’’مرحوم‘‘ کی وفات!

ڈاکٹر خدا بخش مرحوم ایک زمانہ میں میرے ہمسائے تھے۔ مرحوم ان کا تخلص نہیں تھا بلکہ انہوں نے یہ لفظ نام کا حصہ محض اس لئے بنا رکھا تھا تاکہ انہیں اور ان کے مریضوں کو موت ہمیشہ یاد رہے۔ مرحوم کے قریبی دوستوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایم بی بی ایس کی ڈگری اوکاڑہ یونیورسٹی سے لی تھی، جو ان کے والد گرامی نے ڈھائی مرلے کی وسیع و عریض عمارت میں قائم کی تھی !

ڈاکٹر صاحب مریض کو دیکھتے ہی مرض کا اتا پتا بتا دیتے تھے، اس معاملے میں انہیں یدطولیٰ حاصل تھا۔ میری موجودگی میں ایک مریض ان کے پاس آیا، ڈاکٹر صاحب نے ایک نظر اسے دیکھا اور کہا ’’میرا خیال ہے تم بیمار ہو‘‘ اور پھر انہوں نے فاتحانہ نظروں سے میری طرف دیکھا کیونکہ وہ شخص واقعی بیمار تھا۔ دوسرے مرحلے پر ڈاکٹر صاحب نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا اور مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا ’’کیا کشمیر کی صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے گی؟‘‘ میں نے جواب نہیں دیا تاکہ گفتگو ان کی صحیح تشخیص میں رکاوٹ کا باعث نہ بنے، وہ سمجھے شاید اس معاملے میں میری معلومات ناقص ہیں چنانچہ انہوں نے دوسرا سوال پوچھا ’’بکر منڈی میں بکروں کی قیمتیں کیسی جا رہی ہیں؟‘‘ مجھے ان کے سوال پر بہت غصہ آیا، میں نے جھنجھلا کر کہا ’’آپ تمام بکروں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں یا عیبی کے بارے میں؟ عیب والے تو بہت سستے ہیں دوسرےبکرے بہت مہنگے ہیں لیکن آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘ بولے ’’بخار ہے‘‘ اس دفعہ ان کا مخاطب وہ مریض تھا جو یقینا ًاس حیرت انگیز تشخیص پر ڈاکٹر خدا بخش کی حکمت کا قائل ہو گیا ہو گا، ڈاکٹر صاحب نے اسے دوا دی اور وہ ہنستا کھیلتا سیٹیاں بجاتا ہوا کلینک سے چلا گیا۔ ایک ہفتے کے بعد اس کے لواحقین اسے اسٹریچر پر ڈال کر ڈاکٹر صاحب کے پاس لائے، لگتا تھا اس کا آخری وقت آ گیا، ڈاکٹر صاحب نے اس سے پوچھا ’’میں نے تمہیں جو دوا دی تھی، وہ تم نے کس سے کھائی تھی؟‘‘ اس نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا ’’دودھ سے ‘‘ ڈاکٹر خدا بخش نے یہ سن کر اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا ’’میں بھی حیران تھا کہ تمہاری یہ حالت کیوں ہو گئی، دوا دودھ سے نہیں پانی سے کھانا تھی!‘‘ علاج میں یہ نزاکتیں ڈاکٹر خدا بخش ہی کا خاصا تھیں۔

ڈاکٹر خدا بخش انسانوں کے علاوہ جانوروں کا علاج بھی پوری سنجیدگی اور مہارت سے کرتے تھے۔ اکثر اوقات دوائیاں خلط ملط ہو جاتیں یعنی غلطی سے انسانوں کی دوا کسی جانور کو اور جانور کی دوا کسی انسان کو دے ڈالتے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب کبھی ایسا ہوا مریض ٹھیک ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں ان کی پوری زندگی میں جتنے مریض بھی شفا یاب ہوئے وہ صرف اسی صورت میں ہوئے ۔

ڈاکٹر خدا بخش صرف طب اور حکمت ہی میں مہارت نہیں رکھتے تھے بلکہ سینیٹری کا کام بھی جانتے تھے۔ میرے سوئی گیس کے چولہے اور نلکا وغیرہ ڈاکٹر صاحب ہی ٹھیک کرتے تھے، اگر کبھی گٹر میں کوئی رکاوٹ آ جاتی تو یہ ڈاکٹر صاحب کی عظمت تھی کہ اس رکاوٹ کو دور کرنے میں بھی انہوں نے کبھی عار محسوس نہیں کی چنانچہ ہمارے محلے میں ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے صفائی کی حالت بہت مثالی تھی۔ وہ تو ایک بدباطن اتائی نے ایک دن ان کے کان میں یہ بات ڈالی کہ اگر محلے میں صفائی کا نظام اسی طرح بہتر رہا تو لوگ بیمار نہیں ہوں گے اور اگر وہ بیمار نہیں ہوں گے تو ہم تم کھائیں گے کہاں سے؟ بس اس دن سے ڈاکٹر صاحب نے اس کام سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ ایک دو دفعہ تو یوں بھی ہوا کہ محلے والوں نے اصرار کیا تو انہوں نے ٹھیک کرنے کے بجائے ڈکا اور زیادہ پھنسا دیا۔ لیکن انسان فانی ہے وہ خواہ کتنا ہی ہنرمند کیوں نہ ہو اور چاہے جتنے بڑے بڑے دعوے کر ے ایک دن اس کے فانی جسم نے تباہ ہونا ہوتا ہے چنانچہ ڈاکٹر خدا بخش بھی ایک دن ایک عام آدمی کی طرح فوت ہو گئے!

ڈاکٹر صاحب کی وفات کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہر انسان نے فوت ہونا ہی ہوتا ہے مگر دوسری اور فوری وجہ اپنے استاد کی نصیحت پر عمل نہ کرنا تھی۔ استاد نے پیش گوئی کی تھی کہ تمہارے ہاتھ میں اللہ شفا دے گا تاہم یہ نصیحت بھی کی تھی کہ اپنی دوا خود کبھی نہ کھانا۔ استاد کی پیش گوئی تو متنازع رہی مگر نصیحت پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ سامنے آ گیا۔ رات کو طبیعت خراب ہوئی، انہوں نے اپنا مرض خود تشخیص کیا اور اپنی ہی تجویز کردہ دوا کھائی اور سو گئے۔ تھوڑی دیر بعد پتاچلا کہ ہمیشہ کے لئے سو گئے ہیں۔ اہل محلہ نے ان کی نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں شرکت کی ان میں سے بیشتر لوگ جنازے کے آگے آگے بھنگڑا ڈال رہے تھے۔

آخر میں کراچی میں مقیم ممتاز شاعر صابر ظفر کے چالیسویں شعری مجموعے ’’دیوار پہ چاک سے لکھتا ہوں‘‘ میں سے ایک غزل

بارش سنگ وخشت نے اپنا جنوں بڑھا دیا

ہونا تھا کس جگہ ہمیں اور ہیں کہاں بتا دیا

دیکھ چکے ہیں ابتداء دیکھ رہے ہیں انتہا

شہد سی زندگی جو دی، زہر سا آشنا دیا

پُو تو پھٹے گی صبح دم، چاہے نہ دیکھ پائیں ہم

اشک جو تھے بہا دیے، درد جو تھا ،جگا دیا

تم نے نگاہ ہی نہ کی، حالت بزم یہ ہوئی

بیٹھ گئے اسی جگہ، جس نے جہاں بٹھا دیا

شکوہ کناں ہیں ہم سفر، اگلا قدم رکھیں کدھر

چھوڑ کے آ گ میں ظفر، تم نے ہمیں بھلا دیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے