مولانا ڈاکٹرحبیب اللہ مختار:ہم نہیں بھولے!

یہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کاانتخاب ہی تھاکہ ایک شخص میں اس قدرصفات جمع فرمادیں،جن کااس قحط الرجال کے دورمیں کسی ایک شخص میں تلاش کرناجوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔مولاناڈاکٹرمحمدحبیب اللہ مختار ایک کامل انسان تھے،جنھیں کراچی کی سرزمین پر دن دھاڑے 2نومبر1997کوبڑی سفاکی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔اس احسان ناشناس قوم نے ایک ایسے عالم وفاضل کو بھی فرقہ وارایت کی بھینٹ چڑھانے سے گریز نہ کیا،جس کا فرقہ واریت سے دورکا بھی کوئی تعلق نہ تھا،جس کے دوراہتمام میں مدرسے کے سامنے سے اہل تشیع کے ماتمی جلوس کو گزرنے کی کھلی اجازت تھی،جواتحادبین المسلمین کا زبردست داعی ومناد تھا،وہ ایک زاہد خشک نہیں ،ایک زیرک وداناعالم تھا،جس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا۔

ان کی صفات کوچند لفظوں میں بیان کرنامشکل ہے،وہ ایک قابل عالم ومفتی ، ایک لائق گریجویٹ اورپی ایچ ڈی ہولڈر، کامیاب مدرس ، مثالی منتظم،صاحب ِنسبت ولی اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری طرف زمانے کی نبض سے بھی واقف وآگاہ ایک بیدارمغزمنتظم بھی تھے۔ان کاایک خاص وصف یہ بھی تھاکہ وہ اہل لسان

ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید
ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید

بھی تھے اورعربی میں مہارت بھی انھوں نے اہل لسان ہی سے حاصل کی تھی،یوں ان کے تراجم میں دونوں زبانوں کی جوجامعیت،ادبی چاشنی اورجاذبیت نظرآتی ہے،وہ اس میں بلاشبہ یکتائے روزگارتھے۔ان کے قلم معجزرقم سے ہونے والاعربی سے اردوکاترجمہ پڑھنے والاقاری ہویااردوسے عربی ترجمہ پڑھنے والاکوئی صاحب ِذوق ہو،وہ ان کی تحریرکے سحرمیں یوں کھوجاتاتھا،کہ اسے ترجمے کاگمان بھی نہیں ہوتاتھا۔

وہ ایک انتہائی اصول پسندمنتظم ومہتمم تھے،آپ خوداندازہ لگاسکتے ہیں،اس شخص کے اختیارات کاکیاعالم ہوگاجوبیک وقت ملک کے سب سے بڑے امتحانی بورڈ وفاق المدارس العربیہ کابھی ناظم ِاعلیٰ ہواورایک معتبر ترین دینی تعلیمی ادارے کابھی مہتمم،مگراس سب کے باوصف ان کی دوخوبیاں ایسی ہیں،جن کوسامنے رکھ کرحدیث نبوی علیٰ صاحبھاالصلوٰة والسلام میں بڑوں کے احترام اورچھوٹوں اورماتحتوں پرشفقت کی تعلیم کازندہ نمونہ سامنے آتاہے۔

اس قوم پرسوائے حسرت وافسوس کے کیاکیاجاسکتاہے،جس نے اس ہیرے کی قدرنہ کی،مفادات کے اسیروں کی نظرصرف اپنے مفادات پرہوتی ہے،خواہ اس کی بڑی سے بڑی قیمت ہی کیوں نہ دینی پڑے۔قارئین امریکی سفیرکے وہ الفاظ یقیناًنہ بھولے ہوں گے جواس نے ایمل کانسی کی حوالگی پرکہے تھے کہ یہ پاکستانی اپنے مفادات کے لیے اپنی ماں بہن تک غیروں کے حوالے کرنے سے نہیں چوکتے،تب اس قوم کی رگوں میں کچھ خون تھا،سویہ جملہ بہت برامحسوس کیاگیا،لیکن جب ایک مطلق العنان آمرنے قوم کی آبروعافیہ صدیقی کودشمن کے حوالے کیاتواس قوم کوپتابھی کئی برس گزرنے کے بعدچلا،مردہ قوم کی رگوں میں حمیت کاخون نہ دوڑا،یہاں تک کہ اس مظلوم دخترِپاکستان کواسی برس کی قیدبھی سنادی گئی اورنہ کوئی امکان ہے۔

اس قوم کی مردہ نبضوں میں احساس کوزندہ کون کرے
جس خون سے قومیں بنتی ہیں اس خون کاسوداکون کرے

ان کے قتل کے محرکات جاننے کے لیے ہمیں 1997کی سیاسی صورت حال پر نظر ڈالنی ہوگی۔1997 ء میں عرصہ دراز کے تجربات و مشاہدات کے بعد پاکستانی قوم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت کو اتنا بھاری مینڈیٹ دیاتھا اور سیاسی عدم استحکام کی جڑ کاٹ دی تھی۔ ہر وقت کی سیاسی رساکشی اور لوٹا کریسی کا خاتمہ ہواتھا۔ حکومت نے آہستہ آہستہ اپنے قدم مضبوط کرکے وطن عزیز کی ترقی کیلئے کام کا آغاز کردیا تھا،لیکن ملک دشمن عناصر نے ایک نئی پالیسی اختیار کی اور امن عامہ کو تباہ کرنے کی کوششیں شروع کردیںاور نومنتخب حکومت کے ابتدائی ایام میںہی ملکی تاریخ کے متعدد خوف ناک سانحات پیش آئے۔ ان واقعات کے ذریعے مصنوعی فرقہ واریت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب مذہبی حلقوں نے دہشت گردی کے ان واقعات کے باوجود کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کیا اور ملک بھر کی مذہبی فضا کو زہر آلود ہونے سے بچالیااور مختلف مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے بھی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے فوراً عوام کی راہ نمائی کی اور حکومت کو دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے تعاون کا یقین دلایا،

ملک دشمن عناصرنے اپنی چالوں کویوں ناکام اورکوششوں کویوں رائیگاں جاتے دیکھاکہ ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے ملک میں امن و امان برباد کرکے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہوگئے، یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ کراچی میںجامعہ بنوری ٹاؤن کی گاڑی پرحملہ کرکے مولاناڈاکٹرمحمدحبیب اللہ مختاراوران کے دست ِراست مفتی عبدالسمیع کوبدترین دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا،سفاکی کی انتہایہ تھی کہ ان دونوں حضرات کوشہیداوران کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے دوسرے حضرات کوشدیدزخمی کرنے پربھی سفاک قاتل کاجوش ِدرندگی وجذبہ درندگی سردنہ ہوا،بلکہ گاڑی پرآتش گیرمادہ پھینک کرگاڑی کوبھی خاکسترکردیاگیا،اس کے اسباب وعوامل کچھ بھی ہوں،پشت پناہی کرنے والی قوت کوئی بھی ہو،استعمال ہونے والاہاتھ کسی کابھی ہو،مگریہ طے شدہ بات تھی کہ اس درندگی وسفاکی کابنیادی مقصد ملک میں لوگوں کو مذہبی دہشت گردی کی بنیاد پر سڑکوں پر لاناتھا،اس کے لیے کراچی کاانتخاب کرنے والے اس شہرکی اہمیت سے بہ خوبی واقف تھے کہ ملک کاسب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے یہاں آنے والاعدم استحکام بہت جلدپورے ملک کواپنی لپیٹ میں لے لیتاہے،یہاں کی بدامنی کے اثرات چشم زدن میں ملک بھرتک پھیل جاتے ہیں اوریہاں کی اقتصادی ومعاشی ناہم واری پورے ملک کااقتصادی ومعاشی پہیہ جام کرکے رکھ دیتی ہے۔علمائے کرام اورمذہبی طبقے کی دوراندیشی نے اس سازش کوبھی ناکام بنادیااورملک دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل نہ کرسکا،لیکن انیس سال گزرنے کے باوجودقاتلوں کوتختہ دار تک نہ پہنچایاجاسکا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے