نامزد صدر آزادکشمیراور تاریخ کاگُھن چکر

مسعود خان کو آزاد کشمیر کے صدر نامزد کیا گیا ہے . ان کی آئینی وقانونی جوازیت اور ریاست کے مستقبل پر عوام کی طرف سے کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ ایک صحافی دوست عابد خورشید نے مسعود خان کی صدر آزاد کشمیر نامزدگی پرفیس بک پر لکھا کہ ’’ آزادکشمیر میں فیصلہ ساز قوت (مری والے)جیت گئی،میرٹ اور آئین ہار گیا‘‘۔ سئینر صحافی عارف بہار کا کہنا تھا کہ ”اتفاق میں برکت ہے”آزادکشمیر کے صدر کے لئے مسعودخان کے نام پر اتفاق راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان بہت سے معاملات پراتفاق ہوجانے کا اشارہ ہے‘‘ اور سید نذیر گیلانی نے آزاد کشمیر کے آئینی عہدے پر مسعود خان کی نامزدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ’’ مسعود خان کی عالمی سطح پر پہچان ایک پاکستانی سفارت کار کی ہے۔ سیاسی مزاج اور تربیت بمقابلہ سفارتی مزاج اور تربیت دو الگ حقیقتیں ہیں۔ کیا اقوام عالم یہ سوال اٹھائیں گے کہ 2016ء میں بھی آزاد کشمیر کے 45 لاکھ اور بیرون کشمیر رہنے والے 15لاکھ کشمیریوں میں کوئی ایسی شخصیت نہیں تھی جو اس منصب کی معتبریت برقرار رکھ سکتی تھی۔ بحیثیت سفارت کار مسعود خان ان سفارت کار وں کی فہرست میں شامل رہے ہیں جنہوں نے حق فرمانبرداری ادا کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے 4 نکات اپنی نوکری کا ایمان بنائے اورمشرف دور میں یہ سفارت کار حق خودارادیت اور اقوام متحدہ کی قرار داد وں سے دستبردار ہوئے تھے اور اس دست بردار ی میں کچھ کشمیریوں کو بھی شامل کیا تھا‘‘۔

اسی طرح آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے والے کئی دوستوں کی طرف سے کئی خدشات کا ذکر ہوتا رہا ، جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ اقتصادی راہداری میں ہونے والی پیش رفت،اخباری خبروں کے مطابق چین کا گلگت بلتستان کو لیز پر مانگنے کا نیا مطالبہ ،گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر کسی نئی متوقع پیش رفت ہونے کے خدشات بھی عوام کی طرف سے سامنے آ رہے ہیں۔

ایک طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ مسعود خان کے صدر بننے سے مسئلہ کشمیر پر پیش رفت ہو گی تو ایک سوال سامنے آتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کی حیثیت سے تین سال تک رہے اور کوئی پیش رفت ممکن نہ ہو سکی . ایک بار بھی کوشش نہ کی گئی کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 6 سے چیپٹر 7 کے تحت لایا جائے تا کہ کوئی پیش رفت ممکن ہو سکے بلکہ یہاں تک کہ مشرف فارمولا پیش ہوتے ہی وہ اس مسئلے سے دستبردار ہونے کی تیاری کر گئے تھے (بے شک مشرف کا چار نکاتی کشمیر فارمولا مسئلہ کاایک عمدہ حل ہے تا ہم کسی بھی نئی تجویز کے سامنے آنے کے ابتدائی اسٹیج پر بنیادی موقف سے دستبرداری کی مثال کئی طرح کے سوالات کو جنم دیتی ہے )۔

اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً مخصوص بلز پر دستخط وغیرہ وغیرہ ایسے معاملات ہیں جن کو ملا کر تجزیہ کیا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فیصلہ ساز قوتیں اس وقت آزاد کشمیر کا میدان سیاسی لوگوں کے لیے کُلی طور پر کھلا کبھی نہیں چھوڑ سکتیں۔ یہ ان کے ہاں طے ہے اور وہ ہر حال میں اس میدان میں اپنا گھوڑا رکھنا چاہتے ہیں اور اب کی بار ان کے پاس مسعود خان سے بہتر کوئی اور آدمی نہ تھا۔جہاں تک اس فیصلے کی آئینی حیثیت کا تعلق ہے تو باخبر لوگ کہتے ہیں کہ وہ سب پیچیدگیاں کسی ایک صدارتی آرڈینیس کی مار ہیں۔ تادم تحریر اپنا خیال یہی ہے کہ مسعود صدر بن جائیں گے لیکن مورخ کل لکھے گا کہ اس فیصلے کے خلاف بہت سے لوگوں نے آواز بلند کی تھی۔ وفاقی حکومت اور مقتدر قوتوں کے اتفاق کے نتیجے میں‌سامنے آنے والا یہ فیصلہ اگر سو فی صد درست ہوتا تو اتنے بڑے پیمانے پر اس پر حرف گیری ہر گز نہ ہوتی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کشمیری محکوم ہونے کے باوجود بالکل آزاد اورخودمختار قوم جیسا رویہ اپنا رہے ہیں تو ان تلخ حالات کے باوجود اس رویے کو کشمیریوں کے بیدار اور حساس ہونے سے تعبیر کیا جانا چاہیئے۔ باقی مسعود خان کے لیے اچھی تمنائیں ہیں اگر وہ کشمیریوں کے خدشات کو اپنی کاوشوں سے غلط ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

گو کہ مسعود خان کی نامزدگی کی حمایت کرنے والوں کا موقف کافی حد تک موجودہ زمینی حقیقتوں سے لگا کھاتا ہےلیکن ان کا یہ کہنا کہ (محض وفاقی حکومت یا اداروں کی جانب سے )مسعود خان کا منتخب ہونا کشمیرکی سفارتی سطح پر جدوجہدکے لیے موثر ہو گا اس سے مکمل اتفاق نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ فیصلہ اس ضرورت کے تحت نہیں کیا گیا چونکہ فیصلہ کرنے والوں کی مسئلہ کشمیر کے بارے میں سنجیدگی کا اندازہ لگانے کے لیے گزشتہ 70 برسوں کی تاریخ کافی ہے۔ سادہ سی بات جو ہم سمجھتے ہیں اور جسے عارف بہار نے کھلے الفاظ میں لکھا وہ یہ ہے کہ مسعود خان کا آنا پنڈی اور اسلام آباد کی ڈیل ہے کیونکہ اس الیکشن میں ماضی کے برعکس فیصلہ کرنے والی قوتوں کو توقع کے مطابق حصہ نہیں مل سکا تھا۔ اسے بدقسمتی کہیں یا اس کے لیے کوئی اور عنوان تجویز کریں بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اب فیصلہ کرنے والے اس سے کم پر کبھی راضی نہیں ہو سکتے تھے سو وفاق (نواز شریف) کو دل بڑا کرنا پڑا اور فاروق حیدر کو دو دن قبل چوہدری غلام عباس کے مزار پر فاتحہ کے بعد دیے جانے والے اپنے بیان پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

فاروق حیدر کے بیان پر گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مظفر آباد میں پیش آنے والے حادثات یاد آ رہے ہیں . ہوا کچھ یوں کہ ن لیگ نے اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی امیدوار کو ووٹ دیا۔نا اہل قرار دیے گئے اسپیکر سے تمام اسمبلی ممبران کا حلف لیا۔نو منتخب رکن اسمبلی شازیہ اکبر کے خلاف نا اہلی کا ریفرنس دائر ہوا۔چار غیر سیاسی خواتین ممبر اسمبلی منتخب ہو گئیں جن میں سے ایک محترمہ کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آزاد کشمیر کے اضلاع کتنے ہیں۔ٹیکنوکریٹ کی سیٹ کی کہانی تو اور بھی دلچسپ ہے (جماعتی بھائی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اس لئے کچھ نہیں لکھتا)۔

فاروق حیدر کا اسمبلی کو کوٹھا کہنے والی بات بہت یاد آئی لیکن تفصیل اس لئے لکھناغیر مناسب سمجھتا ہوں کہ اب جماعت کے امیر صاحب بھی اسی ایوان کے ممبر بن گئے اورنو منتخب وزیر اعظم فاروق حیدر سے سردار یعقوب کا حلف لینا اور برابرمیں اسٹیج پر چوہدری مجید (جسے کبھی فاروق حیدر نے یزید بھی کہا تھا) کی موجودگی بھی کسی حادثے سے کم نہیں تھی۔ خیر ان سب سے بڑھ کر جو واقعہ ہوا وہ نو منتخب وزیر اعظم آزاد کشمیر کو چوہدری غلام عباس کے مزار پر فاتحہ کے بعددیےگئے اپنے بیان پر دوسرے ہی روز سبکی اٹھانا تھاجب مسعود خان کو صدر آزاد کشمیر نامزد کیا گیا ۔

ایک روز قبل راجہ فاروق حیدرکا کہنا تھا کہ’’ آزادکشمیر میں قحط الرجال نہیں کہ صدارت کیلئے کوئی غیر سیاسی شخصیت لائی جائے ،اہم منصب کیلئے مشاورت جاری ہے۔صدر ریاست کی تقرری میں کوئی بحران نہیں ، اس عہدے کے لئے ن لیگ میں قابل شخصیات موجود ہیں تاہم یہ منصب آزاد کشمیر اور مرکز کے مابین نہایت اہمیت کا حامل ہے، جس پر سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے۔” یہ بیان راجہ فاروق حیدر کی حقیقی سوچ کا عکاس تھا اور ان کا ماننا تھا کہ آزاد کشمیر کا صدر کوئی سیاسی شخصیت ہو جو اپنے عہدے کا پاس رکھتے ہوئے غیر جانبدار حیثیت میں‌رہتے ہوئے ریاست کا تشخص بحال کر سکے ‘‘ اور پھر اسلام آباد سے اس کے برعکس فیصلہ آگیا اور بانجھ پن کی شکار ن لیگ آزاد کشمیر کی قحط الرجال واضح ہو گئی۔

اب ایک دوسرا پہلو جو مسعود خان کی نامزدگی اور سردار خالد ابراہیم کے براہ راست صدارتی انتخابات کے مطالبے اوراس پر عمل درآمد نہ ہونے پر مزاحمت کے اعلان کے بعد سامنے آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ دوہرائی جائے گی۔ کشمیر میں پہلے بھی بغاوت کا سہرا پونچھ والوں کے سر سجا ہے اور اب کی بار ایسے خدشات سامنے آ رہے ہیں کہ فیصلہ سازوں کی طرف سے کی گئی نامزدگیاں حالات کو کسی بھی طرف لے جا سکتی ہیں۔ 1955-56 کے واقعات کو دیکھیں جب سردار ابراہیم کو صدارت سے ہٹا کر ان کی جگہ اپنی مرضی کا صدر بنا دیا گیا تھا تو ردعمل میں‌ سیاسی مزاحمت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ سینکڑوں جانیں اس کی نذر ہو گئیں تھیں اور پھر ایوب خان نے بڑی مشکل سے حالات کو کنٹرول کیا تھا .

اگرچہ فی الوقت حالات اس نہج پر جاتے دکھائی نہیں دیتے لیکن اگر خالد ابراہیم کا مطالبہ(جو پورا ہونا ممکن نہیں ) نہ مانا گیا تو اس کے بعد اس خطے میں ممکنہ ردعمل کوئی بھی رخ اختیار کر سکتا ہے کیونکہ ریاست کے عوام کے خدشات ہیں کہ غیر سیاسی افراد کو سامنے لا کر تاریخ پھر دوہرائی جا رہی ہے۔ قوم بھی وہی ہے لیکن اب کی بار سیاسی شعور پہلے سے بہت زیادہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے