خطرناک موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیاں: پاکستان ساتویں نمبر پر

حیات آباد میڈیکل کمپلکس ہسپتال کے(ای این ٹی) ناک کان گلہ وارڈ میں ڈاکٹر حنیف اللہ مریض کا معائینہ کررہا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=lBRncosJq7A&feature=youtu.be

ڈاکٹر نے ہاتھ میں ایکسرے لیکر مجھے بتا یا کہ ہوا میں سموگ یعنی گرد آلود دھند زیادہ ہونے سے 25 سالہ ماجد خان کے ناک میں پہلے سےموجود تکلیف زیادہ ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے اب اسکا اپریشن ہوگا۔

سردیاں آنے سے پہلے عمومی طور پر لوگوں کو الرجی ہوجاتی ہے، لیکن پچھلے دو مہینوں سے پشارو میں حیات آباد میڈیکل کمپلکس کے (ای این ٹی) یعنی ناک کان گلہ وارڈ میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے ۔

وارڈ کے ریکارڈ کے مطابق ستمبر سے اب تک 305 مریض داخل ہوئے ہیں ۔اور ہفتے میں چار دن اوپی ڈی چیک اپ کیلئے مریضوں کی تعداد جو ایک دن میں پہلے 150 تھی اب بڑھ کر350 کے قریب پہنچ چکی ہے۔

ڈاکٹر حنیف نے کہا کہ موسمی تغیر کے بڑھتے ہوئے اثرات سے لوگو ں کو مختلف بیماریوں کا سامنا ہے ۔ خاص کر شہری علاقو ں میں فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھویں اور گرد غبار سے الرجی زیادہ ہوجاتی ہے جس سے آنکھوں سمیت ناک ، گلے اور سانس کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں۔

جیسا کہ موسمی تغیر کے اثرات نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شورع کر دیا ہے ،پاکستان میں بھی کچھ عرصے سے خصوصی طور پر سردیاں شورع ہونے سے پہلے ہوا میں نمی کم ہونے سے موسم خشک اور گرد الود ہوجاتا ہے، جسکی وجہ سے خصوصابڑے شہروں میں شہری مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔

پشاور میں پرائیویٹ ہسپتال رحمان میڈیکل انسٹیوٹ میں الرجی اور دمے کی سپیشلسٹ ڈاکٹر صائمہ عالم افریدی نے پروگنیٹ کو بتایا کہ سموگ کے زیادہ ہونے سے خصوصی طور پر دمے او ر الرجی کے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنہ کرنا پڑھتا ہے ۔ ہوا میں گرد کے چھوٹے پارٹیکلزآسانی سے سانس کے زریعے بدن میں داخل ہوجاتے ہیں جسکی وجہ سے دمے اور الرجی کے مریض خطرناک صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر صائمہ کو انگلینڈ سے پاکستان آئے ہوئے دو سال ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹرنے کہا کہ دوسرے ملکوں میں حکومت کی طرف سے ایسے گاڑیوں پر سخت پابندی ہوتی ہے جو ماحول دشمن ہوتے ہیں، یہاں وہ شہر میں روز ایسی گاڑیاں دیکھتی ہیں جو ماحول دشمن ہیں لیکن یہاں پر حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی ۔

ڈاکٹر نے مزید بتا یا کہ پہلے میرے پاس زیادہ تر افغانستان سے دمے اور الرجی کے مریض آتے تھے، لیکن اب موسموں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی تبدیلی اور شہر وں میں گاڑیوں کے دھویں سے یہاں کا ماحول خطرناک حد تک گرد الود ہو چکاہے جس کی وجہ سے اب یہاں خصوصی طور پر بچوں میں دمے، الرجی اور سینے کی بیماری زیادہ ہونے لگی ہے۔

جس طرح پشاور میں لوگوں کو سموگ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے اسی طرح ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی سموگ کے اثرات موجود ہیں۔ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور سمیت کئی شہروں میں سموگ کی وجہ سے لوگ مشکلات سے دوچار ہورہے ہیں۔
خیبر پختونخوا شعبہ ماحولیات (اے پی اے )اینوارمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے اہلکار نے پروگنیٹ کو بتایا کہ محکمہ پشاور شہر میں سموگ کے بڑہتے ہوئے اثرات سے باخبر ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے سموگ کے اثرات سے بچاو کیلئے عام شہریوں کی اگاہی کا کوئی پروگرام پلان نہیں کیا۔

کے پی کلائیمیٹ چینج سیل کی ڈیپٹی ڈائیریکٹر زکیا نے ایک سوال کے جواب میں بتا یا کہ موسمی تغیر پوری دنیا میں لوگوں کیلئے ایک خطرہ ہے اور( سی سی سی ) پچھلے چار سالوں سے کلائیمیٹ چینج پالیسی پر کام کر رہی ہے جو صوبائی کابینہ سے منظور ہوچکی ہے ۔

سموگ سے متعلق عوامی اگہی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ڈپٹی ڈاریکٹر نے بتایا کہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی پلان نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ کلائیمیٹ چینج پالیسی ستمبر کو صوبائی کابینہ سے منظور توہوچکی ہے لیکن اسمبلی کے فلور کو ابھی تک بحث کیلئے نہ پہنچ سکی۔

کلائیمیٹ چینج پالیسی میں انسانی زندگی پر موسمی تبدلی کے اثرات اور اس سے بچنے کیلئے اقدمات کا زکر موجود ہے لیکن خصوصی طور پر صوبے کے بڑے شہروں میں سموگ جیسے خطرات اور اس سے شہریوں کو محفوظ رہنے کے حوالے سے کسی لائحہ عمل کا زکر نہیں ہے۔

گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈکس کے مطابق پاکستان اُن 10 ممالک کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہیں جو کلائیمیٹ چینج کے اثرات سے زیادہ متاثر ہیں۔

دنیا میں کلائیمیٹ چینج کے اثرات کو کم کرنے کیلئے دو سو کے قریب ممالک نے 2015 میں ایک عالمی معاہدہ پیرس ایگریمینٹ سائن کیا جسکے تحت ہر ریاست مومسمی تغیر کے اثرات کو کم کرنے کیلئے اور اسکی وجوہات پر قابوپانے کیلئے موثر اقدامات کریگی ۔

پاکستان نے بھی اس معاہدے کو 2016 کو سائن کیا، اور ملک میں عملی اقدامات کی صورت حال یہ ہے کہ پارلیمینٹ نے 2016 میں کلائیمیٹ چینج ایکٹ تو پاس کیا ہے لیکن شہریوں کو ابھی تک نہیں پتا کہ ماحولیاتی تباہ کاری کیا ہے اور وہ کسطرح اسکے اثرات اپنے آپ کو اور ائیندہ نسلوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

اور خیبرپختونخوا میں عملی اقدامات کی صورت حال یہ ہے کہ بڑے شہروں میں آج کل گرد الود دھند کی وجہ میں شہریوں میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں اور ہسپتالوں کے ای این ٹی وراڈ میں مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔

(آصف مہمند پشاورمیں مقیم صحافی ہیں اور پروگنیٹ ڈولپمنٹ انیشیٹیو میں پارٹنر اور کونٹینٹ پروڈیوسر ہے)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے