معاشرہ ‘ استاد اور دانشور

تعلیم اور تبدیلی کا باہم گہرا رشتہ ہے۔ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کے لیے تعلیم ایک مؤثر کردار اد ا کر سکتی ہے۔ تبدیلی کے اس سفر میں اساتذہ کا کردار ہراول دستے کا ہے۔ یہ اساتذہ ہی ہیں جو نوجوان ذہنوں کی آبیاری کر سکتے ہیں‘ جہانِ تازہ کی نمود کے لیے افکارِ تازہ کی تشکیل کا کام اساتذہ کی اولین ذمہ داری ہے۔ کسی بھی معاشرے میں سوچ کی تشکیل دانشوروںکی مرہونِ منت ہوتی ہے ۔اگرچہ میڈیا کی چکا چوند میں دانشوری کے پیمانے بھی بد ل رہے ہیں‘لیکن ایک اچھا استاد ایک مؤثر دانشور کے روپ میں معاشرے میں تبدیلی کے عمل میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تعلیم کے میکانکی تصور میں اساتذہ کی آزادی کم ہوئی ہے‘ لیکن انہیں رکاوٹوں میں اچھے اساتذہ نئی راہیں تلاش کرتے ہیں اور سوچ کے نئے زاویے تراشتے ہیں۔

دانشور کی تعریف کیا ہے؟ کیا اساتذہ کو دانشور کہا جا سکتا ہے؟ اساتذہ معاشرے میں تبدیلی لانے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ تیزی سے بدلتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی منظر ناموں میں پوچھے جانے والے یہ چند متعلقہ سوالات ہیں۔

بہت سے مفکرین جن میں انتونیو گرامچی (Antonio Gramsci)جولین بنڈا(Julien Benda)‘ ایڈورڈ سعید اور علی شر یعتی شامل ہیںنے‘ معاشرے میں دانشوروں کی نوعیت‘ مرتبہ اور کردار کی وضاحت کی کوشش کی ہے۔ اول اول انتونیو گرامچی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب”Prison Notebook‘‘ میں اس حوالے سے بحث کی۔ اس کی کتاب بالادستی ” Hegemony‘‘کے حوالے سے ایک اہم کتاب تصور کی جاتی ہے۔

گرامچی ہر شخص کو دانشور کا درجہ دیتا ہے‘ لیکن کچھ لوگ معاشرے میں اپنی سماجی حیثیت کی بنا پر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گرامچی دانشوروں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔ روایتی دانشور (Traditional intellectuals)اور نامیاتی دانشور (Organic Intellectuals)۔ اس کے بقول پجاریوں کی طرح اساتذہ بھی دانشوروں کے روایتی گروہ میں شامل ہیں۔اسی طرح دوسرا گروہ نامیاتی دانشوروں کاہے جو مختلف طبقات اور کاروباری مفادات کے لئے کام کرتے ہیں۔ گرامچی سماجی خلا کو دانشوروں کے لیے ایک اہم عنصر سمجھتا ہے‘ یہ معاشرتی خلا انہیںموجودہ معاشرتی حالات کو بہتر بنا کر معاشرے میں تبدیلی لانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

علی شریعتی کے نزدیک دانشور وہ ہے‘ جسے ایک مخصوص معاشرتی اور تاریخی وقت میں اپنے ہو مینسٹک سٹیٹس (Humanistic Status) کا احساس ہو۔ دانشور کا یہ تصور گرامچی کے اس خیال سے قریب تر ہے کہ کسی بھی شخص میں دانش ور بننے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔علی شریعتی خود بھی ایک استاد تھے‘ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ استاد ممکنہ طور پر ایک دانشور ہے جو نوجوان نسل کے افکار پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور یوں معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ایڈورڈسعید نے اپنی کتاب”Representations of the Intellectual‘‘ میںجولین بنڈا کی معروف کتاب”The Betrayal of the Intellectuals ‘‘کا حوالہ دیا ہے کہ کس طرح وہ انتہائی ہنر مند اور اخلاقیات سے واقف فلسفی بادشاہوں کے ایک چھوٹے سے گروہ پر یقین رکھتے ہیں۔ دانشوروں کے حوالے سے یہ تصور بہت محدود ہے‘ جس کا زیادہ جھکائو اخلاقیات کی طرف ہے ۔ یہ تصور تجریدی(Abstract) اور مثالیت (Idealism) پر مبنی ہے۔ اس گروہ کے دانشور مصلوبیت (Crucifixion) سمیت ہر طرح کی قربانیوں کے لئے تیار رہتے ہیں۔

ان سب مفکرین میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ انہوں نے اپنی زندگیوں میں بطور دانشور مصائب سہے اور اپنے نظریے کے لیے قربانیاں دیں۔انتو نیو گرامچی کی زندگی کو دیکھیں تو وہ اپنی ذہانت اور پڑھائی میں بہترین کارکردگی کی بنیاد پر کسی بھی منافع بخش ملازمت کو اپنا سکتا تھا‘ لیکن اس نے پرکشش ملازمتوں سے صرفِ نظر کر کے اپنے لیے صحافی بننے کا انتخاب کیا‘ صرف اس لیے کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہونا چاہتا تھا۔اُس وقت اٹلی میں مسولینی کی آمریت تھی‘ گرامچی کی حکومت مخالف تحریروں کو اشتعال انگیز قرار دے کر اسے دس سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ جیل ہی میں اٹلی کے اس معروف مفکر اور دانشور کا انتقال ہو گیا۔

ایڈورڈ سعید بھی امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھے‘ جنہوں نے بطور استاد اور دانشور بہت فعال زندگی گزاری ۔اپنی تحریروں کے ذریعے انہوں نے بہت سی (Stereotypes) کو چیلنج کیا۔ اس کے جواب میں انہیںشدید تنقید کا سامنا بھی کرنا۔پڑا ایڈ ورڈ سعید اپنی کتاب ”Orientalism‘‘ میں مغرب کی (Positional superiority) کی مصنوعی تخلیق کردہ اساس کو چیلنج کرتے ہیں۔ فلسطینی کازکے ساتھ ان کی وابستگی کی وجہ سے مختلف حلقوں کی طرف سے انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا‘ لیکن وہ تمام تر مخالفت کے باوجود اپنے نظریات کا پرچار کرتے رہے۔

علی شریعتی کا تعلق ایران سے تھا اور وہ بھی بنیادی طور پر ایک استاد تھے‘ جنہوں نے اپنے خیالات و افکار سے طلبا کی کثیر تعداد کو متاثر کیا۔ علی شریعتی ایک ہر دلعزیز استاد تھے‘ جن کی کلاس میں طلبا جوق درجوق انہیں سننے کے لیے آتے۔ شاہ ایران کے لیے علی شریعتی کی مقبولیت تشویش کا باعث تھی‘ آخرکار حربے کے طور پر انہیں یونیورسٹی میں پڑھانے سے رو ک دیا گیا اورانہیں ملک بدر ہو کر لندن جانا پڑا جہاں ایک روز وہ اپنے فلیٹ میں پر اسرار حالت میں مردہ پائے گئے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی موت میں شاہ کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ تھا۔

برازیل کے معروف ماہر تعلیم پالو فریرے (Paulo Freire) کے مطابق تدریس ایک سیاسی عمل (Political act) ہے ۔پالو فریرے نے علم کے بینکاری کے تصور Banking Concept of Knowledge))کو چیلنج کیا اورمعاشرے میں تبدیلی کے لیے کریٹیکل طریق ِتدریس(Critical Pedagogy)کی اہمیت پر زور دیا۔ فریرے نے نہ صرف تنقیدی نظر کا پرچار کیا بلکہ لوگوں کی تقدیر بدلنے کے لیے ان نظریات پر عمل درآمد بھی کیا۔ فر یرے کو بھی حکومتِ وقت نے اس کے تنقیدی خیالات کا پرچار کرنے پر گرفتار کیا۔یہ ہیںکچھ ہم عصردانشوروں کی مثالیں ہیں‘ جنہوں نے اپنے خیالات و افکار کا پرچار کرنے کے ساتھ ساتھ نظریات پر عمل درآمد بھی کیا اور اس کے لیے مصائب بھی سہے ۔جنہوں نے اپنے قول وفعل سے ثابت کیا کہ وہ حقیقی معنوں میں دانشوری کے سارے پیمانوں پر پورا اترتے ہیں۔

اساتذہ نصابی عمل میں مرکزی حیثیت کی وجہ سے اپنے قول وفعل سے طلبا کے ذہنوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اساتذہ کا کردار‘ ان کا طرزِ عمل ‘ان کا قول و فعل‘ طلبا میں ان صلاحیتوں کو ابھار اور نکھار سکتا ہے‘ جن کی بدولت نہ صرف وہ اپنی زندگیوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ اس معاشرے کو بھی ایک مثالی معاشرے میں بدل سکتے ہیں ‘جہاں باہمی احترام‘ رواداری‘ برداشت‘ اور امن کی روایات کا دور دورہ ہو ۔جہاں نئے خیالات‘ تازہ افکار‘ تنقیدی رویہ ‘ تخلیقیت اور باہمی ربط و آہنگ کی حوصلہ افزائی ہو۔ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہو گا جب اساتذہ پہلے یہ صفات خود اپنے اندر پیدا کریں اور یہ اسی طور ممکن ہے جب وہ ایک Technicianکے بجائے Reflective Practitionerکے روپ میں سامنے آئیں۔

اساتذہ میں سوچ اور تفکر (Reflection) پیدا کرنے کے لیے ٹیچر ایجوکیشن پروگرامز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تربیت ِاساتذہ پروگرامز کی اکثریت روایتی نصاب پر کارفرما ہے‘ جس کا واحد مقصد اساتذہ میں تدریس کے حوالے سے کچھ ٹیکنیکس کا تبادلہ ہے۔ یہ پروگرامز اس حقیقت کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں کہ اساتذہ کی پیشہ ورانہ زندگیوں میں اجتماعی تبدیلی کے لیے تین سطحوں پر تبدیلی کا عمل ضروری ہے۔ ان تین سطحوں میں مضمون کے بارے میں علم‘ تدریسی مہارتیں‘ اور مثبت رویہ شامل ہیں۔ سب سے اہم چیز اساتذہ میں تنقیدی سوچ کا فقدان ہے۔ تربیت ِاساتذہ کے تمام پروگرامز کا مرکزی نقطہ اساتذہ کے اندر سوچ اور تفکر (Reflection)کی پرورش کرنا ہے‘ کیونکہ ایک سوچنے والا استاد ہی سوچنے والے شاگرد تیار کر سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے