آرمی چیف ، مدت ملازمت اور مارشل لاء

پاکستان کے وہ تمام جنرل جو آرمی چیف بنتے ہیں وہ پہلے ہی سال دنیا کے چند طاقتور ترین افراد میں شامل ہو جاتے ہیں چاہے وہ جنرل پرویز مشرف ہو ، اشفاق پرویز کیانی یا جنرل راحیل شریف ، یہ ملک کے سب سے طاقتور اور دنیا کے انتہائی چند طاقتور ترین شخص کی مدت ملازمت تین سال ہوتی ہے اس دوران وہ ملک کے مختلف محاذوں پر اہم ترین فیصلے کرتے ہیں ملکی سیاست ملکی معشت اور ملک کے تمام تر معاملات میں ان کا کردار باالواسطہ یا بلاواسطہ ہم ہوتا ہے ، اسی طرح ایک اور عہدہ ہے پاکستان میں وہ ہے ڈی جی آئی ایس آئی کا ، اس عہدے کا شخص بھی ملک کا دوسرا طاقتور ترین اور دنیا کے چند طاقتور ترین شخصیات میں شامل ہوتا ہے ، پاکستان کی ملٹری کا کمانڈر یا پاکستان کی انٹیلی جنس کا سربراہ دونوں ہی اپنے دور اقتدار میں دنیا میں کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہوتے انتہائی مضبوط اختیارات سے بھرے ہوئے لا محدود وسائل لامحدود بجٹ لامحدود طاقت کی حامل یہ شخصیات امریکہ ، چین ، برطانیہ ،روس ، سعودی عرب اور دیگر ممالک کے ساتھ براہ راست انتہائی اہم دورے اور ملاقاتیں کرتے ہیں دنیا کے اہم ترین معاملات مین ان کا کردار ہوتا ہے ملکوں کے درمیان تعلقات ہوں یا خطے میں سیکیورٹی کی صورتحال ، یہ شخصیات اہم ترین ہوتی جاتی ہیں

اس تعارف کے بعد اب مسئلہ آتا ہے کہ تین سال ختم ہوتے پتہ ہی نہین چلتا ، اس دوران آرمی چیف کئی نئے محاذ کھولتا ہے ملک میں سیکیورٹی اور امن و امان کے لیے جاری جنگوں میں کارنامے کرتا ہے فوج کی ساکھ بہتر کرتا ہے فوج کا مورال بلند کرتا ہے ، فوج کو ملک کے کونے کونے میں امن و امان کے لیے پہنچاتا ہے دہشتگردی کے خلاف لڑنے والوں کا حوصلہ بلند کرتا ہے وہ ایک سپہ سالار جو ملک کی بہتری کے لیے ہر قدم اٹھانا چاہتا ہے وہ اٹھاتا ہے ، دوسری طرف آئی ایس آئی کا سربراہ وہ بھی ملک و قوم اور ریاست کے مفاد بہتری اور امن و امان کے لیے تین سال کام کرتا ہے ، اختیارات لامحدود اور کوئی پوچھنے والا نہیں ، ہر جنگ اپنی مرضی سے شروع کرنی اور اپنی مرضی سے ختم کرنی ، سب کچھ کرنے اور کچھ بھی نہ کرنے کا اختیارات ہوتے ہیں لیکن صرف تین سال ، اب ان دو اہم ترین عہدوں کے براجمان شخصیات جیسے ہی ریٹائرمنٹ کے قریب آتی ہیں ان کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت وہ طاقتور ترین شخصیات ہیں اور صرف ایک تاریخ کے بعد وہ ایک آرمی کے گھر ، پنشن ، دو ملازم تک محدود ہو جائیں گے ، یہاں پر مدت ملازمت میں توسیع ، مارشل لائ اور بہت سے دیگر اقدامات کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں ، پھر انہیں بار بار ملک کے حالات بھی خراب لگتے ہیں اور سیاسی قیادت بھی کرپٹ لگتی ہے ، اور اس میں ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے یہ ہمارے ملک نے ہمارے نظام نے ہمارے سیاستدانوں نے ہمارے حکمرانوں نے انہیں اتنے اختیارات خود بخود دیئے ہیں ان کو اتنا مضبوط کیا ہے ان کو اتنا با اثر کیا ہے اس کے بعد ان کی طاقت کو روکنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے ، حالانکہ قانونی و آئینی طریقے سے دیکھا جائے تو وزیر دفاع تو دور کی بات آرمی چیف گریڈ بائیس کے سیکرٹری دفاع کے بھی ماتحت ہوتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ کسی کے ماتحت نہیں ہوتا

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طاقت کو کس طریقے سے اس اقتدار کو کس طریقے سے ایسے سانچے میں ڈھالا جائے کہ مدت ملازمت میں توسیع کی صورتحال بھی پیدا نہ ہو اور نہ ہی مارشل لائ کے طریقے ڈھونڈے جائیں اور نہ ہی اقتدار پر ہمیشہ رہنے کا جنون ۔۔۔ ایک تجویز ہے اگر اس کو مناسب سمجھا جائے تو اس پر کام کیا جا سکتا ہے ، آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال ہونی چاہیے اس کے بعد ریٹائرمنٹ پر ہر آرمی چیف خود بخود ملک کے اہم ترین ادارے نیشنل سیکیورٹی کونسل کا سربراہ بنا دیا جائے ، جس کا کام ملک کی سیکیورٹی کے حوالے سے اقدامات کرنے پالیسی تشکیل دینے ، ملک کے تمام صوبوں ، تمام سیکیورٹی اداروں اور حکومت کے درمیان ایک فورم کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے ،چونکہ آرمی چیف کو پتہ ہو گا کہ جب وہ ریٹائر ہو گا تو وہ ایک اور اہم ادارے کا سربراہ ہو گا اور اس صورت میں بھی وہ ملک کی بہتر انداز میں خدمت بھی کرسکتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کے زریعے ملک کے حالات بھی بہتر کر سکتا ہے اور اسی طرح نیشنل سیکیورٹی کونسل کا کردار بھی اہم ہو گا ، پھر اس آرمی چیف کو کچھ پروٹوکول اور عہدہ اور اختیارات مل جائیں گے کہ وہ کم از کم ایک گھر دو بٹ مینوں سے تو بہتر سوچے گا ، یہ اہم ترین عہدے سے جب وہ سال بعد دو سال بعد ریٹائر ہو گا تو پھر اس طاقت کا نشہ کم از کم اتر چکا ہو گا اوروہ با آسانی ریٹائر ہو جائے گا نہ مدت ملازمت میں توسیع اور نہ ہی مارشل لائ کا ڈر۔۔۔

اب رہ گئےڈی جی آئی ایس آئی ، تو وہ بھی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہش مند ہوتے ہیں ہمارے متعدد ڈی جی آئی ایس آئی کے سربراہون نے لی ہے ، اب ایسے میں اگر ڈی جی آئی ایس آئی کو ریٹائرمنٹ کے بعد فوری طور پر ڈی جی انٹیلی جنس بیورو لگا دیا جائے تو سول حکومت کا انٹیلی جنس ادارہ ہے اس کا سربراہ ، عموما جو گریڈ بائیس کا بیوروکریٹ ہوتا ہے ، اس عہدے پر لگنے سے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ مدت ملازمت میں توسیع سے بچ جائیں گے اور دوسرا یہ کہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی ) کی استعداد ، صلاحیت اور کارکردگی بھی بہتر ہو گی کیوں کہ آئی ایس آئی کا سربراہ جب آئی بی کا سربراہ لگے گا تو اس ادارے کو بھی مزید بہتر بنا لے گا اور دوسرا سب سے اہم آئی ایس آئی اور آئی بی میں رابطے اور تعاون کا فقدان بھی ختم ہو جائے گا اور آئی بی کے سربراہ کے عہدے سے جب وہ ریٹائر ہو گا تو طاقت کا نشہ بھی کم از کم اتر چکا ہو گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے