PTI کے خلاف سازش کون کررہا ہے؟

اسد عمر کو پی ٹی آئی میں عمران خان کے بعد زیادہ پسند کیا جاتا رہا ہے۔ ہر پارٹی میں چند ایسے لوگ ضرور رہے ہیں جن پر آپ جتنی تنقید کر لیں وہ تعلقات خراب نہیں کرتے۔ میں ان صحافیوں میں سے ہوں جنہوں نے اسد عمر کے حوالے سے اپنے پروگرامز میں اچھی خبریں نہیں دیں‘ بلکہ تنقید کی۔ اگرچہ وزیر خزانہ کے طور پر انہوں نے اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی (ای سی سی) میں کچھ اچھے فیصلے کیے‘ لیکن گیس انفراسٹرکچر سیس کے تین سو ارب روپے معاف کرنے کا کام بھی انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ اسد عمر نے طاقتور مافیاز پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تھی‘ جن میں شوگر مافیا سرفہرست تھا۔

اسد عمر نے ایل این جی کے حوالے سے معاہدوں پر بریفنگ لی تو انہیں لگا کہ ایک ڈیل مشکوک صورتحال میں کی گئی تھی۔ اس ڈیل کی منظوری دلوانے والے اور کوئی نہیں ہمارے محبوب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی تھے۔ اسد عمر صاحب نے کابینہ کو تجویز دی کہ وہ اس معاہدے پر نظرثانی کرے؛ تاہم اس دوران وزیر قانون فروغ نسیم وزیر اعظم عمران خان کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ اس ڈیل کو ختم کیا گیا تو آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ طے پایا کہ کمپنی کے کنٹریکٹس کو دوبارہ نہیں کھولا جائے گا اور وہ اپنی طے شدہ رقم وصول کرتی رہے گی۔ یوں اس معاملے کو پھر کبھی نہ چھیڑا گیا۔

میں اپنے دوست ارشد شریف کا شو دیکھ رہا تھا‘ جس میں اسد عمر مہمان تھے۔ ارشد شریف نے اہم سوالات اسد عمر سے کیے اور اسد عمر نے بھی کھل کر جوابات دیے۔ اسد عمر نے انکشاف کیا کہ بڑے بڑے مافیاز کی عمران خان کابینہ تک رسائی ہے اور شوگر مل مافیا نے ان پر دبائو ڈلوایا تھا کہ وہ انہیں اربوں روپوں کی سبسڈی دیں‘ لیکن انہوں نے انکار کیا تو صوبوں کو کہہ کر اربوں روپے اس مافیاز کو دلوائے گئے۔ یقینا اسد عمر کو پتا چل گیا ہو گا کہ اس مافیا کو اربوں روپے سبسڈی دینے کی مزاحمت کرنے پر انہیں وزارت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے‘ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ایک طاقتور گروپ ان کا دشمن ہو گیا تھا‘ جسے شوگر مافیا لیڈ کر رہا تھا۔ اس طرح ارشد شریف کا اہم سوال یہ تھا کہ الیکشن کے بعد آخر اوریجنل پی ٹی آئی کہاں غائب ہو گئی؟ اس پی ٹی آئی کو کس نے ہائی جیک کر لیا‘ جو الیکشن سے پہلے عوام اور میڈیا میں بہت پاپولر تھی؟ اچانک وہ لوگ کہاں غائب ہو گئے جو پارٹی کا اصلی چہرہ تھے؟

ارشد شریف کا یہ سوال سن کر یاد آیا کہ چند روز پہلے وزیر اعظم جناب عمران خان کی اینکرز اور صحافیوں سے ملاقات ہوئی تو یہ بات میں نے بھی محسوس کی۔ لگ رہا تھا کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد نئی پارٹی بنا لی ہو۔ اس اہم ملاقات میں عمران خان کے ارد گرد بیٹھے درجن بھر وزرا اور مشیروں میں سے ایک بھی پی ٹی آئی سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ عمران خان کے ارد گرد بیٹھے وزرا میں فردوس عاشق اعوان سے لے کر عمر ایوب‘ ندیم بابر‘ خسرو بختیار‘ ندیم افضل چن‘ یوسف بیگ مرزا‘ ثانیہ نشتر تک کسی کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں تھا۔ صرف ندیم افضل چن نے الیکشن سے پہلے پی پی پی چھوڑ دی تھی اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا‘ ورنہ دیگر وزرا کا تعلق دور دور تک پی ٹی آئی سے نہیں ہے۔ اچانک کیا ہوا کہ جو چہرے عمران خان نے عوام اور میڈیا کو دکھا کر ووٹ لیے تھے وہ سب سائیڈ پر ہو گئے یا کر دیے گئے؟ اب وہ لوگ عمران خان کے گرد جمع ہیں جن کا ان کی پارٹی یا ووٹر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ خود کو کسی کے آگے جواب دہ سمجھتے ہیں۔

عمران خان صاحب کے گرد ان لوگوں کے جمع ہونے سے پارٹی نے نقصان اٹھائے ہیں اور آج اگر ایک سال میں پارٹی کی یہ حالت ہو چکی ہے تو اس میں بھی ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے جو عمران خان کو ان کی پارٹی کے منشور اور کردار سے بہت دور لے گئے ہیں۔ ان پیرا شوٹرز نے عمران خان سے بڑی دشمنی کی اور پہلے دن سے ہی انہیں میڈیا سے دور کر دیا۔ عمران خان کو قائل کر دیا گیا ہے کہ جو بھی ان کی حکومت کے خلاف بات کرتا ہے یا سکینڈل بریک کرتا ہے اس کے ٹی وی شوز بند کرا دیں یا اینکرز پر دوسرے شوز میں جانے پر پابندی لگوا دیں یا چینلز کو ریاستی طاقت کے سہارے خاموش کرایا جائے۔ یہ سب مشورے دینے والے وہی ہیں جو باہر سے پارٹی پر نازل ہوئے ہیں یا نازل کرا دیے گئے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے‘ آپ کو کیسے علم ہے‘ یہی لوگ عمران خان کو مشورے دے رہے ہیں اور میڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات بگاڑ چکے ہیں؟ اس کا پہلا بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ عمران خان جو میڈیا کے ڈارلنگ تھے‘ آج ان میں اور میڈیا میں لڑائی چل رہی ہے‘ یہی دیکھ لیں پیمرا کے اس آمرانہ آرڈر کے بعد کہ اینکرز اپنی رائے نہیں دے سکتے یا دوسرے شوز میں نہیں جا سکتے‘ اس آرڈر کے خلاف حکومت کے کن وزرا نے مذمت کی اور کس نے دفاع کیا‘ تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اصل پی ٹی آئی کون سی تھی اور اصلی چہرے کون ہیں؟

پیمرا کے اس نوٹیفکیشن کی سب سے پہلے مذمت شیریں مزاری نے ٹویٹ کے ذریعے کی۔ اس کے بعد فواد چوہدری نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی‘ پھر وفاقی وزیر علی محمد نے حامد میر کے شو میں بڑی اچھی باتیں کیں اور بولے: جو اینکرز ہمیں اپوزیشن کے دنوں میں اچھے لگتے ہیں وہ حکومت میں کیوں برے لگنا شروع ہو جاتے ہیں؟ سینیٹر فیصل جاوید نے بھی پیمرا کے اس اقدام کو غلط قرار دیا۔ اسد عمر نے بھی ارشد شریف کے شو میں کھل کر پیمرا کے اس حکم پر تنقید کی۔ اب آپ یہ سب نام پڑھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ حکومت میں پی ٹی آئی کے اصلی اور پرانے لوگ کیا سوچتے ہیں۔ جب عمران خان یہ کہہ رہے تھے کہ تین اینکرز عامر متین‘ رئوف کلاسرا اور محمد مالک ان کی حکومت پر تنقید نہ کریں یا خاموش ہو جائیں تو معیشت درست ہو جائے گی تو اس وقت ان (عمران خان) کے گرد سب وہ لوگ بیٹھے تھے جن کا پی ٹی آئی سے دور دور تک تعلق نہ تھا۔ وہ ہر دور میں ہر حکمران کے وزیر رہے ہیں یا ان کے قریب رہے ہیں۔ وہ ہر دور میں فائدے اٹھا کر اگلی حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔

تو پھر پی ٹی آئی کی ایک سال میں جو حالت ہو گئی ہے وہ کس نے کی ہے‘ کہ آج یہ پارٹی پہچانی ہی نہیں جا رہی؟ وہی عمران خان‘ جو اینکرز کو ہیرو اور بہادر سمجھتے تھے‘ آج ان پر برس رہے ہیں۔ تو پھر یہ سازش عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف کس نے کی ہے اور انہیں عوام اور میڈیا سے دور کر دیا ہے؟ جنہوں نے یہ سب پیرا شوٹرز پی ٹی آئی کے اندر اتارے‘ انہیں وزارتیں دلوائیں‘ میڈیا سے لڑایا اور پارٹی کا کردار خراب کر کے رکھ دیا‘ وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ شاید عمران خان صاحب کو کبھی سمجھ نہیں آئے گی کہ ایک سال میں انہیں اس حالت میں کیسے پہنچا دیا گیا ہے کیونکہ انسانی کمزوری ہے کہ وہ اپنی غلطی نہیں مانتا اور دوسروں کو ذمہ دار سمجھتا ہے‘ حالانکہ غلطیاں اس کے اندر ہی موجود ہوتی ہیں۔

اب پوچھا جا رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کی شکل میں کیا سازش ہو رہی ہے اور اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟ گوتم بدھ سے پوچھا گیا: گرو! انسان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟ برگد کے ہزاروں سال پرانے درخت کی نیچے نروان کی تلاش میں محو گوتم نے جواب دیا: انسانی کی اپنی خواہشات۔ ہمارے خلاف سازش کوئی نہیں کرتا‘ ہمارے اندر چھپی خواہشات ہی سازش کرتی ہیں اور ہم نتائج کی پروا کیے بغیر کوئی بھی سودا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں‘ جیسے انگریز ڈرامہ نگار کرسٹوفر مارلو کا کردار ڈاکٹر فاسٹس وقتی عیاشیوں اور جاہ و جلال کے لیے اپنی روح تک کا سودا شیطان سے کرنے پر تیار ہو گیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے