قادیانی تعلیمی اداروں کی واپسی اورنظریاتی سرحدوں کا دفاع

ابھی سرکاری تعلیمی نصاب میں’’ ادارہ امن وتعلیم ‘‘کی مذہب کش تبدیلیوں کی سفارشات کی گردنہیں بیٹھی کہ چناب نگر میں قادیانیوں کے تعلیمی اداروں کی قادیانی جماعت کو واپسی کی اطلاعات گردش کرنے لگی ہیں۔اب کس کس واقعہ پر اِظہارِغم کیاجائے۔ہم بے بس لوگ دکھ دردسہنے اوررونے پیٹنے کے سواکربھی کیاسکتے ہیں!کیونکہ جن کے ہاتھ میں زمامِ اقتدارواِختیارہے،وہ طبقہ ان فکری واَساسی مسائل سے یکسربے پروا،مکمل بے نیاز اورقطعاًلاتعلق ہے ،ہماری نظریاتی سرحدوں پر ڈاکہ زنی کرنے والوں سے اُسے کوئی سروکارہی نہیں ہے۔

حکمرانوں اوراُن کے بھائی بندوں کی ترجیح صرف اورصرف حصولِ منفعت ہے ،ملک کی 65 فی صد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کو سسک سسک کر گزاررہی ہے اورحکمرانوں نے اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں پانچ،دس نہیں،بلکہ اکٹھا ڈیڑھ سوفی صداِضافہ کرکے 180کھرب روپے کی مقروض قوم پر کروڑوں روپے سالانہ کا مزیدبوجھ ڈال دیاہے۔عوام کو دال روٹی کی فکر میں اس قدرمبتلاکردیاگیاہے کہ وہ فکرمعاش کے سواکچھ اور سوچنے سے ہی عاری ہوچکے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ اربابِ اختیارمن مانیوں کی انتہاپر جاپہنچے ہیں۔غمِ روزگارکے باوجودبھی، ایسے سرپھروں کی معقول تعدادالحمدللہ اب بھی موجودہے کہ جو ملک وقوم اوراسلام کی حفاظت کے لیے ہردم متحرک ،کمربستہ اورتازہ دم رہتی ہے۔اندرونی وبیرونی خطرات کو بروقت بھانپ کر اُن کے تدارک کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ عمل میں کودپڑتی ہے۔اللہ اِ ن پاسبانانِ ملک وملت کو سلامت رکھے اورہمارے مقتدرطبقہ کو بھی پاکستان کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدات کی نگہبانی کی توفیق ارزانی کرے،آمین۔

1972 میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے جب تمام تعلیمی اداروں کو قومیایاتھا توچناب نگرکے قادیانی تعلیمی اداروں کوبھی سرکاری تحویل میں لے لیاگیاتھا۔ماضی میں قادیانی اوراُن کے سرپرست ان اداروں کی واپسی کے لیے تین باراپنے ہتھکنڈے آزماچکے ہیں،لیکن انہیں ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔ حکومت پنجاب گزشتہ تین سال سے ان تعلیمی اداروں کی واپسی کے حیلے بروئے کارلاتی رہی ہے ،مگر دینی قوتوں کی بھرپورمزاحمت نے ان کے ارادوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ اب پھرپنجاب حکومت قادیانیوں کو نوازنا چاہتی ہے اوراقلیت کو خوش کرنے کرنے کے لیے اکثریت کے حقوق کی پامالی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہتی۔حالانکہ قادیانیوں نے اپنے الگ تعلیمی ادارے قائم کرلیے ہیں اوروہ قومیائے گئے اداروں میں بہت ہی قلیل تعدادمیں اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں۔

گورنمنٹ ٹی آئی کالج (بوائز)،گورنمنٹ جامعہ نصرت گرلز کالج ، گورنمنٹ جامعہ نصرت ہائی سکول (بوائز)،گورنمنٹ گرلز ہائی سکول فضلِ عمر سمیت چناب نگر کے ان تعلیمی اداروں میں طلباء اوراساتذہ کی اکثریت مسلمان ہے۔اب ان تعلیمی اداروں کو قادیانیوں کے سپردکرنا ،مسلمان طلباء کو قادیانی ارتدادکے منہ میں دھکیلناہے۔ ان میں سے بعض اداروں میں مساجدبھی تعمیرہوچکی ہیں۔جن میں باقاعدہ جماعت کا اہتمام کیاجاتاہے ۔طلباء اورسٹاف وہاں نمازاداکرتے ہیں۔تازہ ترین صورت حال کے مطابق حکومت،بیوروکریسی ،قادیانی اورقادیانی نوازگٹھ جوڑسے پنجاب ہائیکورٹ میں تعلیمی اداروں کی واپسی کے لیے ایک رٹ نمبری 27368/2016 کی گئی اورطے شدہ منصوبہ کے تحت حکومت پنجاب عمداً ہائیکورٹ میں اپنے دفاع سے ہی دستبردارہوگئی۔جس کے آنے والے نتائج کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے۔

ان نازک حالا ت کی اطلاعات مجلس احراراسلام پاکستان کے مرکزی ناظم اعلیٰ جناب عبداللطیف خالدچیمہ تک پہنچیں تو انہوں نے تمام دینی رہنماؤں کو آگاہی دی۔جس پر27؍نومبرکو تمام مسالک کی دینی وسیاسی جماعتوں پر مشتمل متفقہ فورم ’’متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان‘‘ کا ہنگامی اجلاس طلب کیاگیا۔اجلاس دفترمرکزیہ مجلس احرار اسلام پاکستان ،نیو مسلم ٹاؤن لاہور میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی ایم پی اے کی صدارت میں منعقد ہو ا ۔جس میں مولانا زاہد الراشدی ، مولانا عبدالرؤف فاروقی ،عبداللطیف خالدچیمہ ،علامہ زبیر احمد ظہیر ،ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ،محمد انور گوندل ،مولانا محمد زاہد اقبال ،قاری محمد رفیق وجھوی ،مولانا عاصم مخدوم ،قار ی شبیر احمد عثمانی ،مولانا اسد فاروق ،مولانا مجیب الرحمن انقلابی ،قاری محمد یوسف احرار ،میاں محمد اویس، مولانا محمدیونس حسن،قاری محمدقاسم اور کئی دیگر سرکردہ رہنماؤں نے شرکت کی۔

اجلاس کی منظورکردہ قرادادوں میں کہا گیا کہ قادیانیوں نے پاکستان کے دستور کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے اور پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے خلاف عالمی سطح پر مسلسل مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دستورکی پاس داری کرتے ہوئے قادیانیوں کی سرگرمیوں کا فوری نوٹس لے ،مگر حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے انہیں سہولتیں فراہم کرنے میں مصروف ہے جو ملک بھر کے مسلمانوں کے دینی جذبات کے منافی ہے اور متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی اس سلسلہ میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے جدو جہد کرے گی ۔

اجلاس میں تمام دینی جماعتوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اس صور ت حال کا فوری نوٹس لیں اور مسلمانوں کے عقیدہ ودین کے تحفظ کے لیے مؤ ثر کردار ادا کریں۔ اجلاس میں انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کے رابطہ سیکرٹری قاری محمد رفیق وِجھوی کی سربراہی میں محمد انور گوند ل، میاں محمد اویس ،مولانا عاصم مخدوم پر مشتمل چار رُکنی کمیٹی قائم کئی گئی جو چناب نگر کے سرکاری تعلیمی ادارے قادیانیوں کو دینے کے فیصلے کے خلاف قانونی و عدالتی چارہ جوئی کرے گی۔ جبکہ اجلاس کے تمام شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ حکومت کی سیکولر پالیسیوں اور قادیانیت نواز اقدامات کے حوالے سے تحریک ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر اپنا بھر پور کردار ادار کریں گے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا ۔

علاوہ ازیں متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان کے کنوینر عبداللطیف خالد چیمہ نے خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ خلیل احمد سے ملاقات کر کے انہیں چناب نگر کے تعلیمی اداروں کے حوالے سے آگاہ کیا۔ جس پر مولاناخواجہ خلیل احمد نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔ دریں اثناء مولانا محمد الیاس چنیوٹی اور عبداللطیف خالد چیمہ نے جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو فون پر اس حوالے سے بریفنگ بھی دی ۔

تحریک ختم نبوت کے رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس اورتاحال جاری سرگرمیاں خوش آئندہیں۔امید ہے کہ حکومت بھی ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے کسی اقدام سے گریزکرے گی جو ملک وقوم کو کسی انتشاراوربدامنی کی جانب دھکیل دے۔پاکستان کو پہلے ہی سرحدی محاذ پر بھارتی جارحیت کا سامنا ہے اوراب نظریاتی سرحدیں بھی دشمنوں کی زدپر ہیں۔اس لیے حکمران اورعوام ہم قدم ہو کر ہی ملک و دین کا دفاع کرتے ہوئے، اپنے جغرافیائی اورنظریاتی دشمنوں کو شکست فاش سے دوچارکرسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے