ایم کیوایم کابحران اوربلدیاتی انتخاب

متحدہ قومی موومنٹ کے قائدکی22اگست کو ملک کے خلاف نفرت واشتعال انگیز تقریر نے جہاں پر خود متحدہ کو بحرانی کیفیت سے دوچار کردیاہے وہی پر عوامی حلقوں میں بھی شدید اشتعال ہے۔ مبصرین کے مطابق متحدہ کے قائد نے بھوک ہڑتالی کیمپ میں اپنی تقریر کے دوران جوملک کے حوالے سے جو زبان استعمال کی ہے وہ یقینا ناقابل برداشت اور ناقبل معافی ہے اوریہی تقریر متحدہ کے اندر شدید خلفشار اور بے چینی کا باعث بھی بن رہی ہے ، یہی وجہ ہے 23اگست کو ایم کیوایم کے مرکزی رہنماء ڈاکٹرفاروق ستار نے درجنوں ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور مرکزی رہنماؤں کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس میں نہ صرف پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ اور اس کے نتیجے میں میڈیا کے اداروں پر ہونے والے حملوں کی مذمت کی بلکہ لاتعلقی کا اظہارکرتے ہوئے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ آیندہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد یا کسی اور کو اس طرح کی زبان یا اقدام کیلئے متحدہ کافورم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔

بظاہر ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کا یہ اعلان عملاً الطاف حسین سے لاتعلقی کا اظہار ہے اور ایم کیوایم میں اس طرح کا قدم اس کی30سالہ سیاسی زندگی میں پہلی مرتبہ اٹھایاگیا ہے ۔ماضی میں درجنوں بار ایم کیوایم کے قائد قیادت سے خودہی دستبرداری اورواپسی کا اعلان تو کرچکے ہیں، لیکن پاکستان کی قیادت کی جانب سے پہلی بار ایم کیو ایم قائد کو اس طرح کے شدید ردعمل کا سامنا ہوا ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار کی پریس کانفرنس اور اس کے بعد موقف کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ انہوں نے پارٹی کی 30سالہ حکمت عملی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیاہے اور قائد کی تقریر منفی اثرات اور عوامی رد عمل سے پارٹی کو بچانے کی کوشش کی ہے اور وہ کس حد تک کامیاب ہوتے اس کا اندازہ آئندہ چند روز میں ہی ہوگا۔ اگرچہ پارٹی کے بانی اور قائد الطاف حسین ہیں لیکن اس وقت قانونی طورپر ایم کیوایم ڈاکٹر فاروق ستار کے نام رجسٹرڈہے ،اس لیے قانونی محاذ میں ڈاکٹر فاروق ستار کی پوزیشن مستحکم ہے۔ایم کیو ایم کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کا اقدام عوامی غصے کو کم کرنے کی کو شش ہے اور پارٹی کامکمل کنٹرول اب بھی الطاف حسین کے پاس ہے۔ دوسری جانب ایم کیوایم کے بیشتر قائدین کا کہناہے کہ ہم ہر چیز برداشت کرسکتے ہیں لیکن ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کا نعرہ کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے ،یہی وجہ ہے کہ عملًا لندن سے ہدایت لینے کا عمل ترک کردیاہے تاہم موجودہ صورتحال میں ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے حامیوں کیلئے یہ آسان ہدف نہیں ہوگاکیونکہ یہ حقیقت ہے کہ پارٹی میں اب بھی الطاف حسین کی گرفت کافی مضبوط ہے ۔

اس بات کا خدشہ بھی ہے کہ کراچی اور لندن کی قیادت نے اپنی اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی تو ایم کیوایم میں گروپ بندی ہوگی، فی الحال تو الطاف حسین کی جانب سے اپنی تقریر پر معافی نامے کے اجراء اور تمام اختیارات ڈاکٹر فاروق ستار کے سپرد کرنے کے اعلان نے تقسیم کے عمل کو وقتی طور پر ضرور روک لیاہے، لیکن مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔کچھ رہنماؤں کا ردعمل اور کچھ کی خاموشی اسی بات کی دلیل ہے ۔اس ضمن میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عامر لیاقت کی پریس کانفرنس میں موجودگی کے باوجود دو گھنٹوں کے بعد پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان اور اب سخت موقف بھی اہم ہے ، بعض مبصرین ڈاکٹر عامر لیاقت کو ایم کیو ایم میں اہم ذمہ داری ملنے کی امید تھی مگر ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے پارٹی پر عملاً کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بظاہر مشکل تھا اس لئے وہ الگ ہوئے ،جبکہ ڈاکٹر عامر لیاقت کا کہنا ہے کہ’’ وہ پاکستان مردہ باد ‘‘نعرے کا دفاع نہیں کرسکتے تھے ،اور اب مجھے قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔

پاکستان کیخلاف نعروں نے ایم کیوایم کوملکی سیاست میں ایک مرتبہ پھر صفر پر لاکھڑ کردیاہے اوراب ایم کیوایم کے قائدین کو مشکلات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے ،تاہم بیشتر رہنماؤں کی جانب سے بروقت اظہار لاتعلقی نے کشیدگی کوکسی حدتک کم کرلیاہے۔ایم کیوایم کے اندر یہ بحرانی کیفیت بلدیاتی سربراہوں کے انتخاب سے ایک دن قبل پیدا ہوئی اس کے باوجود تادم تحریر ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایم کیوایم کے نمائندوں پر ان کی قیادت کی گرفت مضبوط ہے اور ایم کیوایم نے میٹرو پولیٹن کارپوریشن کراچی اور 3ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنوں اپوزیشن کے’’ کراچی اتحاد‘‘بدترین شکست سے دو چار کردیا ہے ۔غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق ایم کیو ایم کے اسیر رہنماء وسیم اختر کراچی کے میئر اور ڈاکٹر ارشد عبداﷲ وہرا ڈپٹی میئر منتخب ہوگئے ہیں ، یہ ایم کیوایم کی بڑی کامیابی ہے ، تاہم ایم کیو ایم اور وسیم اختر کے لئے ابھی مشکلات ہیں بالخصوص 12مئی 2007ء کا کیس اہمیت کا حامل ہے ۔

بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے میں کراچی کے ضلع غربی میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف نے ملکر مسلم لیگ (ن) سمیت 6جماعتی اتحاد کو بدترین شکست سے دوچارکرکے بڑا اپ سیٹ کردیاہے،مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلع غربی میں مسلم لیگ(ن) کے آصف خان چیئر مین اور تحریک انصاف کے عزیز اﷲ خان آفریدی ’’کراچی اتحاد ‘‘کے امیدوار تھے اور ووٹوں کی گنتی تک دو نوں ایک ساتھ تھے ، جبکہ ن لیگ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم میں تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنماء اور عمران اسماعیل نے ڈیل کرائی تھی ، یہ خبریں ایک ہفتہ قبل بھی میڈیا کی زینت بنی تھیں تاہم کراچی کے میڈیا کوارڈینٹر دواخان صابر نے اس کی تردید کی تھی ۔

کراچی کا یہ واحد ضلع تھا جہاں پر اپوزیشن جماعتیں نہ صرف متحد نظر آرہی تھیں بلکہ انہیں عددی برتری بھی حاصل تھی،67رکنی ایوان میں ایم کیوایم کے 32اوران کے مخالفین کی تعداد 35تھی لیکن نتائج کے مطابق ایم کیوایم کو 36اور مخالفین کو 31ووٹ ملے ۔دلچسپ صورتحال جمعرات کو اس وقت پیدا ہوئی جب 25اگست کو نشاندزہ 24بیلٹ پیپرز کی جانچ پڑتال کے بعد ان تمام کو خلاف قانون قراردیکر مسترد کردیا گیا ، اس طرح ایم کیو ایم کے اظہار الدین کے36ووٹ کم ہوکر صرف12رہ گئے اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے آصف خان کو 31ووٹ کے ساتھ کامیاب قرار دیا ، یہ کامیابی در اصل تحریک انصاف کے منہ پر تماچہ تھا جس کے 4ارکان نے متعد د بار حلف اٹھانے کے باوجود کراچی اتحاد سے خفیہ بغاوت کی ۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سندھ اور کراچی کے بعض رہنماء بھی اس سازش میں شریک تھے ۔ان رہنماؤں ایما پر ضلع جنوبی میں مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر سلطان بہادر نے ’’کراچی کے اتحاد‘‘سے الگ ہوکر ایم کیوایم کے ٹکٹ پر ضلع لیبر کونسلر کی نشست حاصل کی مگر وائس چیئرمین نہ بن سکے ، ان کے اس عمل نے پارٹی کواپنی طور ایک ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن چیئرمین اور 2وائس چیئرمینوں کے عہدوں بھی محروم کردیاتھا مگر چیئرمین کی نشست ایم کیو ایم کے امیدوار کی حماقت کی وجہ سے واپس مل گئی ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ مسلم لیگ (ن)کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آنے کے باوجود آخری مرحلے پر بدترین شکست کا سامنا رہا ۔

مجموعی طور پر دیہی سندھ میں بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے کلین سوئپ کیاہے اور کراچی میں بھی 8میں سے تین اداروں کی سربراہی حاصل کی ، جبکہ کراچی کے دو ڈی ایم سیز میں وائس چیئرمین کی دو نشستیں حاصل کرکے تحریک انصاف نے بھی جگہ بنالی ۔

دوسری جانب ضلع شکار پور سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ(ف) کے منتخب رکن اور وزیر اعظم کے مشیر امیتااحمدز شیخ کی پیپلزپارٹی میں شمولیت نے بھی اپوزیشن کو سخت دھچکا پہنچایاہے، امیتازاحمد شیخ کا شمار سندھ کے سرگرم سیاسی رہنماؤں میں ہوتاہے لیکن مسلم لیگ(ف) نے عملاً انہیں مفلوج کردیاتھا اور بالآخر مجبور امتیازاحمد شیخ نے کئی برس کے انتظار کے بعد علیحدگی اختیار کی ہے۔ پیپلزپارٹی کے بعض حلقوں کے دعویٰ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کراچی سے تعلق رکھنے والی بعض اہم شخصیات پیپلزپارٹی میں شامل ہورہی ہیں اس ضمن میں سابق رکن سندھ اسمبلی عرفات اﷲ خان مروت کا نام بھی لیاجارہاہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے