امیر حمزہ کے دیس میں

دو تین دفعہ فون پر میسجز پڑھے جو بیرون ملک سے کسی نے بھیجے تھے۔ پڑھ کر انہیں اگنور کر دیا۔ یہ پیغام اومان کے شہر مسقط سے بھیجے گئے تھے اور بھیجنے والے نے اپنا نام امیر حمزہ بتایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں اومان میں ایک واٹر کانفرنس ہورہی ہے‘ جس میں دنیا بھر سے مسلمان ماہرین اور عالموں کو بلایا جارہا ہے۔ آپ بھی تشریف لائیں تو خوشی ہوگی۔ میں نے دو تین وجوہات کی بنا پر اومان نہ جانے کا سوچا۔ پہلی بات تو ہم سرائیکیوں کی روایتی سستی اور اوپر سے مونجھ اور پھرپردیس کا دُکھ ۔ ہم سرائیکی سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں لیکن ہم سے پردیس اور مونجھ برداشت نہیں ہوتی۔

اس لیے سفر کرنے کے حوالے سے خود کو کبھی پرجوش نہیں پایا۔ دوسرے میں نے سوچا میں نہ مذہبی عالم ہوں اور نہ ہی پانی کا ایکسپرٹ‘ میں اومان جا کر کیا کروں گا؟ اس لیے ایک دو دن تو اس میسج کا جواب ہی نہیں دیا‘ لیکن پھر وہی میسج۔ اب کی دفعہ میں نے یہی جواب دیا کہ جناب امیر حمزہ میرا اس کانفرنس سے کوئی براہ راست تعلق نہیں بن رہا۔ایک شائشہ آواز کے مالک وہ صاحب بولے: دراصل یہاں اومان میں تقریباً پونے تین لاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔ کافی لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو بلایا جائے۔ وہ آپ سے مذاکرہ چاہتے ہیں‘ کانفرنس تو ایک طرح سے بہانہ ہے‘ یہاں آپ کی ملاقات اومان کے وزیروں اور آفیشلز سے بھی ہوجائے گی اور سب سے بڑھ کر آپ دنیا بھر کے عالموںکو سن سکیں گے جو پانی پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالیں گے۔ اس دفعہ میں کچھ قائل ہوا کہ چلیں چلتے ہیں۔

بچپن میں امیر حمزہ کے کارناموں کی کئی کہانیاں پڑھ رکھی تھیں۔ ایک تجسس سا جاگ گیا کہ چلیں ایک جیتے جاگتے امیر حمزہ کے دیس کو دیکھ بھی لیتے ہیں ۔ وہ پاکستانی ہیں اور اومان کی وزارتِ اوقاف کے مشیر ہیں جو بڑا عہدہ سمجھا جاتا ہے۔ جب ائیرپورٹ پر اترے تو پتہ چلا کہ پاکستان سے کچھ اور دوست بھی وہاں آرہے ہیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری بھی آرہے تھے۔ ویسے نورالحق قادری صاحب نے اپنے میزبان عربوں کو اپنی عربی زبان اور انداز سے متاثر کیا۔ ائیرپورٹ پر اینکر احمد قریشی سے بھی ملاقات ہوگئی۔ میں احمد کو صرف ٹی وی سکرین سے جانتا تھا لیکن ان تین چار دنوں میں احمد کی مڈل ایسٹ کی سیاست پر گہری نظر اور اس نوجوان کی عربی زبان پر گرفت اور تبصروں سے میں بڑا متاثر ہوا۔ ساتھ سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ کورٹ کے جسٹس محمد غزالی صاحب تھے۔ کراچی سے بھی کچھ علما آئے ہوئے تھے۔ جسٹس غزالی سے بھی ٹاکرے ہوئے اور ان کی ایک بات نے مجھے متاثر کیا کہ کئی دفعہ ان کی باتوں سے سخت اختلاف کیا لیکن مجال ہے ان کے لہجے میں کرختگی اُبھری ہو ۔ پڑھے لکھے انسان ہیں اور حسِ مزاح کمال کی۔

خیر‘ ائیرپورٹ پر ایک اومانی آفیشل لینے آئے ہوئے تھے۔ جب ہم سامان لے کر باہر جارہے تھے تو ایک اہلکار نے روک کر کہا کہ اپنے سامان کو سکیننگ مشین پر رکھیں‘ اس پر اس اومانی آفیشل نے اسے اپنا کارڈ دکھایا اور بتایا کہ یہ سلطنت اومان کے مہمان ہیں۔ وہ کافی دیر تک بحث کرتا رہا‘ لیکن وہ اہلکار بھی ڈٹا رہا کہ نہیں سامان کو سکیننگ مشین سے گزارے بغیر نہیں جانے دیںگے۔ ہم تین چار مہمان یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ آخرکار اس اہلکار نے اپنی منوائی اور ہم سب کا سامان سکیننگ مشین پر رکھا گیا تاکہ دیکھا جاسکے کسی کے سامان میں کوئی منشیات وغیرہ تو نہیں ہے۔ اتنی سخت چیکنگ کا مجھے اندازہ نہ تھا‘ لیکن بعد میں جب کچھ پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ اومان یا مڈل ایسٹ کے سب ممالک اس معاملے میں اتنے سخت کیوں ہیں ۔ سارا قصور اومان کا نہیں ‘کچھ ہم بھی ظالم واقع ہوئے ہیں۔

ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو میرا خیال تھا کہ اومان بھی دوسرے گلف ممالک کی طرح کا ایک چھوٹا سا شہر یا ملک ہوگا‘ لیکن مجھے ایک بات کا اعتراف کرنے دیں کہ جو کچھ اومان کے بارے میں سوچ کر گیا تھا وہ سب غلط نکلا۔ آپ کو لگتاہے آپ کسی یورپ کے ملک میں آگئے ہیں۔ جس طرح اومان کے حکمرانوں نے اپنے شہر اور ملک کو ترقی دی ہے وہ حیران کن ہے۔ ان تین چار دنوں میں مجھے یہی لگا کہ اگر اومان کو دیکھا جائے تو گلف ممالک کو ایک طرف چھوڑیں یہ چین‘ یورپ اور امریکہ سے زیادہ نہیں تو اس سے کم ترقی یافتہ ملک بھی نہیں ہے۔

جب تک امیر حمزہ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی‘ میری یہ حیرانی دور نہیں ہوئی تھی کہ اومان بھی ایک مسلمان ملک ہے‘ کیونکہ لگتا ہے آپ کسی یورپ کے ملک میں رہ رہے ہیں۔ جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ عام اومانی لوگوں کا رویہ تھا اور ان کی سادگی یا انکساری کہہ لیں۔ اپنے کلچر اور تہذیب سے جڑے لوگوں کو دیکھنا ہو تو اومان اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ وزیروں سے لے کر عام لوگوں تک سب میں یہی دیکھا کہ انکساری ہے ‘ ان کی آنکھوں میں پاکستانیوں کے لیے حقارت‘ تکبر یا احساسِ برتری نظر نہیں آتا۔ مجھے ان تین چار دنوں میں کہیں محسوس نہ ہوا کہ وہ ہمیں اس طرح مسکین سمجھتے ہیں جیسے دوسرے عرب ملکوں میں یہ شکایات کی جاتی ہیں ۔ مجھے کچھ پاکستانیوں نے بتایا کہ یہاں کی اچھی بات یہ ہے کہ اگر آپ کا اومان کے مقامی سے جھگڑا ہوجائے یا ایشو ہو تو عدالت یا قاضی یا سرکاری اہلکار انصاف سے کام لیتے ہیں۔

وہ نہیں دیکھتے کہ اپنے اومانی کی ہم نے طرفداری کرنی ہے۔ اگرچہ کچھ پاکستانی شاکی بھی تھے‘ لیکن ظاہر ہے کہ تین لاکھ کے قریب پاکستانی ہیں‘ سب تو خوش نہیں ہوسکتے۔ اس سے بڑھ کر جو چیز میرے نزدیک اومان میں نظر آتی ہے وہ صفائی ہے۔ اتنی صفائی تو میں نے شاید دنیا کے بڑے بڑے ایڈوانسڈ ملکوں میں بھی نہیں دیکھی ہو گی۔ مسقط کے ساحل پر اتنی خوبصورتی اور صفائی کہ بندے کا دل چاہے‘ سارا دن اسی ساحل پر لیٹا رہے۔ کوئی بدبو آپ کو محسوس نہیں ہوتی ۔ مسقط سے دور ایک گائوں میں جب خادم حسین جھکڑ مجھے ساتھ لے گئے تو میری حیرت نہ رہی کہ اس گائوں میں بھی صفائی کا اعلیٰ انتظام تھا۔

مجھے صحرائوں اور پہاڑوں کے درمیان لانگ ڈرائیو اچھی لگتی ہے۔ اس لیے جب خادم حسین جھکڑ‘ جو نیسپاک پاکستان کے اومان میں جنرل منیجر ہیں‘ نے کہا کہ وہ اپنے ایک پراجیکٹ پر جارہے ہیں اورمیں ان کے ساتھ چل سکتا ہوں تو فوراً تیار ہوگیا۔ میرے لیے بھی یہ بڑی خبر تھی کہ یہ ادارہ اس وقت گلف کے کئی ملکوں میں پراجیکٹ کررہا ہے اور اچھا خاصا زرمبادلہ کما کرپاکستان بھیج رہا ہے۔ انہی دنوں اتفاقاً اسی ادارے کے ایم ڈی ڈاکٹر طاہر مسعود بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی اور خوشی ہوئی کہ ایک سمجھدار پروفیشنل اس اہم تنظیم کا سربراہ ہے۔ وہ بارکلے یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ہیں اور اپنا کام خوب جانتے ہیں۔ اومان میں ہونے والی ایک بریفنگ میں انہیںدیکھا تو ان کا انداز پسند آیا کہ وہ روایتی بابوز کی طرح ہٹو بچو ٹائپ بندے نہیں ہیں بلکہ اپنی ٹیم کے لوگوں کو عزت دے رہے تھے۔

خیر خادم حسین جھکڑ کے ساتھ اومان کے ایک اور شہر Sohar تک جانے کا اتفاق ہوا ۔ اس شہر میں بھی خاصے پاکستانی موجود ہیں اور وہ بہت بڑے بڑے کاروبار کررہے ہیں۔ ان میں سے کئی پاکستان میں سرمایہ کاری بھی لا رہے ہیں۔ کھاریاں‘ جہلم سے تعلق رکھنے والے نوجوان احسان الحق نے یہاں خوب ترقی کی ہے اور اس وقت بڑے بڑے پراجیکٹ اور کنٹریکٹ ان کے پاس ہیں۔ اس کم عمری میں احسان الحق کی قابلیت دیکھ کر دل خوش ہوا۔ احسان الحق نے بتایا کہ وہ ابھی اپنے چند دوستوں کے ساتھ پاکستان کے کچھ خوبصورت علاقوں میں ہوٹل بنا رہے ہیں۔ ایک مری میں اور دوسرا ایبٹ آباد کے قریب۔ وہ اپنے منصوبے بتاتے رہے کہ وہ کیسے وہاں پر مقامیوں کے لیے نوکریاں پیدا کریں گے۔

میں نے امیر حمزہ سے پوچھا کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا کہ اومان آپ کو ایک ترقی یافتہ ملک لگتا ہے۔ خطے میں ہر طرف جنگ ہے‘ لیکن مسقط جو سعودی عرب‘ ایران‘ یمن اور پاکستان کا ہمسایہ ہے ‘یہ اس جنگ سے دور اور نیوٹرل ہے۔ ہم لوگ تو سمجھتے تھے کہ ان لوگوں کو کچھ پتہ نہیں اور ہم بڑے سمجھدار ہیں۔ ان لوگوں کو دیکھیں جہاں بادشاہتیں ہیں اور جمہوریت کا وہ تصور موجود نہیں ہے جو پاکستان میں ہے ‘یہ کیسے اتنی ترقی کرگئے ہیں ؟امیر حمزہ مسکرائے اور بولے :اس کے پیچھے پچاس سال پرانی کہانی ہے۔ میں توجہ سے سننے لگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے