ایبٹ آباد میں خوفناک ٹریفک حادثے کا ذمہ دار کون ہے ؟

گزشتہ روز ایبٹ آباد میں ہونےوالا حادثہ میرے لیے باعث دکھ تو تھا لیکن اس میں میرے لیےکوئی خبر نہیں تھی کیونکہ اسے ایک دن ہونا ہی تھا اور انتظامیہ بھی شاید اسی انتظار میں تھی .

ایبٹ آباد میں 10 مئی جمعرات کی شام تقریباً 6 بج کر 15 منٹ پر سبزی منڈی کے قریب موڑ پر گندم کی بوریوں سے بھرا ٹرک راولپنڈی سے مانسہرہ جانے والی مسافر وین پر الٹ گیا جس کے نتیجے میں 10 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہوگئے .ریسکیو 1122، پولیس کے اہلکار اور مقامی افراد کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد وین کے ملبے کو کاٹ کر لاشیں نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ زخمیوں میں سے تین کو سر پر چوٹیں آئیں جس کے باعث ان کی حالت تشویشناک ہے۔ ایک بچہ اور ایک خاتون حادثے میں معجزانہ طور پر بچنے میں کامیاب رہے۔

جس مقام پر حادثہ پیش آیا ، یہاں اس سے پہلے بھی کئی حادثے پیش آ چکے ہیں ۔ اس مقام پر چڑھائی شروع ہو جاتی ہے اور اوور لوڈڈ گاڑیوں کی وجہ سے سڑک بھی ناہموار ہو چکی ہے . اسی وجہ سے گاڑیاں عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اوور لوڈڈ ہیوی ڈیوٹی گاڑیوں کے لیے کوئی نظام الاوقات ہے ؟ جی ہے ہاں ، کاغزوں میں تو ہے لیکن کیا کریں اس "ایماندار پولیس کا” جس نے قانون کو اپنی جیبیں بھرنے کا ذریعہ سمجھ کر رکھا ہے . حالیہ حادثہ بھی انتظامیہ کی غفلت کی باعث پیش آیا . رات نو بجے سے پہلے ٹرکوں اور کنٹٰیرز کے شہر میں داخلے پر پابندی ہے لیکن کیا ابھی تک انتظامیہ نے ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کو طلب کر کے پوچھا کہ آخر سوا چھ بجے کیسے اوور لوڈڈ ٹرک اس تنگ اور مشکل مقام سے گذر رہا تھا ؟؟

ایبٹ آباد جاتے ہوئے حویلیاں موڑ سےتھوڑا آگے ایسا ہی ایک خونی موڑ ہے جسے لنگرا موڑ کہتے ہیں ، یہاں بھی کئی حادثے ہو چکے ہیں تاہم خبر تو اس وقت تک بنتی ہی نہیں جب تک دس پندرہ جانیں ختم نہ ہو جائیں . اگر میں سو بار ایبٹ آباد گیا ہوں تو بلا مبالغہ 80 بار یہاں کوئی ٹرک مسئلے میں کھڑا دیکھا . اسی طرح قلندر آباد سے پہلے ایک موڑ ہے جہاں چڑھائی شروع ہو جاتی ہے اور اوور لوڈڈ گاڑیاں نہیں چڑھ سکتیں . اکثر ٹرک اور کنٹینرز سڑک کے درمیان حوصلہ ہار جاتے ہیں اور ٹریفک کا سارا نظام درھم برھم ہو جاتا ہے . اوور لوڈڈ گاڑیوں کے لیے کیا کوئی قانون نہیں کہ ٹرک یا کنٹینر میں کتنے وزن تک سامان رکھا جانا چاہیے اور خلاف ورزی کی صورت میں ہر فریق پر جرمانہ اور سزا عائد کی جائے .

چار برس پہلے میں اور جیو نیوز کے سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر صاحب ایک اسکول کی افتتاحی تقریب کے سلسلے میں ایبٹ آباد گئے تو ہم اسی مقام پر ٹریفک میں پھنس گئے۔ ہمارے ساتھ ایک اوور لوڈڈ ٹرک چل رہا تھا . یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ٹرک ہماری گاڑی پر آگرے گا ۔ ہم تو خیر نکل گئے لیکن دماغ سے کافی وقت تک خوف نہیں نکلا .

ایبٹ آباد لنگرا موڑ ، سبزی منڈی موڑ اور قلندر آباد موڑ کے مقامات پر پہنچنے کے ساتھ ہی مسافر خوفزدہ ہو جاتے ہیں کیونکہ اوور لوڈڈ ٹرک اور کنٹٰینرز یہاں موت کے سائے کی طرح ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں ، لیکن کبھی بھی صوبائی حکومت ، ضلعی انتظامیہ یا متعلقہ اداروں نے اس جانب توجہ نہیں دی ۔ یہاں اکثر ٹریفک جام رہتا ہے لیکن کبھی کبھار ہی پولیس آپ کو نظر آئے گی .لوگ خود ہی گاڑیوں سے نکل کر ٹریفک کو کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں . آپ کبھی ایبٹ آباد شہر میں سفر کر کے دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پولیس نے ٹریفک کنٹڑول کرنے کے کیسے بھونڈے اقدامات کر رکھے ہیں . یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ شاہراہ ریشم ہے جس سے گذر کر ہی آپ گلگت بلتستان اور چین کے خنجراب بارڈر تک پہنچ سکتے ہیں .

ایبٹ آباد سے واپسی پر حامد میر صاحب نے روزنامہ جنگ میں کالم بھی لکھا کہ ایبٹ آباد میں سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے لیکن شاید حکومت اور ضلعی انتظامیہ کسی بڑے حادثے کی انتظار میں تھی .جب تک کوئی حادثہ نہ ہو اور اس میں بڑی تعداد میں اموات نہ ہو جائیں ، انتظامیہ کے کان کھڑے نہیں ہوتے . لیکن یہ بھی ہماری خوش فہمی ہے کہ اب بھی اس سلسلے میں کوئی کام کیا جائے گا.

معاملہ صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ اسلام آباد ، راولپنڈی اور پشاور کے اڈوں پر مسافروں کو جانوروں کی طرح گاڑیوں میں ٹھونسا جاتا ہے . ایک وین میں 14 مسافروں کی جگہ ہوتی ہے لیکن ڈرائیورز اور اڈہ مالکان پولیس کو پیسے دیکر خلاف قانون 18 اور 16 سواریاں بٹھاتے ہیں . سات، آٹھ سال پہلے تمام اڈوں میں یہ طے ہوا تھا وین میں صرف 14 مسافروں کو ہی بٹھایا جائے گا . اس لیے کرایہ بھی اسی حساب سے زیادہ کیا گیا تھا تاہم پولیس پیسے لیکر سائیڈ پر ہو جاتی ہے اور ڈرائیورز من مانی کرتے ہوئے سواریاں زیادہ بٹھاتے ہیں .سی این جی نہ ملے تو کرایہ بڑھا دیتے ہیں حالانکہ گاڑیوں کے کرائے پیٹرول کے ریٹ کے مطابق ہی طے ہو تے ہیں . اگر آج شام کو پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اڈہ مالکان اور ڈرائیور فورا کرائے بڑھا دیتے ہیں لیکن جب پیٹرول کی قیمیت کم ہوتی ہے تو کرایہ کم نہیں کیا جاتا .عیدین کے موقع پر جان بوجھ کر اڈہ شارٹ کر کے کرایہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ سواریاں ڈبل کر دی جاتی ہیں جو حادثوں کا سبب بنتی ہیں . ٹرانسپورٹر مافیا انتظامیہ کے ساتھ مل کر غریب مسافروں کے ساتھ یہ گھناونا کھیل کھیلتا ہے .
گذشتہ پانچ سال سے ایبٹ آباد کے شہری موسم گرما میں عجیب اذیت کا شکار ہو تے ہیں، شہری گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے . گزشتہ تیس برسوں میں کوئی نئی سڑک بنی اور ناہی سڑکوں کی مرمت کی گئی .حسن ابدال سے حویلیاں تک موٹر وے کا معاملہ الگ ہے . گرمیوں میں سڑکوں کی تنگی اور خستہ حالی کی وجہ سے سیاحوں کی گاڑیاں ٹریفک جام کر دیتی ہیں . ہزارہ کے شہری ہنگامی حالت میں اسپتال بھی جانا چاہیں تو رش میں پھنس کر رہ جاتے ہیں . پانچ منٹ کا راستہ دو، دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے. میں نے 2014 عمران خان صاحب سے ذاتی طور پر درخواست کی تھی کہ براہ مہربانی سڑکوں کی حالت کو بہتر بنائیں لیکن ان کے نزدیک سڑکوں سے قومیں نہیں بنتیں . سڑکوں کی حالت بہتر نہ کی گئی تو حادثات ہوتے رہیں گے. کاش جاتے جاتے ہی صوبائی حکومت اس بدقسمت شہر کے بارے میں کوئی بہتر فیصلہ کرلے .

2016 میں 16 لاکھ سے زائد سیاح اسی سڑک ہو کر کاغان ، ناران ، گلگت اور بلتستان گئے . ہر سال سیاحوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے وزیر اعلی گلگت بلتستان نے بتایا کہ گذشتہ برس بیس لاکھ سے زیادہ لوگ اسی سڑک سے گلگت بلتستان آئے ۔اس سیاحت سے اتنا بڑا ریونیو جنریٹ ہوتا ہے لیکن جن سڑکوں سے سیاحوں کو گذرنا پڑتا ہے ، ان کی حالت ناقابل بیان ہے ۔

ایبٹ آباد کسی دور میں ٹور ازم کا حب ہوتا تھا ،یہاں اندرون ملک اور بیرونی ممالک سے سیاحوں کی بڑی تعداد موجود رہتی تھی . لوگ اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے ایبٹ اباد بھیجا کرتے تھے تاہم آج پاکستان کا یہ خوبصورت شہر کھنڈر بن چکا ہے ۔ اس شہر سے دو وزرائے اعلی رہے ، کئی وفاقی وزرا کے ساتھ ساتھ وزرائے اعلی بھی بنے لیکن شہر کی تعمیر کے بجائے شہر کو تباہ کرنے میں سب نے اپنا کردار ادا کیا ۔بیس برسوں اس شہر میں بدترین تبدیلی کا عمل جاری ہے . ایبٹ آباد کو کبھی اسکولوں ، چاندوں اور پھولوں کا شہر ہوتا تھا ۔ آج لاشوں ، الائشوں ، کھنڈرات کا شہر بن چکا ہے. ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے