اسلام ، فطرت اور الحاد

میرا سچے دل سے ایمان ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا مطلب میں یہ سمجھا ہوں کہ فطرت کے خلاف جو شے ہے، وہ اسلام نہیں۔ چنانچہ میں فطرت کے خلاف عقائد اور مقدس ہستیوں کو سوپرمین قرار دینے والے قصے کہانیوں کو نہیں مانتا۔ ہرگز نہیں مانتا۔

میں نہیں مانتا کا مطلب ہے کہ میں نہیں مانتا۔ آپ مانیں، آپ کی مرضی۔ میں کوئی مبلغ نہیں کہ آپ کا مذہب تبدیل کروانے کی کوشش کروں۔ مذہب اپنی شعوری کوشش سے بدلنا چاہیے، قلم یا خنجر کی نوک پر نہیں۔
میں نے چند دن پہلے لکھا کہ میں ہر اس مذہب کو ماننے سے انکار کرتا ہوں جس کا خدا اعمال کے بجائے عبادت کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔ کسی ایک مذہب کو نہیں، ہر اس مذہب کو جو ایسا کرتا ہے۔ کوئی ہندو خفا نہیں ہوا۔ کسی مسیحی نے اعتراض نہیں کیا۔ کسی یہودی نے سوال نہیں اٹھایا۔ ایک خاص ذہن کے بونے اچھل پڑے۔
بجائے اس کے کہ لوگ کہتے، شکر الحمداللہ، ہمارا رب العالمین صرف عبادت پر فیصلہ نہیں کرتا، نیک اعمال ہی دیکھتا ہے، شور مچ گیا کہ خدا کی توہین ہوگئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ توہین غلط مطلب سمجھنے والوں نے کی کہ ان کا خدا اعمال کے بجائے اپنی عبادت پر فیصلے کرتا ہے، گویا خوشامد پسند ہے۔

اگرچہ میں ملحد نہیں ہوں، لیکن ملحدین کو ان کے خیالات کی آزادی دینے کا قائل ہوں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ملحد کے خیالات سے آپ کے جذبات مجروح ہورہے ہیں۔ کیا ملحد کے کوئی جذبات نہیں؟ آپ کے خدا خدا کرنے سے اس کے جذبات مجروح نہیں ہوتے؟

ایک بار میں نے ایک ملحد دوست کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اس سے پوچھا کہ کس خواہش کے تحت آج نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے؟ اس نے کہا، اس خواہش کے تحت کہ کاش خدا ہو۔

مجھے یقین ہے کہ اس ملحد کی خواہش بے شمار مذہب پرستوں کے ایمان سے زیادہ خدا کو محبوب ہوگی۔
اسلام قیامت تک کے لیے آخری دین ہے۔ اس بات کو سمجھیں کہ دنیا ہر لمحہ بدل رہی ہے۔ یہ چودہ سو سال پرانے دور میں کھڑی نہیں رہ سکتی۔ رسول پاک آج کی دور میں تشریف لاتے تو اونٹ یا گھوڑے پر سوار نہ ہوتے۔ وہ بھی کار میں بیٹھتے، جہاز میں سفر کرتے۔ ملازمت کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی فرماتے۔

تو کیا آپ خواتین کو گھر سے نکلنے نہیں دیں گے؟ انھیں برابر کا انسان نہیں سمجھیں گے؟ کیا آپ مدرسوں میں فقط فرقہ پرستی کی تعلیم دیتے رہیں گے؟ کیا آپ جمہوریت کی جگہ خلافت لائیں گے؟ کیا آپ ریاست کے کچھ شہریوں کو اقلیت کہنے پر بضد رہیں گے؟ کیا واقعی آپ اونٹ پر بیٹھے رہنا چاہتے ہیں؟

ایک بات تواتر سے کہی جارہی ہے کہ مبشر صاحب پاکستان میں ایسے نہیں تھے۔ امریکا جاکر خیالات بدل گئے ہیں۔ خیالات تو نہیں بدلے، اظہار میں کچھ توانائی ضرور آئی ہے۔

میں نے پاکستان میں دیکھا ہے کہ کچھ خواتین چادر لیتی ہیں۔ عمرہ کرنے جاتی ہیں تو خود کو برقعے میں لپیٹ لیتی ہیں۔ یورپ جاتی ہیں تو شرٹ اسکرٹ پہن لیتی ہیں۔ ہر معاشرے کے کچھ رسوم و رواج ہوتے ہیں، کچھ قوانین ہوتے ہیں۔ ہمیں رواج اور قانون کا احترام کرنا چاہیے۔

پاکستان گھٹن کا شکار معاشرہ ہے۔ امریکا میں اظہار رائے کی آزادی ہے۔ معاشرے کا فرق سمجھنے کی کوشش کریں۔ کسی سڑک پر رفتار کی حد چالیس میل فی گھنٹا ہوتی ہے، کسی شاہراہ پر سو میل۔ ایک شارع کا قانون دوسری پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ میں نے کوئی ریڈ سگنل توڑا ہے تو امریکا میں توڑا ہے۔ پاکستان میں کسی کو کیا پریشانی ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے