لسڈنہ۔آوارہ بادلوں اور سر سبز چراگاہوں کی سرزمین

گزشتہ شب برادر مشتاق منہاس نے مجھ سے ایک سوال کیا کہ اکمل تم پورا پاکستان گھوم چکے ہو کوئی ایسا علاقہ بتاو جسے دیکھ کر تم حیران رہ گئے ہو کہ تم اس علاقے میں پہلے کیوں نہیں آئے اور اس علاقے کے منفرد ہونے کی وجہ بھی بتاو۔ میرا فوری جواب تھا، پنج پیر راکس۔۔۔

پنج پیر اسلام آباد سے قریباََ 60 کلو میٹر دور تحصیل کہوٹہ کا ایک تفریحی مقام ہے جہاں کا لینڈ سکیپ ایسا منفرد ہے کہ ایک بار جانے والا بار بار اس علاقے کی سیر کو جاتا ہے۔ لہتراڑ روڈ اور کہوٹہ آزاد پتن روڈ دونوں اطراف سے پنج پیر راکس کی سیر کے لئے جایا جا سکتا ہے۔ اس علاقے کی خاص بات پتھروں کی وہ فصیل ہے جسے قدرت نےہوا کی ٹھوکروں سے ایسے گول کر دیا ہے جیسا امتداد زمانہ اور خانگی ازواجی مسرتوں کے مزے لوٹنے سے مختلف احباب کا سر گول ہو جاتا ہے،۔ گھنے جنگلات اور میدان میں موجود بڑےبڑے گول پتھر ایک عجیب دلفریب منظر پیش کرتے ہیں۔

مشتاق بھائی کو جواب دیتے ہوئے میں پنج پیر راکس سے بھی زیادہ حیران کن اور خبوصورت علاقہ کا نام بتانا بھول گیا جہاں کی خوبصورتی نے ایسا جادو کیا کہ زندگی بھر اس کے سحر سے باہر نکلنا ممکن نہیں۔ ایک ایسی جگہ جہاں پر ہر آدھ گھنٹے میں موسم کچھ کا کچھ ہو جائے۔ جہاں جون کے گرم موسم میں بھی درجہ حرارت سخت جاڑوں کے موسم والا ہو۔ رات کو دو رضایاں اوڑھ کر بھی انسانی جسم کی کپکپی نا جاتی ہو۔ جہاں کی تیز ہوا جسم کے اندر ایسے گھسے جائے جیسےالہڑدوشیزہ کی سیاہ آنکھیں میرے جیسے کمزور دل والے کے دل و دماغ میں۔

سر سبز چراہ گاہوں اور آوارہ بادلوں کی گزرگاہ لسڈنہ سےپہلا گزر بھی عجیب تھا۔

ہوا کچھ یوں کہ راقم، ارتضیٰ، شہرام گل (چست پتلون) اور فیضان گل چند برس پہلے جب آتش جوان بھی تھا اور پر ہیجان بھی تھا، موٹر سائیکلوں پر سوار میڈیا ٹاون سے فارورڈ کہوٹہ کے لئے روانہ ہوئے۔موسم بالکل ایسا ہی تھا کہ کہوٹہ سے نکلتے ہی تیز بارش نے آن لیا، راستے میں ایک ہوٹل پر رک کر بارش میں بھیگے کپڑوں کو خشک کیا گیااور دوبارہ سے راولا کوٹ کی سمت روانہ ہو گئے۔ارتضیٰ موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور میرے کانوں میں نصرت فتح علی خان کی آواز "بھجی ہوئی شمع کا دھواں ہوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ہوں” کی شکل میں رس گھول رہی تھی۔ راولا کوٹ ہجیرہ، عباس پور سے ہوتے ہوئے رات گئے فارورڈ کہوٹہ ایک دوست کے گھر پہنچے اور رات وہیں پر قیام کیا۔ اگلی صبح بجائے اسی راستے سے واپسی کے ہمارے میزبان نے ہمیں مشورہ دیا کہ آپ محمود گلی سے لسڈنہ کی طرف مڑ جائیں اور باغ کے راستے سے واپس اسلام آباد جائیں۔

محمود گلی سے لسڈنہ کا فاصلہ قریباََ 12 کلومیٹر ہے اور ہم جب موٹر سائیکلوں پر سوار بادلوں کو روندھتے لسڈنہ کی طرف بڑھ رہے تھے تو تیز بارش نے آن لیا اس دوران چست پتلون کے موٹر سائیکل کی کلچ وائر ٹوٹ گئی جس کے نتیجے میں ہم آہستہ آہستہ چلتے لسڈنہ پہنچ گئے۔ شراب کی بوتل میں گر کر بھیگ جانے والے چوہے اور ہمارے درمیان انیس بیس کا فرق تھا۔ لسڈنہ پہنچے تو تیز ہوا نے استقبال کیا۔ سرد ہوا کی کاٹ اس قدر تھی کہ لگتا تھا آج شائد ہمارا جسم بھی برف کی ڈھلی میں تبدیل ہو جائے گا۔ آزاد کشمیرٹورزم ڈیپارٹمنٹ کے ریسٹ ہاوس تک پہنچتے پہنچتے کئی بار زبان کپکپاتے دانتوں کے نیچے آ کر زخمی ہو چکی تھی لیکن تکلیف کا احساس دماغ تک پہنچ نا پا رہا تھا۔ ایس کام کی ایک سم پاس تھی سو اس کے ذریعے برادر مشتاق منہاس سے رابطہ کیا اورانہیں بتایا کہ جوانی کی آگ لسڈنہ کی ٹھنڈ میں سردہوئی جا رہی ہے اور اگر اگلے دس منٹ میں ہوا سے بچنے کی سبیل پیدا نا ہوئی تو شائد سردی کی شدت عمر بھر کے لئے بہت سے جسمانی اعضاء کو ٹھٹھرا دے۔ اس ریسٹ ہاوس میں مشتاق منہاس بھائی کی بدولت سر چھپانے کی جگہ مل گئی اور رات تین تین کمبل اوڑھے گزر گئی۔ اگلی صبح براستہ باغ کوہالہ مری اسلام آباد واپسی ہوئی۔ لسڈنہ کی وہ رات آج بھی یاد آتی ہے تو دانت کپکپا اٹھتے ہیں۔

بنی منہاساں میں قیام کے دوران ہم طے کر چکے تھے کہ اس آوارہ گردی مہم کی ایک رات لسڈنہ میں گزاری جائے گی۔ صبح ناشتے کی میز پر برادر مشتاق منہاس نے لسڈنہ ریسٹ ہاوس کے کئیر ٹیکر کو ہماری آمد کی اطلاع دی اور ہم بنی منہاساں سے عازم لسڈنہ ہوئے۔ گھر سے روانگی کے ساتھ ہی ہمارے پائلٹ (جن کا فیول ختم ہو چکا تھا) نے ایک ایسے راستے پر گاڑی ڈال دی کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ دنیا گول ہے۔ لواری ٹاپ کی طرح کے راستے پر چلتے ہوئے ہم جب سدھن گلی باغ روڈ تک پہنچے تو پائلٹ صاحب اس بات کے قائل ہو چکے تھے کہ یہ راستہ وہ نہیں جس سے ہم سفر کر کے بنی منہاساں گئے تھے۔ باغ شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہماری سواری باد بہاری کی طبیعت ناساز ہوئی تو برادر ناظم اسامہ نے ثابت کر دیا کہ کارخانہء قدرت میں کوئی شے بھی ناکارہ نہیں۔ گاڑی کی شیلڈ کو تاروں سے باندھ رہے تھے کہ میں نے ریسٹ ہاوس کے کئیر ٹیکر عبد القیوم کو فون پر اپنی آمد کی اطلاع دی اور اشیاء خورد نوش کی دستیابی کے حوالے سے استفسار کیا، جب انہوں نے بتایا کہ باورچی خانہ تو آپریشنل ہے مگر رسد کی ضرورت ہو گی تو باغ شہر سے کوفتے، ادرک، پیاز، لہسن، سبزمرچ، دھنیا، مصالحہ جات، انڈے اور انڈے کو تخلیق کرنے والی مرغیوں کا گوشت خرید کیا گیا۔ مرغی سے برادر ناظم اسامہ کی محبت ایسے ہی ہے جیسے کوے کی غلیل سے۔ مگر ہم ناہنجاروں کے ستم کا شکار ہو کر وہ خاموش رہے۔ رسد کے اکٹھا کر لینے کے بعد کوئلوں کی خریداری کا مرحلہ بھی منہ کالا کیے بغیر سرانجام پا گیا۔

باغ شہر سے لسڈنہ کا فاصلہ قریباََ 28 کلو میٹر ہے جس میں سے آدھا راستہ تو پختہ ہے بقیہ آدھا راستہ زلف یار کےپیچ وخم کی مانند گھومتا گھماتا لسڈنہ کی جانب بلند ہوا جاتا ہے۔ بلندی کے جانب سفر کرتے ہوئے ان پتھروں پر سواری کے ہر جوڑ سے مختلف آوازیں برآمد ہو رہی تھیں۔رخ یار کی زیارت کے لئے کئے گئے اس سفر کے دوران ہمارے جسم کے مختلف کونوں سے بر آمد ہونے والی آوازوں کی کہانی پھر کبھی سہی۔قریباََ ایک گھنٹے کے جھٹکے(نیم پختہ سڑک کی بدولت) برداشت کرنے کے بعد ہم لسڈنہ پہنچے تو عبدالقیوم ہمارا منتظر تھا۔

لسڈنہ، ضلع باغ کا ایک چھوٹا سا گاوں ہے اور ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کا ریسٹ ہاوس ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنایا گیا ہے جس کی ایک سمت عباس پور کا علاقہ نظر آتا ہے تو دوسری جانب درہ حاجی پیر۔ ریسٹ ہاوس تین کمروں پر مشتمل ہے جس میں چھ سے آٹھ افراد رات گزار سکتے ہیں۔ سردی زیادہ ہو تو یہ تعداد اٹھارہ بیس بھی ہو جائے تو کم لگے گی۔ لسڈنہ ریسٹ ہاوس کے بستر اور کمبل شاید وہی ہیں جو تعمیر کے وقت خریدے گئے تھے۔ لیکن لسڈنہ کے مقام پر چھت اور دیواریں وہ نعمت ہیں جن کی موجودگی میں باقی نعمتوں کا نا ہونا قربان کیا جا سکتا ہے۔ ریسٹ ہاوس ایک میدان کے کونے پر بنایا گیا ہے جس کے ساتھ باغ پولیس کا وائرلیس مرکز اور ایس سی او کا ایک اسٹینشن بھی ہے۔

تا حد نظر سبزہ اپنے جوبن پر اور پہاڑوں کے سینے میں پیوست چیڑ کے درخت آوارہ بادلوں کے نرغے میں گھرے یوں نظر آرہے تھے جیسےکہ رضیہ بیچاری اکمل شہزاد گھمن جیسے آوارہ غنڈوں کے غول میں پھنس جائے۔ برادر رضوان اور ناظم اسامہ کو بتا دیا کہ حرام سور ہو جو میں اب واپسی کے سفر سے پہلے ریسٹ ہاوس کی حدود سے باہر نکلوں۔ کوفتوں کا سالن پکایا اور لسڈنہ کے واحد ہوٹل سے روٹیاں منگا کر ان کوفتوں کو دوبارہ قیمے کی شکل دے دی گئی۔کافی کا مگ لئے کرسی پر نیم دراز ہو کر کیمرہ اور لیپ ٹاپ سامنے میز پر رکھ لیا۔ سہ پہر کے وقت عباس پور کی جانب سے بادلوں نے درہ حاجی پیر کی جانب آوارہ گردی کا منصوبہ بنایا۔ کیوں کہ درمیان میں ہماری قیام گاہ یعنی یہ ریسٹ ہاوس پڑتا تھا تو بادلوں نے تیزی سے سورج کی روشنی کو ہم تک پہنچنے سے روک دیا۔
پندرہ منٹ کی ناکہ بندی کے بعد بادل کھل کر برسے اور سبز گھاس کا رنگ اور سبز ہو گیا۔ قریباََ 25 منٹ بارش کے بعد مطلع صاف ہو گیا اور تیز دھوپ میں پوری وادی نہا کر ہمارے سامنے موجود تھی۔ کیمرہ حرکت میں آیا اور وادی کے حسن کو محفوظ کرتا گیا۔ لسڈنہ سے ایک جیپ روڈ درہ حاجی پیر کی سمت جاتی ہے تو دوسرا راستہ محمود گلی کی جانب نکل جاتاہے۔ بادلوں سورج اور وادی کی یہ آنکھ مچولی مغرب سے آدھ گھنٹا پہلے ختم ہوئے۔ چند بھٹکے بادلوں سے چھن کر آنے والی روشنی میں وادی کا حسن حسین تر ہوتا جا رہا تھا۔ بادل کبھی تو کسی درخت کا روپ دھار لیتے اور کبھی کسی الہڑ دوشیزہ کا۔ اس آنکھ مچولی میں کب اندھیرا چھایا پتا بھی نا چلا۔

شام ہوتے ہی فیصلہ کیا گیا کہ جلد از جلد مرغی کے گوشت کو کوئلوں کی آگ میں بھون کر اس کے منطقی انجام تک پہنچا یا جائے لیکن ہمارے داروغہ مطبخ نے اطلاع دی کہ پولیس وائرلیس سینٹر پر ایک انگیٹھی ہے جس کا انتظار ہمیں اس سرد موسم اور کھلی ہوا میں کوئلوں کے گرد بیٹھنے سے بیمار ہونے کے خطرات سے بچا لے گا۔ شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک انگیٹھی کے انتظار میں بیٹھے رہے کیوں کہ اس انگیٹھی پر پولیس والوں کے کچھ مہمان ایک انتہائی ڈھیٹ بزرگ بکرے کا گوشت گلانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ ڈھیٹ بزرگ بکرے کا تعلق بھی غالباََ ہمارے ہاں چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے والے ان جگادریوں کے گروہ سے تھا جو اپنے اسلاف کی نیک کمائی کو اپنے ڈھیٹ پن کی نذر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

خیر بھلا ہو ان پتھروں کا جن کے چولہے پربزرگ بکرے کا گوشت گلانے کا عمل منتقل کیا گیا اور مرغ کا گوشت دہکتے کوئلوں کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ تاروں بھرے آسمان کے نیچے کوئلوں کی آگ مرغ کے گوشت کو پگھلا رہی تھی تو دوسری جانب سرد ہوا ہمارے پشت مبارکہ کو جمانے کی کوششوں میں مصروف تھی۔آگ اور سردی کی اس لڑائی میں میدان جنگ ہماری پشت مبارکہ تھی۔ کمبل میں لپٹے احباب مرغ کی منتوں میں مصروف تھی کہ جلد از جلد کباب کی شکل اختیار کر لے سو اس کو کھانے کے بعد بستر میں گھسا جا سکے، آوارہ بادل بھی ہمارے دشمن ہو رہے تھے لیکن تاروں اور بادلوں کی اس آنکھ مچولی میں مرغ شدت جذبات سے جل بھن گیا اور جلدی جلدی اس کو کھانے کے بعد برادر رضوان سعید کمبل سمیت کمرے میں روانہ ہو گئے جب کہ میں اور ناظم اسامہ کیمرا اٹھائے تاروں کی گزرگاہ کی تلاش میں مگن ہو گئے۔

کہکشاں اور عباس پور شہر کی روشنیوں کو کیمرے میں محفوظ کیا اور پھر مختلف اطراف سے کہکشاں پکڑتے رہے۔رات کے آخری پہر ٹھٹھرتے ہاتھ اور پاوں لئے کمرے میں واپسی کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ برادر ناظم اسامہ کی چھٹی حس نے انہیں خبر دار کیا کہ ارد گرد کہیں شیر ہے۔ جب میں ان کے اس واہمے پر قہقہے لگا رہا تو اس دوران ایک سمت سے ایک چوپایا نمودار ہوا جب کہ دوسری جانب دل کی دھڑکن دھک دھک کا ساز بجا رہی تھی۔ خیر تھوڑا غور کرنے پر پتا چلا کہ وہ پولیس کا محافظ کتا ہے۔

اگلی صبح علی الصبح گیارہ بجے آنکھ کھلی تو 11سیکریٹریوں کا ایک جم غفیر لسڈنہ پر حملہ آور ہو چکا تھا۔ ایک جج صاحب بھی گزرتے گزرتے شامل باجا ہو چکے تھے۔ اٹھ کر باورچی خانہ کا رخ کیا اور آلو انڈے کے باہمی تعلق سے ایک ایسا سالن تیار کیا گیا جس کو پراٹھوں کے ساتھ کھا کر دن بھر کی بھوک کا خاتمہ ممکن ہو گیا۔لاٹ بہادر اور ان کے لشکریوں کی آمد و رفت اور ناز برداریاں دیکھ کر تو گمان ہو رہا تھا کہ ابھی ظل سبحانی کا مزاج بگھڑ گیا تو ایک آدھی گردن اتر جائے گی۔

واپسی کا سفر محمود گلی عباس پور ہجیرہ راولا کوٹ اور کہوٹہ کے راستے طے ہوا جو کہ زیر تعمیر ہے۔ موسم کے بہتر ہونے کی وجہ سے سفر کی تھکاوٹ قدرے کم رہی لیکن پھر بھی راولا کوٹ تک کا چار گھنٹے پر محیط سفر جسمانی اعضاء کو ہلاتا جھلاتا رہا ۔ کھائ گلہ سے بنجوسہ جھیل کی جانب جانے کا پلان تھا لیکن پھر پائلٹ صراط مستقیم سے بھٹک گیا۔ غالباََ راولا کوٹ شہر سے واپسی ہوئی بنجوسہ کے لئے۔

جب بنجوسہ جھیل پر پہنچے تو گمان ہوا کہ پورا کشمیر بنجوسہ جھیل کے دیدار اور گندگی کی پھیلاو کی مہم میں شریک ہونے پہنچا ہوا ہے۔ طرح طرح کی بدبوئیں جسم و جاں کو ایسے معطر کررہی تھیں کہ سانس لیتے ہوے گمان ہو رہا تھا کہ کسی گندگی کے ڈھیر پر آ بیٹھیں ہوں۔ 15 منٹ کی خواری کے بعد بنجوسہ سے واپسی کا سفر شروع کر تے ہوئے اس ذلت کا ذمہ ایک دوسرے کو قرار دینا شروع کر دیا۔ موتی نما اس وادی راولا کوٹ سے اسلام آباد کا سفر زیر تعمیر سڑک کی وجہ سے ساڑھے تین گھنٹے پر محیط تھاجس کو طے کرتے ہوئے لسڈنہ اور بنی منہاساں کی سرد شاموں کی بہت یاد آئی۔

[pullquote]بنیادی معلومات:[/pullquote]

باغ سے لسڈنہ کا فاصلہ: 28کلو میٹر

باغ سے لسڈنہ تک سفر کا دورانیہ: ایک گھنٹا

[pullquote]پبلک ٹرانسپورٹ:[/pullquote]باغ سے محمود گلی اور فارورڈ کہوٹہ جانی والی فلائنگ کوچ اور ٹیوٹا ہائی ایس کے ذریعے لسڈنہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔

[pullquote]موسم:[/pullquote] دن میں خوشگوار اور رات میں انہتائی سرد۔ دن میں اگر بارش ہو جائے تو اس کے بعد چلنے والی تیز سرد ہوا بہت خطرناک ہے۔ بارش بہت زیادہ ہوتی ہے تو کوشش کریں کے برساتی ضرور ہو آپ کے ساتھ، دسمبر اور جنوری میں راستہ بند ہو جاتا ہےلیکن جیپ کے ذریعے لسڈنہ پہنچا جا سکتا ہے۔ باقی دس مہینے آرام سے سفر کیا جا سکتا ہے۔

[pullquote]کپڑوں کا انتخاب:[/pullquote] بھول جائیں کہ آپ اپنے شہر میں کتنی گرمی برداشت کر رہے ہیں۔ باغ شہر سے نکلتے ہیں موسم بہتر ہونا شروع ہو جائے گا اور لسڈنہ کے مقام پر آپ کو لازماََ گرم کپڑوں کی ضرورت پڑھے گی۔

[pullquote]رہائش:[/pullquote] آزاد کشمیر ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا ایک ریسٹ ہاوس جس کے تین کمرے ہیں۔ کوشش کریں کہ سلیپنگ بیگ آپ آپنا ساتھ لے کر جائیں۔ریسٹ ہاوس مین بکنگ ایڈوانس میں کروا لیں۔ ایک پرائیویٹ ہوٹل بھی ہے جس کا معیار کو ئی اتنا اچھا نہیں۔

[pullquote]اشیائے خورد و نوش:[/pullquote] کوشش کریں کے پانی اور اشیائے خورد نوش باغ یا محمود گلی سے لے کر چلیں اور عبدالقیوم سے بات کرلیں کے باورچی خانہ کی کیا صورت حال ہے۔ تمام بنیادی برتن اور سہولیات ریسٹ ہاوس کے کچن میں موجود ہیں۔

[pullquote]موبائل فون:[/pullquote] ٹیلی نار اور ایس کام کے موبائل کنکشن لسڈنہ میں کام کرتا ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے