مسئلہ کشمیر: اقوام متحدہ کے پاس کتنا اختیار ہے؟

1947 میں تقسیم برصغیر کے بعد پیدا ہونے والے تنازع جموں و کشمیر کے حل کو لے کر یوں تو اب تک بے شمار معاہدے، قراردادیں، سفارتی، سیاسی، عسکری ہر طرح کے آپشن استعمال ہوتے رہے ہیں، اسی مسئلہ جموں و کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں اور ممکنہ طور پر چوتھی ایٹمی جنگ کے بادل بھی ہر وقت سر پر منڈلاتے رہتے ہیں۔

5 اگست کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین ہند کے آرٹیکلز 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد سے ایک بار پھر غیر یقینی کی صورتحال بنی ہوئی ہے، ایک طرف جہاں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ ہوچکا ہے وہیں دوسری طرف سیز فائر لائن پر آئے روز آتش بازی کا ماحول رہتا ہے، سفارتی، سیاسی محاذ پر بھی دونوں ملک سرگرم ہیں۔

1947 سے جاری اس سارے عمل میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام (آزاد کشمیر) کی طرف مسئلہ کشمیرپر جو مشترکہ بیان رہا ہے وہ ہے "مسئلہ جموں و کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ہی ممکن ہے ”
مسئلہ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ میں متعدد قراردادیں منظور ہوچکی ہیں لیکن مسئلہ جموں و کشمیر جوں کا توں ہے۔

مسئلہ جموں و کشمیر اور اقوام متحدہ

مسئلہ جموں و کشمیر یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 6 کی دفعہ 35 کے تحت سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا اور جنوری 1948 میں مسئلہ جموں و کشمیر پر سلامتی کونسل میں پہلی قرارداد منظور ہوئی اس کے بعد سے قراردادوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ،اس سلسلے میں منظور ہونے والی اہم قراردادیں درج ذیل ہیں:

17 جنوری 1948 ،قرارداد نمبر 38

اس قرارداد میں کہا گیا کہ مسئلہ جموں و کشمیر سلامتی کونسل میں زیر غور ہے، کشمیر کی کشیدہ صورتحال پر پاکستان اور ہندوستان کے نمائندگان ایسے بیانات دینے سے پرہیز کریں جن سے کشیدگی میں اضافہ ہو۔

20 جنوری 1948 ،قرارداد نمبر 39

اس قرارداد میں مسئلہ کشمیر پر اہم پیش رفت ہوئی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تین رکنی یونائٹڈ نیشن کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان(UNCIP) بنایا گیا، کمیشن میں ایک رکن پاکستان ،ایک ہندوستان اور ایک دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی سے منتخب کرنے کی اجازت دی گئی، کمیشن کا کام سلامتی کونسل کو سفارشات پیش کرنا تھا ۔

21 اپریل 1948 ،قرارداد نمبر 47

کمیشن کے اراکین کی تعداد بڑھا کر پانچ کردی گئی۔
1.ارجنٹائن کے ڈاکٹر ریکارڈوجے سری (پاکستان کا نامزد کردہ)
2 ۔ چیکو سلاواکیہ کے جوزف کاربیل (بھارت کا نامزد کردہ)
3 ۔ بیلجیئم کے آیگرٹ گرایفے۔4 ۔ کولمیا کے ابزٹوجی فرینڈ ہنر۔
(5 ) امریکہ کے جے ہڈل کمیشن کے رکن بنے ۔

کمیشن کو ہدایات کی گئیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن کی فضا بحال کرائے۔
اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جموں و کشمیر میں استصواب رائے کے لیے انتظامات کرے۔
پاکستان اپنے شہریوں کو جموں و کشمیر سے واپس بلائے ۔
ہندوستان اپنی فوج میں مرحلہ وار کمی کرے اور صرف اتنی فوج رکھے جتنی امن و امان کے لیے ضروری ہے ۔
دونوں ملک اس بات کو یقینی بنائیں کہ جموں و کشمیر کا فیصلہ وہاں کے لوگوں کی مرضی سے استصواب رائے دہی کے ذریعے کیا جائے ۔

3 جون 1948 ،قرارداد نمبر 51

یو این سی آئی پی کو کہا گیا کہ قرار داد نمبر 47 میں کونسل کی طرف سے کی جانے والی ہدایات پر عمل درآمد کروائے۔

*13 اگست 1948 ،یو این سی آئی پی (UNCIP) کی قرارداد

پاکستان ریاست سے اپنی فوج کے مکمل انخلا کرنے کا پابند ہوگا اور انتظام مقامی انتظامیہ سنبھالے گی

بھارت اپنی بیش تر فوج "Bulk of its forces”ریاست سے نکالنے کا پابند ہوگا، صرف اتنی فوج رکھنے کی اجازت ہوگی جتنی امن و امان کے لیے ضروری ہے ۔

ریاست جموں وکشمیر کا مستقبل اہل ریاست کی مرضی سے طے کیا جائے گا۔ آزادانہ اظہار رائے عامہ کیلئے مطلوبہ منصفانہ اور مساویانہ حالات کا تعین کمیٹی سے مشورہ کے بعد کیا جائے گا۔

5 جنوری 1949 ،یو این سی آئی پی (UNCIP) کی دوسری قرارداد

دونوں ممالک جنگ بندی پر قائم رہیں گے۔
قبائلیوں اور پاکستانی شہریوں کو جو جنگ کی غرض سے کشمیر میں ہیں ،سب سے پہلے واپس آنا ہوگا۔
پاکستانی افواج اورہندوستانی افواج کے بیشتر حصہ کا ریاست سے بیک وقت انخلا ہوگا۔
ریاست کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے دہی سے طے کیا جائے گا۔

14 مارچ 1950سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 80

دونوں ممالک کو جنگ بندی اور جموں و کشمیر کو فوج سے پاک رکھنے کا کہاگیا۔
کنٹرول لائن سے دونوں ممالک فوجیں پیچھے ہٹائیں۔
شمالی علاقہ جات کو اقوام متحدہ کے کنٹرول میں دیا جائے گا۔
استصواب رائے کے انعقاد کے لیے نمائندہ اقوام متحدہ کی طرف سے منتخب کیا جائے گا۔

10 نومبر 1951،قرار داد نمبر 96

سر اوون ڈکسن کے متبادل اقوام متحدہ کے نمائندے فرینگ گراہم نے اپنی رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ کے مطابق :
ہندوستان اور پاکستان کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر رضامند ہیں۔
دونوں ممالک مسئلہ جموں وکشمیر کو باہمی رضا مندی سے حل کرنے اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی میں استصواب رائے کے قیام پر رضا مند ہیں۔

23 دسمبر 1952،قرارداد نمبر 98

ہندوستان اور پاکستان ایک خاص تعداد میں اپنی فوجیں ایل او سی پر رکھ سکتے ہیں۔
پاکستان کو 3000 سے 6000 فوجی رکھنے کی اجازت ہوگی۔
ہندوستان کو 12000 سے 18000 فوجی رکھنے کی اجازت ہوگی۔

24 جنوری 1957،قرارداد نمبر 122

آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی قانون ساز اسمبلی متنازع جموں و کشمیر کے مستقبل سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔
سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 91 کے مطابق جموں و کشمیر کا علاقہ متنازع ہے۔

ان اہم قراردادوں کے علاوہ سلامتی کونسل میں ہندوستان ، پاکستان کے مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل میں قراداد نمبر 123،126،209،210،211،214،215،307،1172 منظور ہوچکی ہیں جن میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مختلف تجاویز آتی رہیں مگر عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔

۔
کیا اقوام متحدہ کے پاس اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کا اختیار ہے؟

مسئلہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 6 کی دفعہ 35 کے تحت سلامتی کونسل میں ہے ۔
چیپٹر 6 کی دفعات 33 سے 38 کے مطابق اقوام متحدہ کسی بھی مسئلہ پر فریقین کو سیاسی اور اخلاقی طور ہدایات دے سکتی ہے اور تنازعات کے حل کے لیے باہمی اور دوطرفہ مذاکرات پر زور دیا جاتا ہے۔

متعلقہ فریقین میں سے اگر کسی ایک کی بھی مرضی کے خلاف کوئی بات ہو تو فیصلہ نہیں دیا جاسکتا ۔

اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کرسکتا ۔

اس لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی موجودہ صورتحال میں حیثیت اس کتاب کی سی ہے جس کے کور پر اس کے مصنف کا نام تو سلامت ہو لیکن کتاب کے اندر اسکی تحاریر مٹ چکی ہوں۔

حل کیا ہے؟

اقوام متحدہ کے ذریعے مسئلہ جموں و کشمیر کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مسئلہ جموں و کشمیر کو سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 7 کے تحت اٹھایا جائے ۔

پاکستان اور ہندوستان دونوں کے جوہری طاقت ہونے کی وجہ سے مسئلہ جموں و کشمیر جنوبی ایشیاء میں ایٹمی فلیش پوائنٹ بن چکا ہے جس کی وجہ سے جنوبی ایشیاء سمیت عالمی امن کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹس سمیت متعدد رپورٹس موجود ہیں ۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 7 کی دفعات ( 39 تا 50) کے تحت عالمی امن کو خطرہ کے پیش نظر سلامتی کونسل کو کاروائی کا اختیار حاصل ہے ۔کسی ملک کی جارجیت کے خلاف سلامتی کونسل کو از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے ۔سلامتی کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی ملک کی رضامندی کے بغیر بھی اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے کاروائی کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ بوسنیا اور مشرقی تیمور کا مسئلہ بھی چارٹر کے چیپٹر 7 کے تحت ہی حل ہوا تھا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے