اسلاموفوبیا اور انتہاپسندی کے خلاف اقوام متحدہ میں عالمی کانفرنس کا انعقاد

اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک امریکہ میں انتہاپسندی اور اسلاموفوبیا کے خلاف اور امن، انصاف اور یگانگت پر مبنی معاشروں کے قیام کے لیے Reclaiming Intellectual Primacy & Promoting Just & Peaceful Societies کے عنوان سے 8 اکتوبر 2018 کو ایک عالمی اعلیٰ سطحی کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ عالمی کانفرنس چار بین الاقوامی مسلم تنظیموں؛ کربلا عراق سے روضہ حضرت امام حسین، روضہ حضرت عباس جبکہ نیویارک سے امام الخوئی فاونڈیشن اور ARSH (Alliance For Research and Scholastic Heritage) کے باہمی اشتراک سے منعقد کی گئی۔ جبکہ انتظامی طور یواین میں عراقی مستقل مشن نے اہم کردار ادا کیا۔ کانفرنس میں مختلف ممالک کے سفارت کار، بین الاقوامی پالیسی ساز، یونی ورسٹی اساتذہ، مختلف مذاہب کے نمائندگان، علما، سماجی دانشوران، قائدین، انسانی حقوق کے کارکناں، امن و ہم آہنگی کے ایکٹیوسٹس، مختلف شعبوں کی اہم شخصیات اور مختلف طبقات فکر کے نمائندوں اور مندوبین نے شرکت کی۔

کانفرنس ایک افتتاحی تقریب، تین پینل ڈسکشن، عمومی اظہار خیال کا سیسش اور اختتامی تقریب پر مشتمل تھی۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں شمالی امریکی ممالک کے لیے مرجع اعلیٰ السید علی السیستانی کے خصوصی نمائندے اور امام الخوئی فاونڈیشن کے نیویارک چپٹر کے سربراہ شیخ فاضل السہلانی نے مشکل حالات میں مختلف مسالک و مذاہب اور اقوام کو مضبوطی سے باہمی اتحاد کو باقی رکھنے اور مل جل کر کام آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ افتتاحی کلمات کے بعد اردن کے شہزادہ حسن بن طلال نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے تناظر میں شناخت کے بحران سے نکلنے کے لیے مختلف مسالک و مذاہب اور ثقافتوں کے ساتھ انسانی بنیادوں پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی تجویز دی۔

کانفرنس کے پہلے پینل کا موضوع فکری قیادت کے کردار پر مشتمل تھا۔ پہلے پینل میں مندرجہ ذیل مرکزی عناوین کے تحت محققین و ماہرین نے اپنے مقالات پیش کیے۔
• معاصر دنیا میں اسلامی فکری قیادت کی تعمیر کے لیے حکمت عملی کی تشکیل
• معاصر عالمی چیلنجز کے تناظر میں مسلم فکری قیادت کی تعمیر میں پالیسی ساز اداروں کا کردار
• مستقبل کی فکری قیادت کی تعمیر میں درکار وسائل اور حکمت عملی کا جائزہ

اس پینل میں چار سپیکر موجود تھے جبکہ ڈاکٹر حسنین والجی نے موڈریٹر کا کردار ادا کیا۔ اس پینل میں امریکہ کی معروف درسگاہ کینن کالج کے پروفیسر ورنن جیمز شوبل نے اسلام کی صوفیانہ تعبیر کے حوالے سے علم، عشق اور انسان دوستی پر مبنی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔ نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی واشنگٹن ڈی سی کے کالج برائے انٹرنیشنل سکیورٹی کے پروفیسر حسن عباس نے پُرتشدد انتہاپسندی کے خلاف ہونے والی مسلم علما کی کوششوں خاص طور پر اعلامیہ اردن، عمان میسیج، اعلامیہ مراکش، پیغام پاکستان وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا بحران علم کو عملی صورت پہنانے میں ناکامی کا ہے۔ علمی مراکز ایسا علم پیش کرنے میں ناکام ہیں جو معاصرعملی چیلنجزسے نمٹنے میں موثر ثابت ہو۔
ہارورڈ یونی ورسٹی کے جان ایف کنیڈی سکول کے پروفیسر پیام محسنی نے علمی مراکز اور پالیسی ساز مراکز میں باہمی اشتراک عمل پر زوردیا۔ بابل یونی ورسٹی عراق کے پروفیسر ریاض الامیدی نے معاصر مسائل کے تناظر میں علماء کے کردار پر روشنی ڈالی۔

کانفرنس کا دوسرا پینل سماجی انصاف کے موضوع پر تھا مندرجہ ذیل مرکزی عناوین کے تحت محققین و ماہرین نے اپنے مقالات پیش کیے:
• تشدد و انتہاپسندی کی بنیادی سماجی اور معاشی جڑوں کا جائزہ
• کمزور طبقات خاص طور پر نسلی و مذہبی اقلیتوں، خواتین، بچوں اور معاشی طور پر پسے ہوئے طبقات کی اخلاقی و مالی طور پر تقویت کے لیے حمکت عملی کی تشکیل
• اسلاموفوبیا اور انتہاپسندی کے انسداد کے لیے اسالیب و حکمت عملی کی تشکیل
• مسلم لٹریچر میں مذہبی انتہاپسندی کی نظریاتی جڑوں کا جائزہ
اس پینل میں چار سپیکرز نے اپنے مقالات پیش کیے جبکہ امام الخوئی فاونڈیشن کے لیے اقوام متحدہ میں نمائندہ سید میثم رضوی نے موڈریٹر کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے پینل کا آغاز کرتے ہوئے مسلمانوں کی موجودہ تہذیبی زبوں حال صورت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تہذیبی احیاء کے لیے مسلم امہ کو غور و فکر کی دعوت دی۔ پہلے سپیکر موسسۃ الخوئی کی بلاغی اکیڈمی (عراق) کے ڈائریکٹر سید زید بحر العلوم نے سماجی انصاف سے متعلق اسلامی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔ امریکن اسلامک کانگریس کی شریک بانی خاتون’ زینب السویج نے معاشرے میں خواتین کے مسائل اور کردار پر اپنا مقالہ پیش کیا اور خواتین کو قیادت اور فیصلہ سازی کے عمل میں نمایاں اور زیادہ نمائندگی دینے پر زور دیا۔ زمان انٹرنیشنل کی بانی نجا بازی نے مسلم پناہ گزینوں کے حوالے سے اپنے تجربات کی روشنی میں دلگیر واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انتہاپسندی نے کس طرح لاکھوں خانداں کو اجاڑ دیا ہے۔ کوفہ یونی ورسٹی (عراق) کے پروفیسر جہاد الاسدی نے مذہبی آزادی، سماجی انصاف اور کمزور طبقات کی تقویت و مددگاری کے حوالے سے موجود تعلیمات پر اپنا مقالہ پیش کیا۔

کانفرنس کے تیسرے پینل میں مندرجہ ذیل مرکزی عناوین کے تحت محققین و ماہرین نے اپنے مقالات پیش کیے۔
• اسلام کے تہذیبی ورثے کے تحفظ، احیا اور اس کی تخریب کے خلاف مزاحمت
• عراق میں موجود تہذیبی ورثہ خاص طور پر حوزہ علمیہ نجف اشرف، انبیاء کرام، اہل البیت و اصحاب رسول اور دیگر مشاہیر اسلام کی درگاہوں کا کردار
اس پینل میں چار سپیکر موجود تھے جبکہ آغا شوکت جعفری نے موڈریٹر کا کردار ادا کیا۔ کانفرنس کے اس پینل میں اوبرین کالج کے پروفیسر جعفر امیر محلاتی نے اسلام میں دوستی کے تصور کے معاصر دنیا میں تہذیبی و عالمگیر مضمرات و تقاضوں پر روشنی ڈالی، عراقی امریکن انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر محمد المالکی نے مختلف علوم وفنون کے میدانوں میں مسلمانوں کی تہذیبی حصہ داری پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے احیاء نو کے لیے مشترکہ کوشش کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس احیاء نو کے لیے ہمیں مختلف معاصر علوم میں بڑی تعداد میں اسی تہذیبی قائدانہ سطح و معیار کی افرادی قوت تیار کرنی پڑیں گے جس کی ماضی میں موجودگی پر ہم فخر محسوس کرتے رہتے ہیں۔
روضہ امام حسین کی اکیڈمی برائے ہیومن ڈیویلپمنٹ کے ڈاکٹر طلال الکمالی نے عراق میں داعش کی دہشت گردی، فرقہ وارانہ منافرت اور سیاسی عدم استحکام کے تناظر میں حوزہ علمیہ نجف اشرف کے مرجع الدینی السید علی السیستانی کے حکمت آمیز و قائدانہ کردار اور کربلا میں موجود روضہ حضرت امام حسین کے کروڑوں انسانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے، داعش کی دہشت گردی سے متاثر لاکھوں سنی و شیعہ مسلمان، مسیحی، کرد اور یزیدی (عراق کی کرد نسل مذہبی اقلیت) سمیت لاکھوں داخلی پناہ گزینوں کی خدمت اور مرجع خلائق کے طور پر اسلام کی آفاقی تعلیمات کو اجاگر کرنے میں اور مسلمانوں کا ایک مثبت و جاذب تاثر کے احیاء میں غیر معمولی کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کربلا عراق میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا پُرامن اجتماع ہوتا ہے جہاں ہر مسلک و مذہب، رنگ و نسل اور علاقہ و ملک کے تین کروڑ سے زاید لوگ بیک وقت اربعین کے موقع پر جمع ہوتے ہیں اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
بغداد یونی ورسٹی (عراق) کے پروفیسر مشتاق عباس مان نے مختلف مسالک و مذاہب اور طبقات کے درمیان باہمی تعاون و اشتراک سے معاشروں کی تشکیل پر زور دیا.


تینوں پینل کے اختتام کے بعد شرکا کو اظہار خیال کا موقع دیا گیا
جس میں جامعہ عثمانیہ ڈیٹن اوہایو کے مہتمم مولانا محمد سلیمان نے انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ منافرت کو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے کر اس کے انسداد کے لیے سب کو مل کر کام کرنے پر زور دیا،
صوفی درگاہ لال سخی شہباز قلندر (سندھ پاکستان) کے سجادہ نشین پیر سید وقار شاہ نے امن، دوستی اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کے فروغ میں صوفیائے کرام اور درگاہوں کے کردار کو اجاگر کیا۔
اسلامک کلچرل سینٹر اوسلو ناروے کے مولانا فضل ہادی حسن نے مسلکی ہم آہنگی کے فروغ کی اہمیت پر زور دیا۔
رٹگرز یونی ورسٹی (نیوجرسی) سے آئے ہوئے مسیحی رہنما ریورینڈ سکاٹ رسل نے کانفرنس کو انتہاپسندی اور اسلاموفوبیا کے خلاف ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔
ٹوکیو جاپان میں یونی ورسٹی استاذ رہنے والے پروفیسر پاؤل جیفی نے امریکن سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا کے خلاف مل کر کھڑے ہونے پر زور دیا اور کانفرنس کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کیا۔
یہودی عالم ربائی کوہن نے پیغمبروں کی مشترکہ تعلیمات کی بنیاد پر مختلف مذاہب و مسالک اور طبقات کو مل کر امن و انصاف کے لیے اکھٹے کام کرنے پر زور دیا.
کینیڈا سے آئے ہوئے مولانا سید محمد رضوی نے کانفرنس کی تجاویز کو عملی شکل دینے پر اصرار کیا۔
برطانیہ سے آئے ہوئے سید حیدر الخوئی نے مختلف اداروں اور تنظیموں کا مشترکہ طور پر باہمی تعاون کے ساتھ کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
امریکہ میں متحرک معروف مسلم خاتون رہنما اور وائز مسلم وومن کی بانی ڈیزی خان نے انتہاپسندوں کے ہاتھوں اسلامی تعلیمات کی غلط تشریحات اور تشدد آمیز حرکتوں سے ابھرنے والی اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے ان کے ادارے کی کاوشوں خاص طور پر بہتر (72) علماء و دانشوروں کی مشترکہ تحقیقی کتاب جس کی امریکہ کی سو سے زاید مساجد و اسلامی مراکز نے توثیق کی ہے کا ذکر کیا۔

کانفرنس میں شریک دیگر مختلف اداروں اور تنظیموں کے نمائندوں کو اظہار خیال کا موقع فراہم کیا گیا۔

کانفرنس کے اختتام پر دنیا بھر سے آنے والے شرکاء کا شکریہ ادا کیا گیا۔ کانفرنس کے اختتام پر عتبات حسینیہ و عباسیہ سے لائے ہوئے تبرکات و نوادرات کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا جسے شرکاء نے بہت پسند کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے