’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘

ہماری سیاست اور ادب ایک دوسرے سے بہت دور ہو چکے ہیں اور جن کے پاس ادب نہ ہو اُن کا مقدر رسوائیاں بنتی ہیں۔ یہ ناچیز اُس ادب کا ذکر نہیں کر رہا جس کا تعلق احترام سے ہے۔ میری مراد وہ ادب ہے جس کا تعلق شاعری سے ہے۔

بہت کم شاعروں نے کامیاب سیاست کی۔ اپنے علامہ اقبالؒ نے ایک دفعہ پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا۔ الیکشن تو وہ جیت گئے لیکن اس کے بعد اُنہوں نے انتخابی سیاست سے توبہ کر لی۔ حبیب جالب کے اشعار بھی خاص و عام کی زبان پر رہتے ہیں لیکن جالب صاحب نے بھی ایک دفعہ الیکشن لڑا اور بُری طرح ناکام ہوئے۔

شاعر لوگ ہماری سیاست میں اس لئے کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ یہ بہت امیر نہیں ہوتے لیکن اکثر سیاستدان آگے بڑھنے کے لئے اپنی امارت کو تو استعمال کرتے ہی ہیں لیکن اگر اُنہیں شعر و ادب سے شغف ہو تو اُن کی سیاست کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

افسوس کہ آج کی سیاست میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کا ادب سے کوئی تعلق نظر آتا ہو۔ بھلا ہو فیض احمد فیضؔ کی صاحبزادیوں سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی کا جو ہر سال لاہور میں فیض میلے کا اہتمام کرتی ہیں اور یہاں اہلِ ادب کے ساتھ ساتھ اہلِ سیاست بھی نظر آتے ہیں۔

اس سال فیض میلے میں کچھ ایسے سیاستدانوں نے بھی تقریریں کیں جن کو فیض صاحب کا ایک بھی شعر یاد نہ تھا لیکن جب وہ یہاں سے واپس جا رہے تھے تو اُنہیں شدت کے ساتھ یہ احساس تھا کہ وہ اس ملک کی نوجوان نسل کو زیادہ دیر تک صرف خالی خولی نعروں سے نہیں بہلا سکتے۔ نئی نسل کو وہ پاکستان چاہئے جس میں اقبالؒ اور فیضؔ کے خوابوں کی تعبیر نظر آئے۔

ہمیں غلام پاکستان نہیں آزاد پاکستان چاہئے۔ افسوس کہ آج اس ملک کے بڑے بڑے سیاستدان ہمیں اپنی اپنی انائوں اور اپنے اپنے نعروں کے غلام نظر آتے ہیں۔ اُن کی زبانوں سے بار بار ایسے الفاظ ادا ہوتے ہیں جو اُن کے اپنے نہیں ہوتے لیکن پھر وہ انہی الفاظ کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ کس طرح بار بار انگلی لہرا لہرا کر کہا گیا کہ کان کھول کر سُن لو، میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا اور پھر این آر او کے یہ تین الفاظ پوری حکومت کے لئے شکنجہ بن گئے۔

یہ این آر او کئی سال پہلے جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مخالفین کے لئے آرڈیننس کی صورت میں جاری کیا لیکن اس ملک کی اعلیٰ عدالت نے یہ این آر او مسترد کر دیا تھا۔ جب جب ہمارے وزیراعظم عمران خان نے اپنی انگلی لہرائی اور کہا، میں این آر او نہیں دوں گا تب تب ہم نے عرض کیا کہ جناب ایسا مت کریں، آپ تو کسی کو این آر او دے ہی نہیں سکتے کیونکہ سپریم کورٹ این آر او مسترد کر چکی ہے لیکن خان صاحب کو جو بھی سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، خان صاحب اُسے سمجھانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے خود ہی اپنی کابینہ کو بار بار یہ بتایا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف بہت بیمار ہیں اور اگر جیل میں اُنہیں کچھ ہو گیا تو حکومت کے لئے بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

نواز شریف کو جیل سے اسپتال بھجوانے کا حکم عدالت نے دیا لیکن اچانک کچھ وزراء کو کہیں سے این آر او کی آوازیں آنے لگیں اور انہوں نے غیر ضروری طور پر بیان بازی شروع کر دی اور جب نواز شریف کو بیرونِ ملک بھجوانے کا معاملہ آیا تو اپنے ہی نعروں اور بیانیے میں جکڑی ہوئی حکومت نے نواز شریف سے سات ارب روپے کے بانڈ مانگنا شروع کر دیے۔

نواز شریف کے وکلاء عدالت میں چلے گئے تو وہاں وفاقی حکومت کے نمائندوں نے جو کچھ کہا اُس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ حکومت نے ایک انسانی مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے اور آخرکار لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کا موقف مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کو علاج کے لئے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی۔ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سننے کے بعد ایک غیر معروف شاعر برق لکھنوی کا یہ معروف شعر بڑا یاد آیا۔

مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

وفاقی دارالحکومت میں زیر گردش کچھ سازشی مفروضوں کے مطابق اگر مولانا فضل الرحمٰن اتنی جلدی اپنا آزادی مارچ ختم نہ کرتے تو شاید تحریک انصاف کی حکومت ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف سے سات ارب روپے کی تحریری ضمانت طلب نہ کرتی اور آٹھ دس دن ضائع نہ ہوتے لیکن مولانا فضل الرحمٰن اس لئے اسلام آباد سے جلدی چلے گئے کیونکہ اُنہیں جو چاہئے تھا اُس کے برابر کوئی چیز اُنہیں مل گئی۔

پہلے تو اُن کے ناقدین کو سمجھ نہیں آئی اور انہوں نے ’’بھاگ گیا، بھاگ گیا‘‘ کا شور مچا دیا لیکن جب چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، متحدہ قومی موومنٹ اور جی ڈی اے نے حکومت کا اتحادی ہونے کے باوجود نواز شریف کو غیر مشروط طور پر علاج کے لئے بیرونِ ملک بھجوانے کا مطالبہ کیا تو خود عمران خان چھٹی لے کر گھر بیٹھ گئے۔

کاش کہ حکومت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی رولنگ سُن لیتی جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا، نواز شریف کو علاج کیلئے جانے دو۔ اس رولنگ کے بعد حکومت کو ثاقب لکھنوی کا یہ شعر یاد آنا چاہئے تھا کہ؎

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

لیکن جب اہلِ سیاست اور ادب میں تعلق ختم ہو جائے تو پھر کسی کو ثاقب لکھنوی یاد آتا ہے نہ مہتاب رائے تاباں جس نے کہا تھا؎

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ نہ کہیں آگ لگے نہ کوئی آگ سے جل مرے۔ لیکن کچھ اہلِ اختیار نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ اپنے ہی نعروں اور اپنی ہی انائوں کے اسیر اس قوم کو مسائل کے گرداب سے کیسے نکالیں گے؟

تبدیلی کے آثار واضح ہیں لیکن کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی صحت اور پیپلز پارٹی آصف زرداری کی صحت پر توجہ دے اور مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بی اے پی کے علاوہ بی این پی کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔

تحریک انصاف میں بھی اکثر اراکین پارلیمنٹ کافی کچھ سمجھ چکے ہیں لیکن، بعض ایسے بھی ہیں جو جلد ہی بہت روئیں دھوئیں گے۔ اُن کے لئے میر تقی میرؔ نے عرض کیا تھا؎

ابتدائے عشق ہے، روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے