عورت کےلیے نصیحتوں کی پٹاری، اور مرد کےلیے؟

پچھلا ہفتہ کافی شور میں رہا، مسز خان کی وجہ سے، جو انہوں نے لڑکیوں کو خاص طور پر ٹارگٹ کرتے ہوا کہا کہ زبان نہ چلائیں شوہر کے سامنے، جونہی شوہر آئے، جوتے سائیڈ پر رکھیں، کھانے کا سب تیار ہو، توا گرم ہو، روٹی ڈال دی جائے، وغیرہ وغیرہ۔ طلاق کی سب سے بڑی وجہ بھی عورت کا زیادہ منہ پھٹ ہونا بتایا۔ اس سب کے بعد ابھی ایک ٹی وی چینل پر انہوں نے اپنی کہی ہوئی باتوں پر معذرت بھی کی کہ میں نانی، دادی جیسی ہوں، کچھ بول دیا تو سن لیں۔ کسی اور سوچ میں تھی، غصہ تھا تو اس لیے بولنے میں زیادہ ہوگیا۔ یہ سب ہماری ساس بولتی تھی ہمیں، ہم تو چپ چاپ سن لیتے تھے، اور عمل بھی کرتے تھے۔

چلیں شکر انہیں احساس تو ہوا کہ کچھ غلط بولا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کی طاقت ہے کہ ان کو احساس کروایا گیا۔ اس میں معذرت کے ساتھ، مرد حضرات کی تعداد زیادہ تھی، جنہوں نے اسے صحیح کہا، اور سب سے مزے کی بات کچھ خواتین نے بھی اس کی تائید کی۔ اس حوالے سے کچھ گزارشات ہیں۔

پہلی بات! یہ محترمہ شادیاں کرواتی ہیں، یہ ان کا کاروبار ہے۔ ہمارے اس معاشرے میں تو عورت کو ہی اچھا رہنے کی ہدایات کی جاتی ہیں، اور یہ وہی کررہی تھیں۔ کاروبار میں یاد رکھیں، جھوٹ، سچ کی آمیزش ہوتی ہے، اور جنہوں نے ان کے ذریعے سے شادی کی ہے، وہ زیادہ بہتر بتاسکتے ہیں۔ دوسری بات! آج بھی آپ کسی گاؤں میں جائیں، تو آپ کو پتہ چلے کہ وہاں کی عورت کی کیا مشکلات ہیں۔ وہ کھیت میں مرد کے برابر کام بھی کرتی ہے، کھانا بھی پکاتی ہے، مویشیوں کو چارہ بھی ڈالتی ہے، بچے بھی سنبھالتی ہے، اور پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کا سسر، دیور، جیٹھ سب مارنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ گاؤں کی عورت آج بھی اپنے گھر کے مردوں سے مار کھاتی ہے۔
یہ سولہویں صدی کی عورت کے واقعات نہیں ہیں، یہ بیسویں صدی کی عورت کے ہیں، وہ بھی پاکستانی عورت۔ اس کا مطلب کام کرنے سے عزت نہیں ملتی۔ اگر ایسا ہوتا تو گاؤں کی عورت کی تو زیادہ عزت ہوتی، کیونکہ وہ شہر کی عورت سے کئی گنا زیادہ محنت کا کام کرتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ گاؤں کی عورت کو اپنے حقوق کا ادراک ہی نہیں ہے، اس لیے وہ ساری زندگی مار بھی کھاتی ہے، کام بھی کرتی ہے، اور اسی شوہر کے نام پر مر بھی جاتی ہے۔

شہر کی عورت کو شعور تعلیم نے دیا ہے، وہ جانتی ہے کہ میاں بیوی کا تعلق برابری کا ہے، وہ روٹی بنا کر دے گی، مگر اس وقت اس کا شوہر ٹی وی نہیں دیکھ رہا ہوگا، فون پر گپ شپ نہیں لگارہا ہوگا، بلکہ بچے کو سنبھال رہا ہوگا، یا گھر کا کوئی اور کام کردے گا، کیونکہ جیسے وہ نوکری سے واپس آیا ہے، ویسے وہ بھی آئی ہے۔ اسی احساس کا نام محبت ہے، جس کے اثر میں وہ اپنے شوہر کا ہر کام خوشی سے کرتی ہے۔ اگر ہمارے معاشرے کا مرد اتنا بھی احساس نہ کرے عورت کا، تو بتائیں یہ رشتہ کیسے چل سکتا ہے۔

تیسری بات! یہ مسائل تب ہیں جب عورت بھی جاب کرتی ہے۔ ایک ہاؤس وائف تو یہ سب کرتی ہے، تو پھر اگر آپ کو ہر کام کیا ہوا ہی چاہیے، تو پھر لڑکی بھی ویسی ڈھونڈیں۔ لڑکی پڑھی لکھی بھی ہو، جاب بھی کرتی ہو، لیکن گھر کے کام بھی سارے خود کرے، تو بتائیں اس سب میں منافق کون ہے؟ شادی سے پہلے ہی فیصلہ کرلیں کہ اگر آپ کو اس کے ساتھ برابری نہیں کرنی کام میں، تو پھر ویسی ہی سے شادی کریں جو جاب نہ کرتی ہو۔ یہ جو جملہ ہے کہ ’’وہ آئے گی تو ہمیں دیکھ کر بدل جائے گی‘‘ خدارا اس مایا سے نکلیں۔ وہ انسان ہے پلاسٹک سے بنی گڑیا نہیں کہ جیسے موڑیں گے مڑ جائے گی۔

چوتھی بات! جو انہوں نے کہا صحیح تھا، لیکن مسئلہ ان کا لب و لہجہ تھا۔ ان کے لہجے سے تاثر تھا کہ مرد بادشاہ اور عورت غلام۔ ہمارے مذہب اور ہمارے نبیؐ کی تعلیم کے مطابق مرد بادشاہ اور عورت ملکہ۔ عورت کی تعلیم سے مرد کا جو برتری کا درجہ ہے، وہ قطعی کم نہیں ہوتا، بلکہ آپ کو شعور آتا ہے کہ شوہر کی فرماں برداری کتنی ضروری ہے، ایک خوبصورت اور صحت مند گھرانے کےلیے۔ اور وہ عورتیں جو اس شعور کو پا لیتی ہیں وہ اپنے شوہروں کی عزت کرتی ہیں۔ جب ہم عورت کو عائشہؓ کی سیرت کو اپنانے کا کہتے ہیں، تو مرد کو نبیؐ کی سیرت اپنانے کا کیوں نہیں کہتے؟ یہ منافقت ہی تو ہے ہمارے معاشرے کی۔ تالی تو دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے۔

افسوس اس بات سے ہوا کہ اس سب گفتگو میں مرد کو کچھ بھی نہیں بولا گیا، عورت کو ہی ٹارگٹ کیا گیا۔ اس لیے اس کا ردعمل بھی کافی زیادہ آیا، اور آنا ہی چاہیے تھا۔ ویسے اس معاشرے میں کیا کم مسائل ہیں، جو آپ اس طرح کی باتیں کر کے ان کے مسائل کو بڑھا رہی ہیں، اور وہ بھی ایک پڑھی لکھی خاتون ہوکر۔ عورتوں کو نصیحتیں کرنے کےلیے تو ان کی پٹاری خوب کھلی، تو مرد کےلیے کیوں نہیں؟

آخری بات! ہمارے دین نے عورت کو جنت کا آسان سا نسخہ بتایا ہے، آپؐ نے فرمایا کہ ایک عورت اس حال میں مرے کہ اس نے اپنی نمازوں اور روزوں کی حفاظت کی، اور اس کا شوہر اس سے خوش تھا، وہ جنت میں داخل ہوگئی۔ ہمارے معاشرے میں صرف شوہر کو خوش نہیں رکھنا، بلکہ پورے سسرال کو رکھنا ہے، جو کہ ناممکن ہوتا ہے، تبھی لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ بیٹا الگ گھر کا بول دے تو بس قیامت آجاتی ہے۔ تو پھر جیسے مسز خان نے کہا ہے کہ اگر لڑکی زبان پر قابو نہیں کرتی، ذمے داری نہیں لیتی تو شادی نہ کرے۔ تو میرا خیال ہے کہ وہ مرد حضرات جو چلیں الگ گھر نہ سہی کہ معاشی مسائل ہیں، تو کم از کم کچن گھر والوں سے الگ نہیں کرسکتے، تو براہ کرم شادی نہ کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے