علامہ اقبال، حمزہ علی عباسی اور قادیانی مسئلہ

شیخ نور محمداپنی جوانی کے زمانہ میں ابن عربی کی تعلیمات کے بارے میں ہونے والے ایک درس کوبا قاعدگی سے سننے جاتے تھے ۔اس دور کے ایک ابھرتے عالم دین مرزا غلام احمد کا بھی وہاں آنا جانا تھا۔یہاں سے ان دونوں خاندانوں کی شنا سائی کا آغاز ہوا جنہوں نے بعد میں برصغیر کی مسلم تاریخ میں مثبت اور منفی حوالوں سے شہرت حاصل کی۔مرزا غلام احمد نے تو شروع میں ہندو پنڈتوں اور عیسائی مشنریوں سے مناظرہ جیت کر اپنی علمی دھاک بٹھانے کے بعد ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھنے کے علاوہ نبوت کا دعوی بھی کر دیا جبکہ شیخ نور محمد کا نام ان کے بیٹے نے اپنی مسلم احیائی شاعری سے ہمیشہ کے لئے آنے والے زمانوں میں زندہ و جاوید کر دیا۔

مرزا غلام احمد کی احمدیہ جماعت کا ظاہری بھیس چونکہ لوگوں کو منکرات سے ہٹا کر اصل اسلام کی طرف بلانا تھا اسلئے اس زمانے کے بہت سے سادہ لوح مسلمانوں نے اس جماعت کا رخ کیا ۔اولا لوگوں کو مرزا غلام احمد کو مصلح اور مجدد کی حیثیت سے متعا رف کرایا جا تا تھا لیکن جب وہ پوری طرح رام ہو جاتے تو پھر ان کی خود ساختہ نبوت کی پٹری پر چڑھایا جانا احمدی جماعت کا مشہور طریقہ واردات تھا۔ اقبال کے خاندان کی چونکہ مر زا صاحب سے پرانی دعا سلام تھی اس لئے ان کا یہ پرچار وہاں بھی پہنچنا شروع ہوگیا۔یہ زمانہ اقبال کے اوئل جوانی کا تھا جب وہ اعلی تعلیم کے لئے یورپ روانہ ہو رہے تھے ۔اس سفر کے لئے اقبال کا سارا خرچہ ان کے بھائی شٰیخ عطا محمد نے اٹھا یا ۔یہ حقیقت ہے کہ اگر اقبال یورپ نہ جاتے تو علامہ اقبال کبھی نہ بن پاتے اور جدید زمانے میں مسلم احیاء کے موجد شمار کرنے کی بجائے شاید تاریخ انھیں ایک اوسط درجے کے شاعر کے طور پر ہی یا د رکھ پاتی۔یورپ جا کر اقبال کی فکر کا رخ اسلام، مغربی فلسفہ ، قر آن اور مسلم دنیا خصوصا برصغیر کے مسلمانوں کی حالت زار کی طرف پھر گیا جس نے بیسویں صدی میں اس خطہ کے مسلمانوں کی مذہبی اور سیا سی زندگی پر فیصلہ کن اثرات مرتب کئے۔

شومئی قسمت کہ اقبال کے بڑے بھائی ، ان کے اور تمام مسلمانوں کے محسن شیخ عطا محمد نے اسی اثناء میں قادیانیت قبول کرلی تھی ۔بعد میں جب اقبال وطن واپسی کے بعداپنی شاعری کے ذریعے مسلم فکر کی تشکیل نو میں مصروف تھے تو بارہا احمدی جماعت کیطرف سے یہ کوششیں ہوتی رہی کہ اقبال بھی احمدی جماعت میں شامل ہوجائیں لیکن حکیم الامت پر ان کا کوئی جادو نہ چل سکا۔

علامہ اقبال کی زندگی کی آخری دو دہائیوں میں جب قادیانی تحریک اپنے مرکز پنجاب سے نکل کر ہندوستان کے طول و عرض میں اپنی جڑیں مستحکم کرنا شروع کردی تواقبال ان ابتدائی مسلم عمائدین میں سے تھے جنہوں نے ان کاعوامی سطح پر رد کیا ۔اس رویہ پر پنڈت نہرو جیسے نیشنلسٹوں نے جب حیرانگی کا اظہارکیا تو اقبال نے سخت جواب دیتے ہوئے نہ صر ف قادیا نیوں کواسلام کا غدار قرار دیا بلکہ ان کی حمایت کرنے اور انھیں باقی مسلمان قوم کا حصہ سمجھنے پر پنڈت صاحب کو اچھی خاصی لعنت ملامت بھی کی۔یہ تو قادیانیوں کے بارے میں اقبال کا پبلک رویہ تاریخ میں درج ہے اب ہم ان کی ذاتی زندگی کی طرف آئیں تو وہ یہاں ایک ہاتھ اور بھی آگے گئے۔انھوں نے اپنے دو چھوٹے بچوں جاوید اور منیرہ کا گارڈین اپنے دوستوں کو مقرر کیا اور اپنے سگے بھائی شیخ عطا محمد کو اس اعزاز سے محروم صرف ان کے قادیا نی عقائد کی وجہ سے کیا،حالانکہ ساری عمر وہ انھیں باپ کی طرح عزت دیتے رہے تھے۔اقبال کے اس فیصلہ کا دکھ عطا محمد کو مرتے دم تک رہا جس کا ذکر جاوید اقبال نے اپنی تحریروں میں بھی کیا ہے۔

اس ساری تاریخی تمہید کا دومقا صد ہیں ، ایک تو آج کل وائرل(viral) بحث پر ایک نئے زاویہ سے توجہ دلانا ہے، چونکہ سوال اٹھانے والے حمزہ علی عباسی نے اپنا امیج ایک محب وطن اور نظریہ پاکستان کے شیدائی کے طور پر بنا رکھا ہے تو بات ان کے اور ہمارے آئیڈیل علامہ اقبال کے حولے سے کی جائے اور دوسرا یہ امتیازی سلوک کے حوالہ سے قادیانیوں کا ہمارے معاشرے میں سٹیٹس ڈیفائن کیا جائے۔

پہلا سوال جو یہ اٹھایا گیا کہ ریاست کیسے کسی گروہ کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے؟اس کو یہ حق کس نے دیا ہے ؟ تو یہ ہمارے اور آپ کے شاعر مشرق کا وژن تھا کہ اگر ان کی تجویز کے مطابق ہندوستان میں مسلم ریاست بن جاتی ہے تو اس کی پارلیمنٹ متفقہ فیصلوں سے اجتہاد کر سکتی ہے۔تو جناب آپ کے ملک کی پارلیمنٹ نے تمام فریقوں کو اپنے دفاع کا موقع دے کر ، ہر طرح کے قا نونی تقاضے پورے کرکے قادیانی سوال (qadiani question) حل کر چکی ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں۔اب اگر آپ میں نہ مانوں پر اتر آئیں تو آپ بیشک نہ نظریہ پا کستان کے خا لق کے وژن کو مانیں ، نہ پارلیمنٹ کو مانیں اور نہ اسکے فیصلوں کو مانیں لیکن یہ میں نہ مانوں کی گردان تاریخ نہیں بدل سکتی ہے۔

دوسرا سوال قادیا نیوں سے امتیازی سلوک کے بارے میں اٹھایا گیا ہے۔ایک بات سمجھ لینے چاہیے کہ پوری دنیا کے ہر ملک اور خطہ میں اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری(second class citizen) کا درجہ ملتا ہے۔ اگر کہیں آئین اور قانون میں برابر حقوق کا وعدہ کیا جا رہا ہے تووہ محض دھوکہ یا سراب ہے۔انسانی فطرت کو کسی قانون اور ضابطہ سے بدلہ نہیں جا سکتاہے ۔اکثریت اگر اقلیت کے حقوق تلف نہ بھی کرے تو بھی اسکو برابری کا درجہ کبھی نہیں دیتی ہے۔جہاں تک قادیا نیوں کے بارے میںیہ شکایت کہ ان سے تو تیسرے درجے کے شہری (third class citizen) کا سا سلوک ہوتا ہے تو اسکی سیدھی سادھی وجہ شناخت کا بحران(identity crises) ہے۔

قادیا نی مسلم شناخت کے دعوے دار ہیں اور جوان کے عقائد کو نہیں مانتا ،اس کو وہ مسلم شناخت سے محروم سمجھتے ہیں۔اب آپ خود تصور کرسکتے ہیں کہ ان کی یہ سوچ دوسرے مسلمانوں سے کس قدر نفسیاتی، تہذیبی اور سماجی نزاع کی بنیاد رکھ چھوڑتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ اقبال نے اپنی وصیت میں کم سن جاوید اور منیرہ اقبال کی گورنس ایک جرمن انگریز خا تون کوتو بنانا گوارا کر لیا لیکن اپنے بڑے بھائی کو انکے قادیانی عقائد کی وجہ سے بچوں کی گارڈین شپ سے محروم رکھا۔کیونکہ غیر مسلموں کی شناخت کا بارے میں کوئی کنفیوشن نہیں ہوتی ہے اس لئے وہ ہمارے ساتھ اگر یورپ میں دوسرے درجے کا شہری سلوک کریں تو ہمارا اعتراض نہیں بنتا ہے کیونکہ ہمارے ہا ں بھی یہی ہوتا ہے لیکن جہاں کوئی ہماری شناخت پر ہی نقب لگائے بیٹھا ہو تو اسکی کا ساتھ رویے کا گر جانا انسانی فطرت ہے اور اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔

بہتر یہی ہے کہ حمزہ صا حب طے شدہ مسلمات ، انسانی فطرت اورمسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی بجائے دوسرے ایشوز پر دھیان لگائیں ۔ امید تو یہی ہے کہ اب تک انھیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کہ اس نازک معا ملہ پر حکیم الامت ،دانائے رازاور مجدد ملت علامہ اقبال سے لے کر عام پرچون کی دکان پر بیٹھنے والے محمد اقبال تک کی حمیت جاگ اٹھتی ہے،اس لئے اس جگہ سے دور رہنا ہی منا سب ہے جہاں آپ کے پر جلنے شروع ہو جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے