نظریاتی قبیلے،سیکولرز اور ملائیت

چلئیے جناب ایک اچھی بات تو یہ ہوئی کہ اب بیانئیے کا کھیل ردعمل سے نکل کر مدلل نظریات تک جاپہنچا اس بحث کے نتیجے میں وجاھت مسعود صاحب اور عامر خاکوانی صاحب اپنے اپنے نظریاتی قبیلوں کی رہ نمائی بھی کر رہے ہیں ۔

اصل بات اتنی سی ھے کہ ماضی میں کمیونزم کے علمبرداروں نے اپنا مذھب یا فرقہ تبدیل کرتے ہوئے سیکیولر ازم کی آغوش میں پناہ لے لی ھے یہ تبدیلی اگر نظریاتی بینادوں پہ ہوتی تو بھی قابل قبول تھی لیکن کیا کیجئے کہ اسکے اکثر سرخیلوں نے نظریات کی تبدیلی کیساتھ ضمیر کا بھی سودا کیا اور اب انکی اکثریت میڈیا و این جی اوز میں نظر آتی ھے ، یہ تمام وہ لوگ تھے جنہیں سویت یوینین سے عشق تھا تب وہ اس محبت کو زبردستی پاکستانی عوام کے قلوب و اذھان میں انڈیلنا چاھتے تھے لیکن منہ کی کھانی پڑی اور یہ تحریک افغان جہاد اور پاکستان میں اسلام پسندوں کی جدوجہد کے نتیجے میں خاک آلود ہوئی ۔

یہ درست ھے کہ ہماری نسل کے لوگوں کو ماضی کی اس سرخ آندھی کا ادراک ہی نہیں ھے جو اسلامیان پاکستان کو اڑنے کے لئیے تیار تھی، پاکستان میں ترقی پسندوں کے نام پہ لینن کے وظیفہ خوار بیٹھے تھے اور بڑے بڑے معتبر سمجھنے جانے والے نام اس تحریک سے یوں متاثر ہوئے کہ ریاست کیخلاف بندوق تھامنا گویا سامراج کے خلاف نکلنے جیسا قرار دیا۔

پاکستانی معاشرے نے پہلے انہیں اور اب ” انہیں ” کیوں مسترد کیا ؟؟؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش ماضی کے سرخوں اور حال کے سیکیولرز نے کبھی نہیں کی ۔۔۔ ناہی انکی دلچسپی کا محور رھا ۔۔۔ پاکستانی عوام کی اکثریت بہرحال شعائر اسلام کے حوالے سنجیدہ ھے۔ بڑی سے بڑی سیکیولر جماعت کا کوئی جلسہ ہو یا کارنر میٹنگ اغاز اسکا اب بھی تلاوت کلام پاک سے ہوتا ھے مزارات پہ حاضری کسی بھی سیاسی تحریک سے قبل دی جاتی ھے ۔۔۔۔ سوست تا گوادر مہران تا خیبر آپ کہیں بھی چلے جائیں آپ کو پاکستانی عوام اسلام سے محبت و عقیدت کرتے ہوئے تو ملیں گے مگر کیمونزم و سیکیولر ازم سے نہیں ۔یہ تلخ حقیقت ھے اور سامنے کی بات ھے جسے لبرلز نظر انداز کرتے ہیں ۔۔

یہاں بجا طور پہ ایک نکتہ اٹھایا جاسکتا ھے کہ اگر یہ سب کچھ ھے تو پھر دینی جماعتیں اقتدار سے دور کیوں ہیں ؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔

ویسے اسکا ایک جواب تو یہ بھی ہوسکتا ھے کہ کوئی سیکیولر جماعت کیوں اقتدار میں نہیں ھے ؟؟؟ پیپلزپارٹی کی مثال سے قبل کچھ زمینی حقائق دیکھئے کہ وہ روٹی کپڑے مکان کا نعرہ لگاتے رھے کبھی نہیں کہا کہ ملک کو سیکیولر بنائیں گے بلکہ مشکل وقت کا نعرہ یہ تھا کہ ” یااللہ ، یا رسول بے نظیر بے قصور ” یعنی یہ جرات کسی میں نا ہوسکی کہ اس بابت سرعام کوئی بات کرسکے اور انتہائی دلچسپ امر تو یہ ھے کہ اسلامی آئین کی تشکیل اسی پیپلز پارٹی کے ہاتھوں ہوئی جو خود کو لبرل ازم کا علمبردار سمجھتی ھے یہ اور بات ھے کہ ووٹ بھٹو کے نام پہ مانگتی ہے ، اور سندھ میں اسکا تشخص ایک قوم پرست جماعت جیسا ہی ھے ۔

پاکستان ساختہ سیکیولرز بلاشبہ میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اسی میڈیا کا حصہ ہونے کا ناتے مجھے بخوبی علم ھے کہ ہمارا میڈیا اسلام کی بات کیا رویہ رکھتا ھے ؟؟؟ کتنا سچ بولتا ھے ؟؟؟ اسکا مقصود دین کے نام پہ چند رسومات کا فروغ ھے جو کہ اس نظام کے حوالے سے بے ضرر بلکہ مدد گار ہیں ۔۔۔۔ سیاسی کی بات وہ نہیں کرتے کیونکہ یوں انہیں موت آتی ھے۔

سیکیولرز جس بحث میں الجھے ہوئے ہیں وہ ذھنی عیاشی کا سامان تو خوب مہیا کرتی ھے لیکن معاشرہ ابھی بھی اسکی لپیٹ میں نہیں آیا ، سیکیولرز فی الحال میڈیا این جی اوز یا مخصوص تعلیمی اداروں میں نفوذ رکھتے ہیں لیکن اگر بات عام پاکستان کی کی جائے تو یقین مانئیے کہ اگر سادہ پاکستانی انکے نظریات کی حقیقت جان جائے تو انہیں چھتر پڑنے کا قوی امکان ھے ، کیونکہ انکی ساری باتیں خلاء کی ہیں جن کا زمین سے خاص ربط نظر نہیں آتا۔

ذھنی عیاشی میں مگن اس گروہ کی اپنی نفسیاتی الجھنیں ہیں ان میں سے بیشتر قابل رحم حالت میں داخل ہوچکے ہیں جنہیں اچھے معالج کی ضرورت ھے ۔۔ بہت سوں کا سیکیولر ازم صرف نفسانی خواھشات کے گرد گھومتا ھے۔

افسوس اس بات کا ھے جس رواداری کی بات یہ کرتے ہیں خودا سکا فقدان انکی طرز و عمل میں دکھتا ھے ، مثلا دنیا جانتی ھے کہ پاکستان کا آئین اسلامی ھے اور اسے منتخب پارلیمان و جمہوریت پہ ایمان رکھنے والے افراد نے تیار کیا ، اب المیہ یہ ھے کہ یہ تمام حضرات نا صرف اس آئین کو اقلیت کی بیناد پہ ماننے سے انکاری ہیں بلکہ اسکی تبدیلی بھی انکا منشاء ھے ۔۔۔۔ ان تمام میں اگر جرات ھے تو پہلے ایک عدد سیاسی جمہوری سیکیولر جماعت کا اعلان کریں پھر جلسے جلوس کے زریعے عوام کو آگاہ کریں کہ ہم اسلام کے نام پہ بننے والے دیس کو سیکیولر ریاست بنانا چاھتے ہیں ساتھ وہ تمام لوازمات بھی بیان کردیں جو رائج سیکیولر ممالک کا حصہ ہیں اب اگر زیادہ ذکر کیا تو کچھ دوست شور مچاتے ہیں کہ گندی بات کیوں لکھی۔

اسلام پسندوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کی قطعا ضرورت نہیں پاکستانی سیکیولرز زیادہ سے زیادہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا سکتے اور وہ یہی کر رھے ہیں ۔

کرنے کا اصل کام فقط اتنا سا ھے کہ پاکستانی عوام میں سیاسی اسلام کی دعوت انتہائی موثر و منظم انداز میں پھیلانے کی ضرورت ھے تاکہ وہ مذھب و دین کا فرق سمجھ سکیں
تب تک کے لئیے دماغی عیاشی کے واسطے ان مباحث سے لطف اندوز ہوتے رھئیے ، کیونکہ اسلام نا ہوتا تو سیکیولرز کاروبار کیا کرتے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے