خادم حسین رضوی کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟

مذہبی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ کے بانی خادم حسین رضوی کے بارے میں چند برس پہلے تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے اس برس مارچ میں تو خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی بھی اس بات پر سرزنش کی تھی کہ ان کے پاس خادم حسین کے بارے میں یہ معلومات کیوں نہیں کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آرہا ہے، ان کا ذریعہ معاش کیا ہے، کیا کاروبار کر رہے ہیں یا چندے پر چلتے ہیں۔

[pullquote]خادم حسین رضوی کا آغاز[/pullquote]

لاہور کی ایک مسجد کے 52 سالہ خطیب نے اصل شہرت نومبر 2017 میں اسلام آباد کے فیض آباد چوک میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ایک طویل لیکن بظاہر کامیاب دھرنا دے کر حاصل کی تھی۔ اس سے قبل وہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت کے معاملے میں بھی کافی سرگرم رہے تھے اور وہیں سے انھوں نے اپنی دینی سرگرمیوں کو سیاست کا رنگ دیا۔

بریلوی سوچ کے حامل خادم حسین رضوی کو ممتاز قادری کے حق میں کھل کر بولنے کی وجہ سے پنجاب کے محکمۂ اوقاف سے فارغ کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے ستمبر 2017 میں تحریک کی بنیاد رکھی اور اسی برس ستمبر میں این اے 120 لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد سے بریلوی طبقے کے قدامت پسندوں نے زیادہ متحرک سیاسی کردار اپنایا ہے۔ لیکن پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ اور بریلوی دیوبندی اختلاف سال 2012 کے بعد سے دیکھا جا رہا ہے۔

خادم حسین رضوی کو گذشتہ برس کے احتجاجی دھرنے میں سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل رہی تھی۔

[pullquote]انھیں کس کی حمایت حاصل ہے؟[/pullquote]

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت میں فیض آباد دھرنے سے متعلق تاثر تھا کہ اس دوران احتجاج کرنے والوں کو کسی نہ کسی صورت پاکستان فوج کی حمایت حاصل تھی۔ اس بابت احتجاج کے اختتام پر رینجرز کی جانب سے مظاہرین میں رقوم کی تقسیم کو اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

فوج اس حمایت سے انکار کرتی رہی لیکن اب آسیہ بی بی کے تنازعے میں ملک بھر میں دھرنوں کے پیچھے کون ہے اور تحریک لبیک کو کس کی حمایت حاصل ہے یہ سوال دوبارہ پوچھا جا رہا ہے۔

تاہم مبصرین کے خیال میں ماضی میں انھیں کسی کی پشت پناہی حاصل ہو یا نہ ہو اس مرتبہ وہ معاشرے کے ایک خاص قدامت پسند طبقے میں اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر سڑکوں پر نکلے ہیں۔

اب وہ اور ان کی تحریک کے دیگر سینئر رہنما جس قسم کی زبان فوج اور عدلیہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انھیں اپنی طاقت پر حد سے زیادہ اعتماد ہوگیا ہے۔

ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں توہین رسالت کے متنازع قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے ہیں۔ وہ اس قانون کے غلط استعمال کے الزام سے بھی متفق نہیں۔ ان کا انداز بیان کافی سخت ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کا حل بظاہر انھوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے نکالا ہے۔ ناصرف اردو اور انگریزی میں ان کی ویب سائٹس اب موجود ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی کئی اکاؤنٹ ہیں۔ وہ اپنے آپ کو پیغمبر اسلام کا ’چوکیدار‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔

[pullquote]خادم حسین رضوی کہاں سے ہیں؟[/pullquote]

تحریک کے ایک ترجمان اعجاز اشرفی نے بتایا کہ خادم حسین رضوی کا تعلق پنجاب کے ضلع اٹک سے ہے۔ وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ شیخ الحدیث بھی ہیں اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ ان کے دو بیٹے بھی مختلف احتجاج میں شریک رہے ہیں۔ خادم حسین ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے اور سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے ہیں۔

وہ 22 جون 1966 کو ’نکہ توت‘ ضلع اٹک میں حاجی لعل خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ ان پر مختلف نوعیت کے کئی مقدمات بھی درج ہیں۔ اعجاز اشرفی نے بتایا کہ ان مقدمات کی تعداد کتنی ہے انھیں یاد نہیں۔ لیکن تحریک کے آغاز سے اب تک انھیں گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ شاید اس کی وجہ ان کی ’سٹریٹ پاور‘ ہے۔

جنوری 2017 میں بھی توہین مذہب کے قانون کے حق میں انھوں نے لاہور میں ایک ریلی نکالی تھی جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔ انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا اور انھیں آج بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ انھیں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کو آگاہ رکھنا ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’خادم حسین رضوی اپنے اونچے عہدے والوں کے سامنے مغرور اور ماتحتوں کے ساتھ بدتمیز ہیں‘۔

[pullquote]تحریک لبیک کے مالی وسائل کیا ہیں؟[/pullquote]

خادم حسین رضوی کو اپنی سرگرمیوں کے لیے وسائل کہاں سے ملتے ہیں یہ واضح نہیں لیکن اسلام آباد دھرنے کے دوران انھوں نے اعلان کیا کہ نامعلوم افراد لاکھوں روپے ان کو دے کر جا رہے ہیں۔ ان سے متعلق انٹرنیٹ پر ایک مضمون کے اختتام پر آسٹریلیا سے ایک شخص ان کا پتہ اور بنک اکاؤنٹ مانگ رہا ہے تاکہ انھیں رقم بھیج سکے۔ اس کے علاوہ ویٹس ایپ پر ایک فون نمبر کے ساتھ ایک پیغام گردش کر رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر احتجاج کے دوران کسی کارکن کو کوئی سہولت مثلاً موبائل بیلنس، پیسے یا کھانا درکار ہو تو اُس نمبر پر پیغام بھیجے۔ اس سے بظاہر لگتا ہے کہ اندرون و بیرون ملک دونوں جانب سے انھیں فنڈز ملتے ہیں۔

گذشتہ برس کے دھرنے کے بعد آئی ایس آئی کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق خادم رضوی ’مالی بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں، اور ان کی ساکھ غیر تسلی بخش ہے‘۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دھرنے کی منظم انداز میں مالی سپورٹ کی باتیں افواہیں ہیں اور دھرنے والوں کو عوام میں سے چند افراد نے خوب عطیات دیے جن میں مقامی علما اور گدی نشین شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’پولیس دھرنے والوں کو دی جانے والی لوجسٹکل سپورٹ روکنے کی نہ تو صلاحیت رکھتی تھی اور نہ ہی روکنا چاہتی تھی‘۔

[pullquote]خادم رضوی کا انداز بیان[/pullquote]

خادم حسین رضوی کی گرمجوش تقاریر سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی طاقت سے کافی مرعوب ہیں۔ ان کے پیرو کار ان کی بدزبانی اور گالیوں پر بھی آنکھیں بند کر کے واہ واہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی کڑی تنقید کا نشانہ محض صاحب اقتدار ہی نہیں بلکہ مرحوم عبدالستار ایدھی جیسی شخصیت بھی رہی ہیں۔

ان کی سوشل میڈیا پر بعض ویڈیوز محض اس لیے وائرل ہوئیں کہ وہ ملک کو قرضوں سے چھٹکارے کی جس قسم کی تجاویز دیتے ہیں اس پر لوگ صرف ہنس ہی سکتے ہیں۔ وہ اپنے اجتماع میں آئے ہوئے صحافیوں اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بھی بڑے سخت انداز میں مخاطب کرتے رہے ہیں۔ پھر وہ ایسے دعوے بھی کرتے ہیں جنھیں عملی جامعہ پہنانا شاید ناممکن ہو۔ ایسا ہی ایک بیان انھوں نے کراچی میں دیا تھا کہ ’اگر ان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو وہ ہالینڈ کو کارٹون بنانے کا مقابلہ منعقد کرنے سے پہلے ہی پوری طرح سے برباد کردیتے۔‘

جس قسم کی سخت اور ریاست مخالف تقاریر انھوں نے حالیہ دنوں میں لاہور میں کی ہیں اگر اس کی بنیاد پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو اس سے ان کے زیادہ ’نڈر اور بےباک‘ ہونے کا خطرہ ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے بال اب ایک مرتبہ پھر حکومت کے کورٹ میں آیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے