جلوس اور جنازہ

آج صبح اسلام آباد آنے کے لئےایکسپریس وےسے ہٹ کر روٹ استعمال کرنا پڑا۔ وجہ ’’مشن جی ٹی روڈ‘‘
ایک تو نیا روٹ، رش اور میری 5 سالہ بیٹی کے نہ ختم ہونےوالے سوالات نے بظاہر لمبا سفر اچھا کر دیا۔
وہ یہ جاننا چاہتی تھی کہ ہم معمول کے راستے سے ہٹ کر کیوں اور کہاں جا رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے وزیراعظم کے “ہارنے” کے وقوعہ سے وہ واقف تھی اسلئے اسکو یہ بتانا آسان تھا کہ وہی صاحب اب اپنےگھر جارہے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ایک پورا جلوس ہے۔ بچے غیر سیاسی بھی ہیں اور معصوم بھی۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوے بچی نے جلوس کے لفظ کو جنازےسے تبدیل کر کے سوالات کی بوچھاڑکر دی۔

جنازہ کب نکلے گا؟
جنازے میں ہم کیوں نہیں جارہے؟
دوسری روڈ تو بند ہے تو جنازہ کیسے گزرے گا؟
وغیرہ وغیرہ۔

کچھ دیر تک میں نے اسکی اصلاح کرنے کی کوشش کی، جلوس اور جنازے کا فرق بتایا لیکن جب غلطی ہوتی چلی گئی تو میں نے بھی اپنے آپ کو ڈرایئونگ اور سوالات کے جوابات تک محدود کر دیا۔ لیکن بات غور طلب ہے کہ یہ اگر جنازہ ہی ہوتا تو یقیناً موجودہ جلوس سے بہت بڑا اجتماع ہوتا۔

چوروں لٹیروں اور بد کرداروں کا جنازہ۔
کرپشن کا جنازہ۔
مہنگائی کا جنازہ۔
بد عنوانی کا جنازہ۔
اقرباپروری کا جنازہ۔

لیکن حالات و واقعات کی طوالت کسی ایسے فوری جنازے کی نوید نہیں دے جس پر جشن منایا جائے۔ اسلئے میری طرف سے صرف14اگست کے جشنِ آزادی کی مبارکباد قبول کر لیں۔
ڈس کلیمر: اس پوسٹ کا مقصد کسی انسانی جان لینےکی ترغیب دینا ہرگز نہیں ہے بلکہ حق و انصاف کی حکمرانی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے