لے لے۔ آج راہنمائی کیلئے اس کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اب کیا کرے؟ اسے پھر بیسویں صدی کا ایک متروک نظریہ ہی دکھائی دیتا ہے اور یوں وہ اپنے جذبات کے اظہار کیلئے بازوئے قاتل کی قوت کو للکار رہا ہے اور سرخ انقلاب کے خواب دیکھ رہا ہے۔

یہ اس معاشرے کا اصل المیہ ہے۔ نئی نسل جب دیکھتی کہ اس کے مذہبی اور غیر مذہبی طبقات فکری طور پر بانجھ ہیں تو پھر وہ خود اپنا راستہ تلاش کرنے کوشش کرتی ہے۔ نوجوانوں کے اس طبقے کی راہنمائی آج کا سب سے اہم کام ہے۔ ہم نے اسے بتانا ہے کہ مایوسی کا ازالہ کسی انقلابی تصور یا حکمتِ عملی میں پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ تعمیرِ ذات میں پنہاں ہے۔ اس کے لیے علم کے راستے پر آگے بڑھنا ہو گا۔ دنیا کے تجربات سے سیکھنا ہو گا۔ خدا کی سنت سب کے لیے ایک ہی ہے اور ہمیں اس کا فہم حاصل کرنا ہے۔

نئی نسل کو ہمیں سکھانا ہے کہ سرفروشی کی نہیں، اسے محنت اور تعمیر کی تمنا کرنی ہو گی۔ شخصی تعمیر سے ہمیں اجتماعی تعمیر کی طرف بڑھنا ہے۔ یہ علم اور اخلاق میں برتری سے ممکن ہے۔ اگر وہ علم اور اخلاق کا سرمایہ رکھتے ہیں تو پھر مستقبل ان کا ہے۔ ہمیں ان نوجوانوں میں موت سے نہیں، زندگی سے پیار کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔ انہیں سرفروشی کا نہیں، سر بلندی کا راستہ دکھانا ہو گا۔ سر بلندی کے لیے سر کا ہونا ضروری ہے۔

میں اگر اقبال کا خیال مستعار لوں تو ہمیں نوجوانوں میں عقابی روح بیدار کرنی چاہیے تاکہ انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آئے۔ یہ بیداری سرفروشی سے نہیں، علم دوستی سے پیدا ہو گی۔ ہماری نئی نسل بد قسمتی سے خواب فروشوں کی نذر ہو گئی ہے یا جذبات فروشوں کی۔ سر فروشی کی تمنا، مایوسی کا اظہار ہے، کسی نئے امکان کی نمود نہیں۔ نئے امکانات علم دوستی میں پنہاں ہیں۔ نئی نسل کو آج یہی سمجھانے کی ضرورت ہے۔
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے