آسٹریلیا: سالانہ 10 ہزار اُونٹ مارنے کی وجہ ؟

آسٹریلیا میں ہر سال ماحولیاتی توازن اور تعداد کو برقرار رکھنے کیلئے دس ہزار سے زائد اُونٹ مار دیئے جاتے ہیں ، لیکن شاید کسی کو علم ہو کہ آسٹریلیا میں اسلام اور اُونٹ پہنچانے کا سہرا افغانیوں کے سر جاتا ہے۔ آسٹریلیا کے محکمہ ماحولیات کے مطابق خطے میں ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کیلئے اُونٹ مارے جاتے ہیں، تاکہ مقامی آبادی کو تحفظ دیا جاسکے۔

[pullquote]اُونٹ مارنے سے فائدہ کیا ہوگا؟؟[/pullquote]

آسٹریلین حکومت کی وزارت ماحولیات کے مطابق خطے میں اس وقت 12لاکھ سے زائد آونٹ موجود ہیں ، جس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتاہے۔ اگر ہرسال دس ہزار اونٹ نہ مارے جائے تو اگلے دس سالوں میں ان اونٹوں کی تعداد 25لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ اُونٹ بہت زیادہ پانی پیتے ہیں ، جس سے علاقے میں پینے کا پانی ناپید ہوجاتا ہے اور یہی جنگلی اونٹ بعض اوقات دیہی علاقوں میں گھس کر مقامی آبادی کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔اس کے علاوہ ہر اونٹ سال میں اتنا میتھین گیس خارج کرتا ہے، جو ایک ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ کے برابر ہوتاہے جس سے ماحولیاتی توازن بگڑنے کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

 

ساربان دوست محمد

[pullquote]اُونٹ آسٹریلیا میں کب اورکیسے پہنچے؟؟[/pullquote]

آسٹریلین حکومت کی وزارت ثقافت اور پامیلا راج کاوسکی کی کتاب ” ٹریکس آف کیمل مین” کے مطابق برطانوی راج کی جانب سے آسٹریلیا پر قبضہ کرنے کے دوران مہم جوئی کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم صحرا ہونے کے باعث گھوڑوں کو سفری مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ 1850ء میں رائل سوسائٹی آف ویکٹوریا کی ” برک اینڈ ویلز ایکسپیڈیشن” نامی 19رکنی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ متحدہ ہندوستان سے سفری مقاصد کیلئے اونٹ درآمد کئے جائیں اور اسی سال تین افغانی ” پشتون” ساربان چوبیس اونٹوں کے ساتھ کراچی سے اگسٹا کے بندر گاہ پہنچ گئے، جہاں سے انہیں میلبورن پہنچایا گیا۔ 1861ء میں مہم جوئی کا آغاز ہوا اور پندرہ ہزار افراد پر مشتمل قافلے نے آسٹریلیا کے جنوبی علاقوں سے شمالی علاقوں کی جانب رخت سفر باندھ لیا۔ اس قافلے میں اُونٹ اور تین افغان ساربان سب کی توجہ کا مرکز بنے رہے ۔

پورٹ اگسٹا پر اونٹوں کی منتقلی

وزرات ثقافت کے مطابق یہ آسٹریلیا میں پہنچنے والے پہلے اُونٹ تھے۔ تین ماہ کے سفر کے دوران سونے کے کئی کانوں کی دریافت کے ساتھ برطانوی راج کے لئے مزید علاقہ دریافت کیا گیا۔ اُونٹوں کے کامیاب سفری مقاصد کو دیکھتے ہوئے، 1866ء میں مزید 124اُونٹ اور 31ساربان آسٹریلیا پہنچائے گئے ، جن میں سب زیادہ تعداد پشتونوں، راجستانی اور سندھیوں کی تھی، لیکن مقامی آبادی اور برطانوی راج سب کو افغانی کہتے تھے۔ افغانی مقامی لباس کی بجائے شلوار قمیض پہننے کو ترجیح دیتے تھے۔ آسٹریلین حکومت کے مطابق برطانوی راج کے نو آبادیاتی دور میں افغانوں اور ان کی اُونٹوں نے سب سے اہم کردار ادا کیا تھا۔

برطانوی راج کا افغانیوں کے ساتھ معاہدہ

[pullquote]افغانوں اور اُونٹوں کو زوال کیسے شروع ہوا؟؟[/pullquote]

آسٹریلیا کے بیشتر علاقوں کو قبضہ کرنے کے بعد سفید فام مقامی آبادی اور باہر سے آنیوالی غیر سفید فاموں کے خلاف ہوگئے۔ افغانیوں کے کاروبار پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 1895ء میں برطانوی راج کی جانب سے منظور کردہ قانون کے بعد افغانیوں کے سونے کے کاروبار پر پابندی لگا دی گئی۔ 1901ء کے امیگریشن ایکٹ کے تحت اسٹریلیا میں افغانیوں کیلئے آسٹریلیا زمین مزید تنگ کی گئی اور انہیں تیسرے درجے کی شہریوں میں شمار کیا جانے لگا۔

1860ء میں جانیوالے تین افغان باشندوں میں سے زخمی ہونے پر دوست محمد کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا ، جس کے باعث ان کا ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ 1881ء میں سفید فام اہلکار نے ساربان جہان محمد کو وضو کرتے وقت گولی مارکر قتل کردیا۔

مقامی قوانین میں سختی اور سفید فام برطانوی راج کے اہلکاروں کی جانب سے معاندانہ رویے کے باعث بیشتر افغانیوں نے آسٹریلیا چھوڑ دیا۔ افغانیوں نے آسٹریلیا میں اسلام متعارف کرایا۔۔۔

سفید فام آسٹریلوی باشندوں کا نشان

1861ء میں افغان ساربانوں نے آسٹریلیا کے ہر گاٹ سپرینگز میں مٹی سے پہلی مسجد تعمیر کی۔

آسٹریلیا کی پہلی مسجد

اس علاقے کو آج بھی افغانیوں کے باعث چھوٹا افغانستان کہا جاتا ہے۔ 1888ء میں ایڈیلیڈ میں پہلا باقاعدہ مسجد ان افغانیوں نے تعمیر کیا اور اسلام کی ترویج کیلئے کمر بستہ ہوئے۔ آج بھی آسٹریلیا کے ایڈیلیڈ میں ” دا غان ” کے نام سے ٹرین چلتی ہے۔ مقامی آبادی افغانیوں کو ”غان ” کہتے ہیں۔ افغان ساربانوں اور اُونٹوں نے اسٹریلیا کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ریلوے ٹریک اور ٹیلی گراف کے لائن بچھانے کا کام انہی اُونٹوں سے لیا گیا، اس کے علاوہ سونے کی کانوں سے خام مواد کو انہی اونٹوں کے ذریعے متعلقہ کارخانوں تک پہنچایا جاتا تھا۔

[pullquote]اونٹوں کا زوال کیسے شروع ہوا؟؟[/pullquote]

1930ء میں آسٹریلیا میں موٹر گاڑیاں متعارف ہوئیں ۔ ریلوے لائن پہلے ہی بچھائی گئی تھی۔ موٹر گاڑیوں کی آمد سے اُونٹوں کا زوال شروع ہوا اور مقامی آبادی اور حکومت نے سازوسامان لانے کیلئے اونٹوں کی بجائے موٹر گاڑیوں کو ترجیح دینی شروع کی۔ تاہم مقامی کاروبار کے ساتھ وابستہ ہزاروں افغان آج بھی آسٹریلیا کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ڈیڑھ صدی سے رہائش پذیر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے