بابے ایسے بھی ہوتے ہیں!

بابا جی کے بقول ان کی عمر کچھ زیادہ نہیں، یہی کوئی ستاسی اٹھاسی کے لگ بھگ ہے۔ جب کبھی ان کا حال پوچھو یہی کہتے ہیں اللہ کا شکر ہے۔ بالکل فِٹ فاٹ ہوں۔ گزشتہ شام میں ان کی طرف گیا تو صحن میں چھڑکائو کرنے کے بعد حقے کی نڑی منہ میں دبائے بیٹھے تھے۔ قریب ہی ایک میز دھری تھی جس پر مختلف ادویات اپنا جلوہ دکھا رہی تھیں۔ میں نے بیٹھتے ہی حسب معمول بابا جی کا حال احوال پوچھا انہوں نے حسب معمول جواب دیا اللہ کا شکر ہے بالکل فِٹ فاٹ ہوں یہ کہتے ہوئے انہوں نے میز پر دھری ادویات میں سے ایک شیشی اٹھائی، اس میں سے دو کیپسول نکالے اور پانی کے ساتھ حلق میں انڈیل لئے۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ کچھ نہیں تھوڑی سی ایسیڈیٹی کا پرابلم ہے۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے دو اور ٹیبلٹس حلق میں انڈیل لیں۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بولے ایک ٹیبلٹ پروسٹیٹ کی تکلیف کے حوالے سے ہے اور دوسری خون پتلا کرنے کی ہے۔ اس دوران بابا جی نہایت خوشگوار موڈ میں ادھر ادھر کی گپ شپ کرتے رہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس روز وہ معمول سے بھی زیادہ خوش نظر آرہے تھے۔ بابا جی کو کوئی لطیفہ سنایا جائے تو وہ لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔

لیکن خود کبھی کوئی لطیفہ نہیں سناتے لیکن اس روز انہوں نے ایک لطیفہ بھی سنایا، کہنے لگے ایک شیخ صاحب جب صبح کے وقت بیدار ہوئے تو دیکھا ان کی بیوی کی طبیعت بہت خراب ہے اور پھر وہ آناً فاناً ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے زانو پر دم توڑ گئی، جس پر وہ روتے، چلاتے شدید غمزدگی کی حالت میں باورچی خانے میں گئے اور زار و قطار اپنی بیٹی کو مخاطب کیا اور کہا بیٹی تمہاری ماں فوت ہوگئی ہے، اس کیلئے پراٹھا نہ بنانا۔ یہ لطیفہ سناتے ہوئے انہوں نے بھرپور قہقہہ لگایا جس کے ساتھ انہیں دمے کا دورہ پڑ گیا۔ انہوں نے فوری میز پر سے ’’ان ہیلر‘‘ اٹھا کر منہ کے ساتھ لگایا اور اس کے دو پف لئے۔ کچھ دیر بعد جب ان کی حالت سنبھلی تو میں نے پوچھا بابا جی اب طبیعت کیسی ہے؟ بولے اللہ کا شکر ہے فِٹ فاٹ ہوں۔ اسی دوران ان کا ایک بھتیجا انہیں ملنے آیا اور ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گیا، اس کی عمر یہی کوئی چالیس سال ہوگی، میں نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ شیخوں کی کنجوسی کے لطیفے سنانے والے بابا جی کا اپنا تعلق بھی شیخ برادری سے ہے اور میں نے ان سے زیادہ فضول خرچ شیخ اپنی زندگی میں کوئی نہیں دیکھا۔

ان کے بھتیجے سے میرا تعارف بابا جی ہی کے حوالے سے ہے جب وہ اپنی نشست پر سیٹل ہو گئے میں نے ان سے پوچھا شیخ صاحب کیا حال ہے تو نہایت مایوس لہجے میں بولے بس جناب گزر رہی ہے۔ میں نے پرانی فلموں کے اس اداس ہیرو کو مخاطب کیا اور کہا آپ پریشان لگ رہے ہیں خیریت تو ہے؟ بولے، کہاں کی خیریت جناب ایک ہزار ایک بیماریاں چمٹی ہوئی ہیں۔ میں نے استغفار کیا، مثلاً؟ فرمایا کوئی ایک ہو تو بتائوں۔عرض کیا آپ صرف ایک بتا دیں، بولے، ہر وقت تھکا تھکا سا محسوس کرتا ہوں ۔ پوچھا اور؟ فرمایا، ایک ہی کافی ہے اس کی وجہ سے کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس دوران بابا جی نے مجھے مخاطب کرکے کہا، اس نالائق سے پوچھو جب یہ صبح چھ بجے سے رات دس بجے تک دولت کمانے کیلئے مسلسل کام کرے گا تو اسے تھکن نہیں ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی بابا جی کو ہنسی اور دمے کا بیک وقت دورہ پڑا جب ان کی حالت کچھ سنبھلی تو میں نے پوچھا بابا جی اب طبیعت کیسی ہے؟ بولے اللہ کا شکر ہے بالکل فِٹ فاٹ ہوں۔ اس دوران ان کے بھتیجے کی سرد آہیں مسلسل مجھے سنائی دیتی رہیں۔

اُس شام موسم بہت خوشگوار تھا۔ صحن میں رات کی رانی کی خوشبو بھی پھیل چکی تھی، بابا جی کے فہم و فراست سے مالا مال پوتے نے آکر اطلاع دی دادا جان آپ کا فزیوتھراپسٹ آ گیا ہے۔ ’’بیوقوف میرے مہمان آئے ہوئے ہیں، انہیں چھوڑ کر کیسے جائوں؟ تم یہ برآمدے میں جو بنچ پڑا ہے وہ اٹھا کر یہاں لے آئو‘‘! اور پھر وہ بنچ پر لیٹ گئے فزیو تھراپسٹ نے ان کے جسم کے مختلف حصوں کی تھراپی شروع کر دی۔ کچھ دیر بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھے، چھڑی ہاتھ میں تھامی اور اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور کہا تم بیٹھو ہوا بہت چل رہی ہے، میں شلوار پہن کر آتا ہوں اور پھر وہ ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں دھوتی کا پلو تھامے اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔

میں نے ان کے بھتیجے سے کہا آپ اپنے تایا جان کو دیکھ رہے ہیں، ان کی عمر آپ سے دو گنا ہے، انہیں بیماریاں بھی لاحق ہیں لیکن اس کے باوجود وہ خوش و خرم رہتے ہیں۔ اس پر موصوف نے ایک بار پھر ٹھنڈی آہ بھری اور کہا اللہ تعالیٰ انہیں ایسے حالات سے کبھی نہ گزارے جن حالات سے میں گزر رہا ہوں، ورنہ وہ بھی میری طرح پریشان حال نظر آتے۔ یہ سن کر مجھے واقعی تشویش ہوئی میں نے پوچھا خیر تو ہے؟ بولے کہاں خیر ہے صرف اس سال بزنس میں مجھے دو کروڑ کا گھاٹا پڑا ہے۔ میں نے افسوس کا اظہار کیا اور پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے چار کروڑ روپے کا منافع ہونا تھا مگر صرف دو کروڑ منافع ہوا، دوکروڑ کا نقصان ہی ہوا نا!

اس دوران بابا جی کپڑے تبدیل کرکے ہمارے پاس آ گئے تھے، ان کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ میں گھبرا گیا، میں نے پوچھا آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ انہوں نے سانس کو نارمل بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’اللہ کا شکر ہے بالکل فِٹ فاٹ ہوں!مجھے ایک دفعہ پھر ان کے بھتیجے کی ایک لمبی سرد آہ سنائی دی!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے